کراچی کے علاقے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فیز 6 کی کمرشل لین فائیو میں قائم سی 6 عمارت بظاہر باقی عمارتوں کی طرح ہی نظر آتی ہے۔
دو دن قبل یہ مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب 8 جولائی کو اداکارہ حمیرا علی اصغر کی لاش اس عمارت میں موجود ایک اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی۔
جمعرات کی شام اس پانچ منزلہ عمارت کے باہر کچھ گاڑیاں تو کھڑی تھیں لیکن سی 6 عمارت کے باہر سنّاٹے کا راج تھا۔ یہ ایک پانچ منزلہ عمارت ہے جس کے ہر فلور پر دو اپارٹمنٹس موجود ہیں۔ حمیرا علی اصغر اس عمارت کی تیسری منزل پر رہائش پزیر تھیں۔
عمارت کے باہر کھڑے ہو کر اوپر کی طرف نظر دوڑائیں تو زیادہ تر اپارٹمنٹس کی کھڑکیاں یا تو بند نظر آتی ہیں یا پھر ان پر پردے پڑے ہیں۔ آس پاس سے گزرنے والے لوگوں سے اگر حمیرا کے بارے میں سوال کیا جائے تو ان کے چہرے پر کبھی حیرت اور کبھی الجھن کے تاثرات نظر آتے ہیں۔
اس عمارت کا دروازہ بند ہے اور صرف اندر سے باہر نکلنے والے مکین ہی اسے کھول سکتے ہیں۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
شام کے وقت جب اس عمارت سے باہر نکلنے والے ایک لڑکے سے ہم نے پوچھا کہ کیا وہ حمیرا علی اصغر کو جانتے تھے تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ اس عمارت میں صرف ایک ماہ پہلے منتقل ہوئے تھے۔
’ہمیں نہیں معلوم اوپر کون رہتا تھا، ہم نے بس سُنا ہے کوئی خاتون رہتی ہیں۔‘
اس عمارت کے نیچے ایک ویٹرنری کلینک بھی موجود ہے۔ اس کلینک کے عملے سے جب حمیرا کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔
کلینک میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے جلدبازی میں بتایا کہ ’ہم نے کبھی اس خاتون کو آتے جاتے نہیں دیکھا، ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ یہاں کوئی اداکارہ رہتی ہے۔‘
عمارت کا داخلی دروازہ کافی تگ و دو کے بعد کھلوا کر جب ہم تیسری منزل پر پہنچے تو وہاں حمیرا کے اپارٹمنٹ کے دروازے کے باہر ایک زرد پٹی موجود تھی جس پر اردو میں لکھا تھا: ’خبردار، اس سے آگے جانا منع ہے۔‘
اس کے نیچے دوازے پر مارکر سے لکھا ہے کہ ’یہ گھر سِیل کر دیا گیا ہے، گذری تھانے سے رابطہ کریں۔‘
یہ گھر تو سِیل کردیا گیا ہے اور اس میں کسی کو داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں لیکن کچھ اہم سوالات اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ اس اپارٹمنٹ کی رہائشی حمیرا علی اصغر کی موت کیسے اور کب واقع ہوئی۔
حمیرا علی اصغر کی موت کیسے اور کب واقع ہوئی؟
کراچی کے ضلع جنوبی کے ایس ایس پی مہروز علی نے بی بی سی کے ریاض سہیل کو بتایا تھا کہ ’اداکارہ حمیرا علی لاہور کی رہائشی تھیں اور اتحاد کمرشل کے علاقے میں سنہ 2018 سے فلیٹ میں رہتی تھیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 2024 سے انھوں نے کرایہ دینا بند کردیا تھا جس کے خلاف مکان مالک نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔‘
ایس ایس پی کے مطابق ’پولیس عدالت کے بیلف کے ساتھ منگل کو متعلقہ فلیٹ پر پہنچی تو دروازہ اندر سے بند تھا۔‘
’جب آہنی گیٹ اور لکڑی کا دروازہ توڑ کر پولیس اندر داخل ہوئی تو حمیرا علی کی لاش زمین پر موجود تھی جو کئی روز پرانی تھی۔‘
حمیرا اصغر کے بھائی لاش کی وصولی کے لیے کراچی پہنچ گئے ہیں: پولیسحمیرا اصغر کی موت کا معمہ: ’وہ ایک بہت اچھی اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی‘شیفالی زریوالا کی اچانک موت: ’دنیا میں صرف ایک ہی ’کانٹا لگا‘ گرل ہو سکتی ہے اور وہ میں ہوں‘’سوشانت آج زندہ ہوتے تو شائقین دل بیچارہ کے ٹریلر کو سستی لو سٹوری قرار دیتے‘
