پاکستان میں بچوں میں تیزی سے بڑھتا ذیابیطس کا مرض: ’ہم نے تو کبھی سُنا تک نہیں تھا کہ بچوں کو بھی شوگر ہو سکتی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 11, 2025

Getty Images

’میرا بیٹا 12 سال کا تھا۔ وہ دوسرے شہر کے سفر سے لوٹا تو تھکا تھکا رہنے لگا۔ بخار، قبض اور کمزوری کی شکایت ہو گئی۔ مجھے لگا یہ سب سفر کرنے سے ہوا ہے لیکن میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسے ذیابیطس کی بیماری ہو سکتی ہے۔‘

عمارہ خان دو سال سے اسی بے یقینی کی کیفیت میں ہیں۔ ان کی والدہ اور ساس دونوں اس مرض میں مبتلا ہیں لیکن چونکہ ان کے شوہر، وہ خود اور دیگر بڑے بچے صحت مند ہیں اس لیے انھیں یقین نہیں آیا کہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا احمد اس بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

مجموعی آبادی میں ’ذیابیطس‘ کے مریضوں کے تناسب کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔ ذیابیطس ایک ایسی حالت ہے جس میں جسم ضرورت کے لیے کافی انسولین نہیں بنا سکتا ہے یا عام طور پر انسولین کا استعمال نہیں کرسکتا ہے۔

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔

اسلام آباد میں ذیابیطس کے ہسپتال ’دی ڈائبیٹیز سینٹر‘ کے چیئرمین ڈاکٹر اسجد حمید کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ہر چوتھا فرد ذیابیطس کا مریض ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کا ہر دو لاکھ میں سے ایک بچہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو رہا ہے۔ اور ان مریض بچوں میں سے 90 فیصد بچے ٹائپ 2 ذیابیطس جبکہ 10 فیصد ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ٹائپ 2 میں کمپلیکیشن کا رسک زیادہ ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کے مرض کے حوالے سے آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں بروقت تشخیص کا نہ ہونے میں ڈاکٹرز بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں تو کہتا ہوں کہ دنیا میں کہیں بھی ایشین نظر آئے اس کا سب سے پہلے ذیابیطس لیول چیک کریں۔ ایسے کیسز بھی ہوئے کہ لوگوں کا 20 کلو تک وزن کم ہو گیا لیکن ڈاکٹروں نے سب ٹیسٹ کروائے لیکن شوگر کا ٹیسٹ نہیں کروایا۔ اور تو اور عام مزدوری پیشہ آدمی کے لیے تو اس کا علاج بھی مہنگا ہے کیونکہ اس ہر کم از کم ماہانہ 20 ہزار تک خرچہ آتا ہے۔‘

ذیابیطس سے کیسے بچا جائے اور اس کا علاج کیا ہے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے جانتے ہیں کہ بچوں میں یہ مرض کیوں ہوتا ہے اور اس کی کتنی اقسام ہیں۔

Getty Images’پاکستان میں ہر دو لاکھ میں سے ایک بچہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو رہا ہے۔ اور ان مریض بچوں میں سے 90 فیصد بچے ٹائپ 2 ذیابیطس جبکہ 10 فیصد ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہیں‘بچوں کو ذیابیطس کیوں ہوتی ہے؟

عمارہ بتاتی ہیں وہ ’پہلے تو قبض کے علاج کے لیے اپنے بیٹے کو حکیم کے پاس لے گئے لیکن اس کی دوا سےکوئی بہتری نہیں آئی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’اس کے بعد ہم اسے قریبی ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ پہلے تو ڈاکٹر نے اس کی حالت کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اینٹی بائیوٹک لکھ دی۔ لیکن اس سے احمد کی حالت مزید خراب ہونے لگی، ایسا لگنے لگا جیسے اس میں جان ہی نہیں رہی۔‘

اس کے بعد جب تفصیلی ٹیسٹ لیے گئے تو احمد میں ٹائپ 2 ذیابیطس کی تشخیص ہوئی۔

عمارہ بتاتی ہیں ’ڈاکٹر تو اب بھی یہی کہتے ہیں کہ کوئی پریشانی کی بات نہیں بچے کو انسولین لگاتے رہیں اور جو چاہتا ہے اسے کھلاتے رہیں۔‘

