سیاسی انفلوئنسرز اور ٹرولز کا گورکھ دھندہ جو پاکستان میں سینسرشپ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن پر اثرانداز ہو رہے ہیں

بی بی سی اردو  |  Feb 06, 2024

کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے انفلوئنسرز پاکستانی میڈیا میں سینسرشپ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی حریفوں کو آن لائن ہدف بنا رہے ہیں۔

فی الوقت جیل میں قید عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف کا مقابلہ نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے۔ نواز شریف کی جماعت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔

عمران خان بدعنوانی سمیت دیگر الزامات کے باعث قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

عمران خان کی قید، ملک بھر میں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ اور پی ٹی آئی ہنماؤں پر کریک ڈاؤن کے باعث پی ٹی آئی کی سینسرشپ اور ان پر پابندیاں عائد کرنے کے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔

جہاں اس وقت معلومات کا خلا موجود ہے، فوج اور پی ٹی آئی کے حامی انفلوئنسرز اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر مصدقہ معلومات پھیلانے میں مصروف ہیں۔

Getty Imagesپی ٹی آئی کا ورچوئل فنڈ ریزنگ ایونٹسینسرشپ

انٹرنیٹ پر ریسرچ کرنے والے گروپ ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اور صحافی اسامہ خلجی کہتے ہیں کہ میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ ’پی ٹی آئی کی ہر قسم کی کوریج کو سینسر کر رہے ہیں۔‘ اُن کے مطابق ایسا آن لائن بھی کیا جا رہا ہے۔

انٹرنیٹ کی مانیٹرنگ کرنے والے پلیٹ فارم ’نیٹ بلاکس‘ کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ سے منسلک مسائل کا براہ راست تعلق پی ٹی آئی کے آن لائن جلسوں سے ہے۔ نیٹ بلاکس کے بانی ایلپ ٹوکر کہتے ہیں کہ ’اس حوالے سے واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ جب بھی عمران خان کی جانب سے آن لائن تقریریں کی گئیں تو ہمیں انٹرنیٹ کی بندش دیکھنے کو ملی ہے۔‘

ٹوکر کہتے ہیں کہ ان معلومات کو بلیک آؤٹ کرنے کے باعث ’لوگ اپنے طور پر مصدقہ معلومات کی تلاش میں نکلتے ہیں اور اپنے طور پر مفروضے بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

اس تمام صورتحال سے نمٹنے کے لیے پی ٹی آئی نے جدید طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائی ہے جس میں مصنوعی ذہانت اور ٹک ٹاک جلسے شامل ہیں۔ گذشتہ برس دسمبر میں پی ٹی آئی کی جانب سے مصنوعی ذہانت کا سہارا لیتے ہوئے عمران خان کی وائس کلون کر کے اُن کی تقریر ایک آن لائن جلسے میں نشر کی گئی۔

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ جبران الیاس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے کیسے عمران خان کی غیر موجودگی میں نئے طریقے آزمائے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے کبھی بھی ایسی سیاسی ریلی کا انعقاد نہیں کیا تھا جس میں عمران خان خود موجود نہ ہوں۔ چاہے وہ کوئی جلسہ ہو یا ورچوئل ایونٹ۔ ہم نے جو کچھ بھی کیا وہ ضرورت کے تحت کیا۔‘

پارٹی کی جانب سے لائیو سوشل میڈیا ریلیوں کا انعقاد بھی کیا گیا جہاں وہ اپنے کارکنوں تک بغیر کسی کریک ڈاؤن کے پہنچ سکتے تھے۔

جبران کا کہنا تھا کہ جماعت کی جانب سے الیکشنز سے پہلے ٹک ٹاک پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ پلیٹ فارم نوجوانوں اور دیہی علاقوں میں بہت مقبول ہے۔

Getty Imagesپی ٹی آئی کے حامی انفلوئنسرز

اسامہ خلجی کے مطابق اس حکمتِ عملی کے ساتھ پی ٹی آئی نے ایسے انفلوئنسرز کے ساتھ بھی رابطے کیے ہیں جو جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔ جماعت کے آفیشنل اکاؤنٹ کے ذریعے ایسے انفلوئنسرز کی پوسٹس کو لائیک اور ری پوسٹ کیا جا رہا ہے جن کے لاکھوں فالوورز ہیں اور وہ روزانہ متعدد ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں۔