اداکارہ کی لاش جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر منتقل کیا گیا جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی تاریخ نہیں دی گئی، تاہم یہ ضرور لکھا گیا ہے کہ موت اور پوسٹ مارٹم کے درمیان گزر جانے والا وقت آٹھ سے 10 ماہ ہو سکتا ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق تمام جوڑ اور ہڈیاں سالم موجود ہیں، جسم گل چکا ہے اور اس پر سیاہ دھبے ہیں جبکہ زخم کا کوئی نشان نہیں پایا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موت کی اصل وجہ لیبارٹری اور کیمیکل نتائج کے بعد بتائی جائے گی۔
دوسری جانب کراچی کے ضلع جنوبی کے ڈی آئی جی اسد رضا نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اب تک پولیس کو اس موت کی ’کوئی مجرمانہ وجہ نظر نہیں آئی، تاہم تحقیقات جاری ہیں۔‘
دوسری جانب ضلع جنوبی کے ایس ایس پی مہروز نے صحافیوں کو بتایا کہ اداکارہ کے موبائل کے کال ڈیٹیل ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر آخری مرتبہ کوئی ایکٹویٹی اکتوبر 2024 میں ہی ہوئی تھی اور ان کے ریفریجریٹر سے ملنے والی کھانے کی اشیا پرایکسپائری ڈیٹ بھی اکتوبر کے قریب ہی کی درج ہے۔
ان کے مطابق حمیرا علی کا ’گھر اندر سے بند تھا اور ہم اسے توڑ کر ہی اندر داخل ہوئے تھے۔‘
اتنے عرصے تک موت کا کیوں پتا نہیں چل سکا؟
پولیس حکام اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق حمیرا کی موت ہوئے چھ سے آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔
یہاں لوگ یہ سوال اُٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان کی موت اتنے عرصے تک کیسے چھپی رہی؟
بی بی سی اردو کو حمیرا کے اپارٹمنٹ کے کرایہ نامہ تک رسائی حاصل ہوئی ہے جس پر حمیرا اور مالک مکان کی جانب سے دسمبر 2018 میں دستخط کیے گئے تھے۔
اس کے مطابق اس وقت ان کے فلیٹ کا ماہانہ کرایہ 40 ہزار روپے طے پایا تھا اور اس کا قبضہ لیتے وقت اداکارہ نے 1 لاکھ 60 ہزار روپے ایڈوانس دیا تھا۔
اسی کرایہ نامہ میں لکھا ہے کہ حمیرا کا تعلق لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن سے تھا، جبکہ ان کے فلیٹ کے مالک کا پتہ کوئٹہ کینٹ کا ہے۔
ایک رہائشی عمارت جس میں دیگر افراد بھی رہتے تھے وہاں حمیرا کی موت کیسے لوگوں کی نگاہوں سے چھپی رہی؟
جب جمعرات کو صحافیوں نے ایس ایس پی مہروز علی سے پوچھا کہ کیا حمیرا کے پڑوسیوں کو لاش سے اٹھنے والے تعفن سے بھی کوئی گڑبڑ محسوس نہیں ہوئی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’آپ نے وہ بلڈنگ دیکھی ہوگی جو کہ تقریباً 150 گز کے رقبے پر محیط ہے اور اس بلڈنگ کی ہر منزل دو فلیٹس ہیں۔‘
’ان کے پڑوسی کہتے ہیں کہ اس دوران ہم گھر پر موجود نہیں تھے اور وہ فروری میں واپس آئے ہیں۔ جو لاش کے گلنے کا ابتدائی عمل ہوتا ہے وہ تب (فروری) تک پورا ہو چکا ہوگا اور تب تک (لاش سے اُٹھنے والی) بدبو مدھم ہو گئی ہوگی۔‘
اداکارہ حمیرا اصغر کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر آخری پوسٹ ستمبر 2024 کے آخر میں کی گئی تھی اور اس دوران وہ ایک میگزین کے لیے فیشن شوٹ کر رہی تھیں۔
اس شوٹ کے وقت سٹائلسٹ دانش مقصود نے ان کی سٹائلنگ کی تھی۔ انھوں نے کراچی کے صحافی قیصر کامران صدیقی کو بتایا کہ اداکارہ حمیرا اصغر سے واٹس ایپ پر ان کا آخری رابطہ 2 اکتوبر 2024 میں ہوا تھا۔
دانش مقصود کی طرف سے شیئر کیے گئے واٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو کے سکرین شاٹ کے مطابق حمیرا علی اصغر انھیں کہہ رہی تھیں کہ ’آپ کی ٹیم کے ساتھ کام کر کے لُطف آیا۔‘
اسی سکرین شاٹ پر ’لاسٹ سین‘ (یعنی آخری بار دیکھا گیا) کے آگے 7 اکتوبر 2024 لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سے بظاہر یہی لگتا ہے جیسے اداکارہ کا واٹس ایپ اکاؤنٹ آخری مرتبہ گذشتہ برس اکتوبر میں ہی استعمال کیا گیا تھا۔