لیکن عمارہ کہتی ہیں ’یہ خبر پوری خاندان کے لیے ایک گہرا صدمہ تھی کہ اتنے چھوٹے بچے کو کیسے ذیابیطس ہو گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ ڈاکٹرز نے کہا کہ پریشانی کی بات نہیں اسے کچھ بھی کھانے سے نہ روکیں تو ہم کھانے میں ہلکی پھلکی احتیاط کرتے ہیں اور میں نے گھر میں میٹھا بنانا چھوڑ دیا ہے۔‘

’محلے یا سکول کے بچے اس کے بارے میں منفی باتیں کرتے ہیں کہ یہ تو ایسا ہے۔۔۔ اس پر احمد پریشان ہوتا ہے۔ میں اسے کہتی ہوں کہنے دوں۔ ظاہر ہے بچہ اپ سیٹ ہوتا ہے۔‘

Getty Images

احمد کو ٹائپ 2 ذیابیطس ہے جس کا علاج اور کنٹرول نسبتاً آسان ہے۔

لیکن صغریٰ اویس کے لیے تو یہ خبر ہی ان پر پہاڑ بن کر ٹوٹی جب چند ماہ پہلے انھیں پتا چلا کہ ان کی 12 سالہ بیٹی کو ٹائپ 1 ذیابیطس ہو گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں ’ہم نے تو کبھی سنا بھی نہیں تھا کہ بچوں کو بھی ذیابیطس ہو سکتی ہے۔ ہمارے تو خاندان میں دور دور تک کسی کو شوگر نہیں۔‘

انھیں اپنی بیٹی کی صحت میں کسی بڑی خرابی کا خدشہ اس وقت ہوا جب پہلے تو اس کے وزن میں بہت تیزی سے کمی ہوئی اور پھر وہ بار بار پیشاب کی حاجت محسوس کرتی۔

صغریٰ بتاتی ہیں ’پہلے تو ایک خاتون ڈاکٹر نے کہا اسے باہر کی چیزیں ٹافیاں، پاپڑ وغیرہ نہ کھانے دیں یہ ٹھیک ہو جائے گی، لیکن ایک بار یہ سکول میں چکرا گئی تو میں پریشان ہوئی۔ جب دوسرے ڈاکٹر کو دکھایا تو علامات پوچھنے کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ ٹیسٹ کروائیں یہ ذیابیطس کی علامات لگ رہی ہیں۔‘

’میں نے کہا نہیں اس کو شوگر نہیں ہو سکتی، ہمارے تو نہ خاندان میں کسی کو شوگر ہے اورنہ ہم زیادہ میٹھا کھاتے ہیں۔ لیکن ٹیسٹ آئے تو ڈاکٹر نے کہا اسے کسی بڑے ہسپتال لے جائیں اس کا شوگر بہت ہائی ہے۔ ہم ہسپتال گئے تو اسے آئی سی یو میں ایڈمٹ کیا گیا۔‘

صغری کا کہنا تھا ’ڈاکٹروں نے بتایا کہ اسے ٹائپ ون ذیابیطس ہوا ہے۔ یہ بچوں میں ہو جاتا ہے۔ میں اور میرے میاں زیادہ پڑھے لکھے نہیں اس لیے انھوں نے یہی بتایا تھا کہ لبلبے کا کوئی مسئلہ ہے۔ ہم ڈر گئے تھے۔ ڈاکٹرز ایسے کہہ رہے کہ اس کے دل پر اثر ہو سکتا ہے۔ حالانکہ ہماری بچی بہت فریش تھی، بس وزن گر رہا تھا۔‘

انھوں نے مزید بتایا ’اب وہ دوائیں لیتی ہے۔ ایک انسولین 24 گھنٹے بعد لگتی ہے اور ایک انسولین دن میں تین مرتبہ لگتی ہے۔ دوائیں مہنگی ہیں اور کبھی کبھی تو دوائیں ملنا بند ہو جاتی ہیں۔ ایک بار رات کو تین بجے ہسپتال لے گئے وہاں بھی دوا نہیں ملیں۔‘

انھوں نے بھرائے ہوئے لہجے میں بتایا کہ ’سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بچے انجیکشن کی سوئی سے ڈرتے ہیں اور میری بیٹی کو دن میں چار بار سوئیاں لگتی ہیں۔ لیکن میری بیٹی بہادر ہے اب عادی ہو گئی ہے اور خود انسولین لگانے لگی ہے۔ وہ چاہتی ہے زندگی نارمل گزارے اس لیے کسی سے بیماری کا ذکر بھی نہیں کرنے دیتی۔‘

