رواں برس غالباً وسط مئی کا ذکر ہے۔ کپتان کے صاحبزادے سوشل میڈیا انفلوئسزر ماریو نوفل کے ساتھ ایک انٹرویو میں منظر عام پر آئے۔ ماریو سوشل میڈیا پر خاصا جاندار ایمپکٹ رکھتا ہے۔ انڈیا پاکستان کی جنگ کی گرمی تھی، لہذا اس انٹری کی ٹائمنگ پر سوال اٹھے۔ عمومی سیزن ہوتا تو ماریو نوفل کے ساتھ ہوئی قاسم اور سلمان کی گفتگو کئی دن ملکی سیاسی مباحثوں کا حصہ رہتی۔ اب یہ دونوں ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ وجہ محترمہ علیمہ خان کا حالیہ اعلان ہے۔ محترمہ کا فرمان تھا کہ فرزندان خان اپنے باپ کی رہائی کے لیے پہلے امریکہ جائیں گے اور اگلے مرحلے میں احتجاجی تحریک کا حصہ بننے کے لیے پاکستان آنے کو ہیں۔ اس اعلان پر حکومت نے وقت سے پہلے ہی وارننگ سائن لگا کر بینر سرخیاں لہرانا شروع کر دیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صاحبزادے کیا واقعی پاکستان آئیں گے؟ یہ اعلان کیا اچانک ہوا؟ ان کی انٹری کیا فیصلہ کن کارڈ ہے؟ ان بنیادی سوالات پر غور کرنے کے لیے ہمیں ماریو نوفل کے ساتھ ہوئی گفتگو کا ایک حصہ بغور سمجھنا ہو گا۔ ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنے والد کی قید سے متعلق اب بولنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
قاسم خان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے قانونی راستے اختیار کیے اور ہر وہ راستہ آزمایا جس سے ہمیں لگا کہ عمران خان باہر آ سکتے ہیں لیکن ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اتنے عرصے تک اندر رہیں گے۔ اب جب کہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں تو ہمارے پاس زیادہ آپشنز نہیں بچے، ہم نے اب فیصلہ کیا ہے کہ عوامی سطح پر آنا ہو گا، اور بات کرنا ہو گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان کی رہائی سے متعلق پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ ہو۔‘انٹرویو کے اس حصے سے واضح ہوتا ہے کہ برخوردار یہاں کی صورت حال سے واقف تھے، اس پر مسلسل تشویش میں ہیں اور اسی لیے وہ اپنی پھپھو اور ایک دو دیگر ذمہ داران سے بھی مسلسل ربط میں تھے۔ لیکن کیا یہ طے ہو چکا کہ ان کی انٹری اس تحریک کا فائنل مرحلہ ہو گی؟امریکہ یاترہ سے اب وہ مطلوبہ نتائج کیسے برآمد ہوں گے جو اس سے پہلے وہاں بیٹھے محبان خان کی کاوشوں اور ان گنت ٹویٹس کے ذریعے پورے نہ ہو سکے؟ یاد رہے کہ اس سے پہلے ٹرمپ سرکار تحریک انصاف کی توقعات کے برعکس ایک ظہرانے کے بعد کسی اور کے عشاق میں شمار ہو رہی ہے۔کیا جمائما بی بی پاکستان کے حالات و واقعات کا ادراک رکھتے ہوئے صاحبزادوں کو بھرپور احتجاجی تحریک میں عملی طور پر شرکت کے لیے بھیجنے کو تیار ہوں گی؟ اگر ہوں گی تو کہیں پھر علی امین گنڈا پور 26 نومبر کی طرح 11 اضلاع کراس کرتے ہوئے کسی پرسکون مقام پر تو نہیں جا نکلیں گے؟ اور یہ کہ تحریک انصاف کو سلمان اور قاسم کی صورت میں بظاہر یہ ترپ کا پتہ اب کیوں کھیلنا پڑا؟رواں برس مئی میں کپتان کے صاحبزادے سوشل میڈیا انفلوئسزر ماریو نوفل کے ساتھ ایک انٹرویو میں منظر عام پر آئے۔ (فوٹو: سکرین گریب)ان سوالات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ نکتہ بھی سمجھنا ہو گا کہ کپتان کے اب تک رہے ہمسفر اور ان کی ہمیشرہ کے بیچ روایتی طور پر تعلقات روایتی گرمجوشی کے علاوہ زیادہ تگڑے نہیں رہے۔ اب یہ نوجوان مسلسل پھوپھی صاحبہ کے ساتھ رابطے میں تو ہیں لیکن ان کی عملی پرواز کا فیصلہ غالباً جمائما بی بی ہی کریں گی۔ یہ الگ بات کہ وہ خود بھی کپتان کے حق میں ایکس نامی فورم پر مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔ ناقص رائے میں امریکہ یاترہ سے یہ نوجوان فیملی تعلقات کے سبب ایمپکٹ ضرور پیدا کر سکتے ہیں لیکن اصل سوال پاکستان آمد سے ہی جڑا رہے گا، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ عملی طور پر پاکستان پہنچ کر تحریک کو لیڈ نہیں کریں گے۔ امکان یہ ہے کہ خان کے بیٹے فقط اپنے باپ سے ملاقات کے لیے پاکستان پہنچیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خود جیل جا کر اپنے والد سے ملیں اور ان کی خیریت دریافت کر سکیں۔ اس سلسلے میں ظاہر ھے کہ جب وہ قصد کریں گے تو تب برطانوی سفارت خانہ انکی بھرپور مدد بھی کرے گا۔حالیہ احتجاج اور دستیاب قیادت کے کردار سے ورکر قدرے نالاں ہے، دستیاب قیادت کی سنی جائے تو ان کا دکھ درد وکھری ٹائپ کی کتھا سے مزین ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک باریک دھاگے پر لٹکے ہیں، جس کے اطراف نہ وہ خوش ہیں نہ یہ۔ ادھر بھی سوال ادھر بھی سوال، جائیں تو کہاں جائیں۔ بہرحال ان کے کردار اور تحاریک کی ناکامی کی وجہ سے اب ورکر قدرے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ اسی مایوسی کا حل پھر نوجوانوں کی آمد کے اعلان میں ڈھونڈا گیا۔ قیادت کو لگتا ہے کہ ان بچوں کی وجہ سے تحریک میں مومینٹم پیدا ہو گا۔اگر کپتان کے جیل ہوتے ہوئے ان کے فرزند کسی تحریک کا حصہ بنتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ (فائل فوٹو: ایکس)رہ گئی کہانی سرکار کی تو ان کی جانب سے موروثیت کا طعنہ ناقابل فہم ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو منظر عام پر آئیں، میاں صاحب کی عدم موجودگی میں ان کی صاحبزادی اور موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب نے احتجاجی تحریک کو لیڈ کیا۔ یہاں ہمارے ہاں سیاسی منظر نامے کی تبدیلی کے باوجود عوام ابھی بھی اپنے پسندیدہ رہنماؤں کی عدم موجودگی میں ان کی اولاد سے خاص انسیت رکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر کپتان کے جیل ہوتے ہوئے ان کے فرزند کسی تحریک کا حصہ بنتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ یہ نوجوان عہدوں پر فائز ہونے کے متمنی تو ہرگز نہیں لہذا اعتراض فی الحال ناقابل فہم ہے۔ دیکھنا البتہ یہ ہو گا کہ دستیاب قیادت اس اعلان پر سیاسی بساط کیسے بچھاتی ہے۔ بیک فائر وگرنہ ہانیکارک ہو گا۔