لیکن حمیرا کے گھر سے ملنے والے دو موبائل فونز کا فارنزک تجزیہ ہونے تک اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔
تاہم دانش مقصود کہتے ہیں کہ انھوں نے رواں برس فروری میں حمیرا اصغر سے رابطہ کرنے کی نہ صرف کوشش کی تھی بلکہ ان کی ٹیم نے فلانٹ پاکستان میگزین نامی فیس بُک پیج سے ان کی ’گمشدگی‘ کی پوسٹ بھی لگائی تھی۔
حمیرا اصغر کا خاندان کہاں ہے؟
حمیرا اصغر کی موت کی خبر منظرِ عام پر آنے کے بعد ہی مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں گردش کر رہی تھیں کہ ان کا خاندان ان سے ناراض تھا اور ان کی جانب سے اداکارہ کی لاش وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا گیا ہے۔
اس کے بعد متعدد شخصیات کی جانب سے یہ بیانات سامنے آئے کہ وہ اداکارہ کی آخری رسومات اداکارہ کریں گے۔ ان شخصیات میں اداکارہ سونیا حسین اور سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ جوئیلری انٹرپرینیور مہربانو سیٹھی نے بھی چھیپا سے رابطہ کیا اور تدفین کے لیے رقم تک بھیجی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرا دل ہے کہ حمیرا کو بس یہ پتہ ہو کہ دنیا نے اسے لاوارث نہیں چھوڑا، تھوڑی بہت ہمدردی اور انسانیت ابھی باقی ہے۔‘ ان کے مطابق حمیرا کی تدفین کی لیے ’بہت سے اور لوگوں نے کراچی میں قدم آگے بڑھایا۔‘
تاہم جمعرات کو کراچی پولیس کے دو سینیئر افسران ڈی آئی جی اسد رضا اور ایس ایس پی مہروز علی نے ان کے خاندان کے دو افراد کی کراچی آمد کی تصدیق کی۔
ایس ایس پی مہروز علی صحافیوں کو بتایا کہ حمیرا اصغر کی لاش وصول کرنے ان کے بھائی اور بہنوئی آئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اداکارہ کے گھر والوں نے انھیں بتایا کہ ’حمیرا اصغر خود ہی ہم سے رابطہ کرتی تھیں، ہم رابطہ نہیں کرتے تھے اور جب چھ، سات مہینوں تک ان کا رابطہ نہیں ہو پایا تو پھر اہلخانہ نے حمیرا کے قریبی لوگوں سے رابطہ کیا اور انھوں نے بھی گھر والوں کو یہ بتایا کہ ان کا حمیرا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔‘
جمعرات کی رات کو حمیرا کے بھائی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میڈیا میں تاثر دیا گیا کہ والدین لاش وصول نہیں کر رہے۔ لاش اگر پولیس کے پاس ہو تو قانونی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں۔‘
نوید اصغر نے مزید کہا کہ ’ہم چھیپا صاحب اور پولیس سے رابطے میں تھے۔ ایک ماہ قبل میری پھوپھو کی روڈ ایکسیڈنٹ میں موت ہوئی تھی، والدین اس وجہ سے بھی پریشان تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ غلط تاثر دیا گیا کہ والدین کا حمیرا سے قطع تعلق تھا۔ وہ (حمیرا) ایک خود مختار خاتون تھیں، ان کی اپنی پہچان تھی۔‘ تاہم ان کے مطابق ان کی والدہ کا حمیرا سے کافی ماہ سے رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔
اس خبر کے لیے اضافی رپورٹنگ کراچی کے صحافی قیصر کامران صدیقی نے کی ہے۔
حمیرا اصغر کی موت کا معمہ: ’وہ ایک بہت اچھی اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی‘’عرفان خان کو ہم نے وہ نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے‘سدھارتھ شکلا کی موت: ’جب کہانی نامکمل ہو لیکن کتاب بند ہو جائے‘بالی وڈ: وہ فلمی ستارے جنھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں کیافیصل آباد میں 48 چینی شہریوں سمیت 149 افراد گرفتار: مبینہ جعلسازی جس میں فری لانسنگ کی جعلی کمپنی قائم کی گئیپاکستان میں ’امیر آدمی‘ کی گاڑی سستی اور ’عام آدمی‘ کی سواری مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