’دی ڈائبیٹیز سینٹر‘ کی ماہر ڈاکٹر نزہت حمید کے پاس اس وقت بھی کم از 3000 بچے اس مرض کے لیے زیرِ علاج ہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق ذیابیطس ٹائپ 2 کا سب سے زیادہ شکار 10 سے 18 سال کی عمر کے بچے ہیں۔

اگرچہ عمارہ کے اپنے خاندان اور سسرال میں پہلے سے یہ مرض موجود تھا لیکن انھیں لگتا ہے کہ احمد کے ابتدائی علاج میں اینٹی بائیوٹکس دیے جانے سے ری ایکشن ہوا اور اسے ذیابیطس ہوئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’احمد پیدائشی طورپر صحت مند تھا۔ اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ کمزوری دور کرنے کے لیے میں اسے شربت دیتی رہی شاید یہی مرض کی وجہ بن گئے۔‘

لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر نزہت حمید نے بتایا کہ ’دراصل ذیابطس ایک آٹو امیون بیماری ہے۔ یعنی جسم میں انسولین پیدا کرنے والے خلیے خود بخود ختم ہونے لگتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اینٹی بائیوٹکس صرف انفیکشن کا علاج کرتی ہیں اور جسم میں انفیکشن کی وجہ یہی تھی کہ جسم ذیابیطس کی موجودگی کے باعث پہلے سے کمزور ہو چکا تھا۔ یہ کسی نہ کسی انفیکشن کی صورت میں سامنے آ جاتا ہے۔ یہ پیشاب کا، دانتوں کا یا چیسٹ کا انفیکشن بھی ہو سکتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا ’ٹائپ ون ایک جینیاتی بیماری ہے اور یہ کسی کو بھی ہو سکتی ہے اور یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ایک بچے کو کیوں ہوتی ہے اور دوسرے کو کیوں نہیں ہوتی۔ تاہم ٹائپ 2 خاندان میں پہلے سے کسی مریض کے ہونے کی وجہ سے بھی منتقل ہوتی ہے اور غیر صحت مند رویوں اور کھانے عادت سے بھی ہوسکتی ہے۔‘

ذیابیطس کیا ہے اور آپ اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟پاکستانی نوجوانوں میں بڑھتی ذیابیطس: شوگر کے باوجود نارمل زندگی کیسے ممکن؟’ذیابیطس کی دو نہیں پانچ مختلف اقسام ہیں‘کیا ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے بعد اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟Getty Imagesبچوں میں ٹائپ1 ذیابیطس کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟

ٹائپ1ذیابیطس ایک آٹومیون ڈس آرڈر ہے۔ جسم کا مدافعتی نظام لبلبے میں موجود خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے جو انسولین بناتے ہیں۔

انسولین ایک ہارمون ہے۔ یہ خون میں شوگر (گلوکوز) کو جسم کے خلیوں میں ایندھن کے طور پر استعمال کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جب گلوکوز خلیوں میں داخل نہیں ہوسکتا ہے تو یہ خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسے ہائی بلڈ شوگر (ہائپرگلیسیمیا) کہا جاتا ہے۔

ہائی بلڈ شوگر پورے جسم میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ یہ خون کی شریانوں اور اعصاب کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ آنکھوں، گردوں اور دل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ تھکاوٹ جیسی علامات کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

ٹائپ 1ذیابیطس ایک دائمی حالت ہے۔ یہ کسی بھی عمر میں شروع ہوسکتی ہے۔ زیادہ تر یہ پچوں میں پیدائشی طور پر ہوتا ہے۔

ٹائپ 1 ذیابیطس کی وجہ نامعلوم ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ کچھ لوگوں کو ایک جین وراثت میں ملتا ہے جو ٹائپ 1 ذیابیطس کا سبب بن سکتا ہے اور یہ کسی وائرل انفیکشن سے متحرک ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر نزہت حمید نے بتایا کہ ’بچپن سے ہونے والی ذیابیطس میں ٹائپ ون وہ قسم ہے جس کا علاج صرف دواؤں سے ممکن ہے اور بدقسمتی سے یہ علاج تمام عمر چلتا ہے۔ اور بچوں میں یہ قسم سب سے زیادہ ہوتی ہے۔‘

بچوں میںٹائپ 1ذیابیطس کی علامات کیا ہیں؟

ٹائپ 1 ذیابیطس اکثر اچانک ظاہر ہوتی ہے۔ بچوں میں ، ٹائپ 1ذیابیطس کی علامات فلو کی علامات کی طرح لگ سکتی ہیں تاہم ہر بچے میں اس کی علامات مختلف ہوسکتی ہیں۔

ٹیسٹ کرنے پر خون اور پیشاب میں گلوکوز کی اعلی سطح ظاہر ہوناغیر معمولی پیاسجسم میں پانی کی کمیبار بار پیشاب آنا چھوٹے بچوں میں بار بار ڈائپر بدلنے کی ضرورت پڑنامتلی اور قےپیٹ میں دردکمزوری اور شدید تھکاوٹچڑچڑا پن اور موڈ میں تبدیلیسنگین ڈائپر ریش جو علاج کے ساتھ بہتر ہوجاتے ہیںسانس پھولنالڑکیوں میں پیشاب کے انفیکشنشدید بھوک لیکن وزن میں کمیچھوٹے بچوں میں بھوک کی کمیدھندلا نظر آنا

ڈاکٹرز کے مطابق ٹائپ 1 ذیابیطس کی علامات دیگر طبی مسائل کی طرح لگ سکتی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے بچے کو تشخیص کے لیے ڈاکٹر کے پاس ضرور لے کر جائیں۔

ٹائپ 1ذیابیطس والے بچوں کو خون میں گلوکوز کی سطح کو معمول کی حد کے اندر رکھنے کے لیے روزانہ انسولین کے انجکشن لگوانا ضروری ہے۔

انسولین یا تو انجکشن یا انسولین پمپ کے ذریعہ دی جاتی ہے۔آپ کے بچے کو کس طریقے سے انسولین دینی ہے اس کا فیصلہ ڈاکٹر کرتے ہیں۔

بہتر علاج کے لیے:

خون میں گلوکوز کی سطح کو منظم کرنے کے لیے صحیح غذائیں کھائیں۔اس میں کھانے کا اوقات مقرر کرتا ور کاربوہائیڈریٹس کی محدود مقدار معیّن کرنا شامل ہے۔بلڈ شوگر کو کم کرنے کے لیے ورزش کریں۔خون میں گلوکوز کی سطح معلوم کرنے کے لیے باقاعدگی سے خون کی جانچ کروائیںکیٹون کی سطح کو چیک کرنے کے لیے باقاعدگی سے پیشاب کی جانچ کروائیںGetty Images’ذیابیطس سے ہر سال ڈیڑھ سے دو لاکھ پاکستانی معذور‘’ہر چوتھا پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہے‘بچوں میں ٹائپ 2ذیابیطس کیا ہے؟

ٹائپ 2ذیابیطس ایک میٹابولک ڈس آرڈر ہے۔ اس میں بھی جسم کافی انسولین نہیں بنا سکتا یا عام طور پر انسولین استعمال نہیں کر سکتا۔اس کی بھی کی وجہ نامعلوم ہے لیکن یہ خاندانوں میں آگے منتقل ہو سکتی ہے۔ اس حالت کے لیے اکثر موٹاپا اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ڈاکٹر اسجد حمید بتاتے ہیں کہ ’جب جسم میں شوگر لیول بڑھنے لگتا ہے تو وزن بھی بڑھنے لگتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے جب پیک آتی ہے اور وزن تیزی سے گرنے لگتا ہے۔ اور اکثر یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ انھیں ذیابیطس لاحق ہو گیا ہے۔‘

بچوں میں ٹائپ 2ذیابیطس کی وجہ بھی خاندانی تاریخ، وزن اور مناسب ورزش نہ کرنا ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹرز مشورہ دیتے ہیں کہ ایسے بچے جن میں ٹائپ 2ذیابیطس کا خطرہ ہو ان کی طبی جانچ کرتے رہنا چاہیے خصوصاً خون کے ٹیسٹ تاکہ بروقت تشخیص ہو سکے۔

ڈاکٹر نزہت حمید کا کہنا تھا ’چونکہ پاکستان میں عمومی طور پر ذیابیطس زیادہ ہے اس لیے اب تک بچوں میں بھی آ گئی ہے اور بچوں میں موٹاپا بھی زیادہ ہو گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے اس کو بڑوں کی بیماری سمجھا جاتا تھا لیکن اب پاکستان میں مجموعی آبادی میں ٹائپ ون کے مریض 5 سے 10 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی حتمی ڈیٹا میسّر نہیں ہے۔‘

’اگرچہ بچوں میں ٹائپ 2 کا تناسب زیادہ ہے لیکن زیادہ تر تشخیص ٹائپ ون کی ہوتی ہے کیونکہ اس میں بچوں کی صحت بہت تیزی سے گرتی ہے جسے درگزر کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ لیکن ٹائپ 2 بچوں اور بڑوں دونوں میں آہستہ آہستہ بڑھتی ہے۔ اس کی علامات بہت ڈرامائی نہیں ہوتی۔‘

ڈاکٹر نزہت بتاتی ہیں کہ لوگ جسم کی جانب سے دی جانے والی اکثر پیشگی وارننگز کو یا تو سمجھ نہیں پاتے یا پھر اہمیت ہی نہیں دیتے۔

وہ کہتی ہیں ’وزن بڑھتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کھا زیادہ رہے ہیں۔ پیشاب زیادہ آتا ہے تو سمجھتے ہیں پانی زیادہ پی لیا اور پانی اس لیے زیادہ پیا کیونکہ گرمی بہت ہے۔ بھوک زیادہ لگے تو سوچتے ہیں آج کام بہت کیا۔ غرض چھوٹی چھوٹی علامات کو اہمیت نہیں دیتے لیکن جب وزن بہت زیادہ گرتا ہے تو چیک کروانے جاتے ہیں۔‘

ٹائپ 2ذیابیطس والے بچوں کو جن مسائل کا خطرہ ہو سکتا ہے ان میں ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول،فیٹی لیور، ڈپریشن، کھانے کی عادات کی خرابی شامل ہیں۔

دیگر ممکنہ پیچیدگیاں جو بعد میں زندگی میں ظاہر ہوسکتی ہیں ان میں شریانوں کی بیماری، گردوں اور آنکھوں کو نقصان، دل کی بیماری اور اعصابی نظام کو نقصان شامل ہیں۔

بچے میں ٹائپ 2ذیابیطس کی علامات کیا ہیں اور علاج کیسے ہوتا ہے؟

وزن میں اضافہ یا بہت زیادہ کمیمثانے میں بار بار انفیکشنجلد کے انفیکشن اور زخم جو آسانی سے ٹھیک نہیں ہوتےٹیسٹ کرنے پر خون اور پیشاب میں گلوکوز کی اعلی سطحہاتھوں یا پیروں میں جھنجھلاہٹ یا ان کا سُن ہو جاناجلد مختلف جگہ سے گہری سانولے رنگ کی ہونا خاص طور پر گردن یا بغل کے آس پاس

ذیابیطس کے خطرے کا شکار بچوں کے لیے باقاعدگی سے چیک اپ خاص طور پر اہم ہے۔تاہم بہتر ہے کہ ان علامات کے باوجود تشخیص کے لیے ڈاکٹر کے پاس ضرور جائیں۔

بچوں میں ذیابیطس کی تشخیص کے بعد علاج متاثرہ بچے کی علامات، عمر اور صحت پر منحصر ہوگا۔ یہ اس بات پر بھی منحصر ہوگا کہ حالت کتنی سنگین ہے۔علاج کا مقصد خون میں گلوکوز کی سطح کو جتنا ممکن ہو معمول کے قریب رکھنا ہے۔

اس کے لیے ممکنہ علاج میں صحت مند غذا، اگر ضرورت ہو تو وزن میں کمی، باقاعدگی سے ورزش، انسولین ریپلیسمنٹ تھراپی، بلڈ شوگر لیول کی باقاعدگی سے جانچ پڑتال، اگر ضرورت ہو کھانے والی دوائیں شامل ہیں۔

Getty Imagesذیابیطس بچوں کو کس طرح متاثر کرتی ہے اور اس سے کیسے بچیں؟

ماہرین کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ، ہائی بلڈ شوگر کی سطح خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔انسولین، غذا اور بچے کی سرگرمیوں میں توازن رکھنے سے خون میں شوگر کی سطح کو ایک حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور پیچیدگیوں کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ممکنہ مسائل میں آنکھوں کے مسائل، گردے کی بیماری، اعصاب کو نقصان، دانتوں اور مسوڑھوں کے مسائل، جِلد اور پاؤں کے مسائل، دل اور خون کی شریانوں کی بیماری شامل ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ والدین اپنے بچے کے ساتھ ایک عام صحت مند بچے کی طرح برتاؤ کرکے ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ ذیابیطس سے متعلق بچے کے بھائی بہنوں اور قریبی خاندان کے افراد کو معلومات دیں تاکہ وہ آپ کے بچے کو سمجھ سکیں اور مدد کرسکیں۔

اگر آپ کا بچہ سکول جاتا ہے تو پرنسپل اور اساتذہ بھی مددگار ہو سکتے ہیں تاکہ طبیعت کی خرابی کی صورت میں نہ صرف مدد کریں بلکہ والدین کو بر وقت آگاہ کریں۔

ڈاکٹر نزہت حمید کہتی ہیں ’پہلی بات تو یہ اب صورتحال ایسی ہے کہ کسی بچے کو ذیابیطس ہونے کے لیے خاندان میں پہلے سے اس مرض کا ہونا ضروری نہیں رہا تاہم اگر والدین میں سے کسی کو پہلے سے ذیابیطس ہے تو انھیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘

وہ تاکید کرتی ہیں کہ ’بچوں کے وزن کا دھیان رکھیں۔ اسے بڑھنے نہ دیں، صحت مند خوراک کھانے کی عادت ڈالیں۔ ضروری نہیں کہ جسے ذیابیطس ہے وہی پرہیز کرے۔ یاد رہے کہ اس خاندان کے سب لوگ رسک پر ہیں۔ صحت مند تبدیلیاں سب کے لیے اپنائیں کیونکہ ہر نسل کے بعد یہ بیماری نسبتاً کم عمری میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔‘

دی ڈائبیٹیز سنٹر کے ماہرینِ غذائیت کہتے ہیں کہ ’بچوں کو خالص خوراک دیں۔ سفید یا ریفائن آٹا یا میدہ نہ کھائیں بلکہ خالص آٹا کھائیں اس میں فائبر ہوتا ہے۔ ان کا اچھا متبادل بیسن یا جو کا آٹا بھی ہے۔میٹھے میں پھل اور ڈرائی فروٹ کھائیں۔‘

ڈاکٹر نزہت کہتی ہیں ’ہمیں کھانے کی عادات بدلنے کی ضرورت ہے۔ کھانے کے اوقات اور مقدار کو جسم میں ہاضمے کی قوت کے حساب سے بدلتا ہوگا۔ صبح کے اوقات میں ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اس لیے اس میں کاربوہائیڈریٹ، پروٹین اور پھل سب شامل ہونا چاہیے۔‘

’عموما یہ توجہیہ ہوتی ہے کہ بھوک نہیں لگی اور بھوک نہ لگنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم پچھلی رات پیٹ بھر کر کھانا کھا چکے ہوتے ہیں۔ یہ سب روکنا ہوگا۔ ناشتے اور دوپہر میں ہاضمہ اچھا ہوتا ہے ان اوقات میں زیادہ کھائیں رات میں بہت کام کھائیں۔ صحت مند زندگی کے لیے ہمیں کھانے کی عادت میں تبدیلی کرنی ہے۔‘

انھوں نے مزید وضاحت کی کہ 'بچوں میں ذیابیطس کی ایک وجہ ان کی جسمانی سرگرمیوں میں کمی ہے۔ ایک تو سکولوں میں کھیلنے کے میدان نہیں رہے، بچے سارا دن بیٹھ کر پڑھتے ہیں، گھر آکر والدین انھیں شور سے بچنے کے لیے سکرین کے سامنے بٹھا دیتے ہیں۔‘

ڈاکٹر نزہت نے خبر دار کیا کہ ’والدین میں سے کسی ایک کو ذیابیطس ہو تو بچوں میں اس مرض کے ہونے کا امکان 30 فیصد ہوتا ہے اگر دونوں والدین اس مرض کا شکار ہوں تو امکان دو گناہ ہو جاتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’ٹائپ ون کے لیے اگرچہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ قدرت کی طرف ہے اور آٹو امیون بیماری ہے لیکن ٹائپ 2 ایسی قسم ہے جسے ہم روک سکتے ہیں جو بہت تیزی سے پھیل بھی رہی ہے۔‘

کیا ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے بعد اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟پاکستانی نوجوانوں میں بڑھتی ذیابیطس: شوگر کے باوجود نارمل زندگی کیسے ممکن؟’ذیابیطس کی دو نہیں پانچ مختلف اقسام ہیں‘ذیابیطس کیا ہے اور آپ اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟بلڈ شوگر ڈائیٹ کیا ہے اور اگر آپ کو ذیابیطس نہیں تو ڈاکٹر اس سے گریز کا مشورہ کیوں دیتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More