کچھ انفلوئنسرز الیکشن سے قبل عام لوگوں تک پہنچنے کے حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوئے ہیں اور اس بارے میں بھی پی ٹی آئی کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔ تاہم اسامہ خلجی کے مطابق ان اکاؤنٹس کی جانب سے پوسٹ کی گئی معلومات مصدقہ ہونے کے حوالے سے خدشات موجود ہیں اور ان کے دعوے حقیقت سے دور معلوم ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یوٹیوبرز کو یہ فائدہ ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ ویوز اور اس کے بدلے پیسے ملیں گے۔ اس لیے وہ اپنے پاس موجود معلومات میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد کہتی ہیں کہ نوجوان پاکستانیوں کے لیے یوٹیوبرز کی معلومات کا اہم ذریعہ ہیں۔ ان کے دعوے بعد میں ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی آ جاتے ہیں جہاں نگہت داد کے مطابق نوجوانوں کا غلط معلومات سے گمراہ ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

پی ٹی آئی کے حامیوں پر سوشل میڈیا کو غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔

فرحان ورک کو اس سے قبل پاکستانی میڈیا میں خاصے بدنام ٹرول کے طور پر جانا جاتا تھا اور ایک ایسے پی ٹی آئی حامی سوشل میڈیا ٹرول کی حیثیت سے جماعت کے ساتھ سنہ 2020 تک منسلک رہے۔

انھوں نے پی ٹی آئی کے حق میں ٹرولنگ کرنے، جماعت کے مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے اور غلط معلومات پھیلانے کا اعتراف کیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ مسلسل ’پی ٹی آئی کے ناقدین کو ٹرول کرتے‘ اور ٹوئٹر پر اُن پر ’ذاتی حملے‘ کرتے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ ہیش ٹیگز بناتے اور جھوٹی کہانیاں گھڑتے تاکہ وہ ’پی ٹی آئی کے بیانیے کو فروغ دے سکیں۔‘

Getty Images

ورک کے جانے کے بعد سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تو تبدیل ہوئے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی میں تبدیلی نہیں آئی۔

اکثر اوقات انفلوئنسرز عمران خان کا بہتر تشخص بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اکاؤنٹ نے پوسٹ کیا کہ آسٹریلیا نے ورلڈ کپ 2023 عمران خان کے نام کر دیا ہے، یہ ایک جھوٹا دعویٰ تھا جسے بہت جلد جھوٹا ثابت کر دیا گیا لیکن اس کے جھوٹا ثابت ہونے سے پہلے یوٹیوب پر 10 لاکھ افراد اس ویڈیو کو دیکھ چکے تھے۔

انفلوئنسرز پی ٹی آئی کے ناقدین پر ہونے والے حملوں کے پیچھے بھی ہوتے ہیں۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد نے بی بی سی کو بتایا کہ انفلوئنسرز سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پی ٹی آئی کے ناقدین کو نشانہ بناتے تھے، خاص طور پر اقلیتوں کو۔

سنہ 2020 میں خاتون صحافیوں کی جانب سے ایک خط پر سائن کیے گئے تھے جس میں پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس کی جانب سے ان کی کردار کشی بند کرنے کی بات کی گئی تھی۔

تاہم ان حملوں میں کمی نہیں آئی۔

پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی نے نواز شریف کی کوریج کے دوران عمران خان پر تنقید کی تھی۔ اس کے بعد سے انھیں سوشل میڈیا پر کردار کشی اور جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا اکثر بیرونِ ملک موجود یوٹیوبرز کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ہماری صنف پر فش زبان کا استعمال کرتے ہوئے کیے جانے والے حملے ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کی ویڈیوز اور فوٹوشاپ کی گئی تصاویر کو ٹک ٹاک، ایکس اور یوٹیوب پر پھیلا دیا گیا جس میں ان کے الفاظ کو سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا۔ ان کا ماننا ہے کہ انھیں پی ٹی آئی پر تنقید کرنے کے باعث ہدف بنایا گیا ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ بطور صحافی یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب پر تنقید کریں۔

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ جبران الیاس نے بی بی سی کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور انفلوئنسرز کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ فرحان ورک پی ٹی آئی کے ساتھ منسلک نہیں تھے اور نہ ہی وہ پی ٹی آئی کے باضابطہ پیغامات کی نمائندگی کرتے تھے۔

Getty Images

ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج کے حامی بھی اب پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمتِ عملی کو اپنا رہے ہیں۔

فرحان ورک، جو اس سے قبل ایک پی ٹی آئی ٹرول کے طور پر جانے جاتے تھے انھوں نے اپنی وفاداری بدل دی ہے۔ وہ ایکس اور یوٹیوب فیڈز پر اب فوج کی حمایت کرتے ہیں اور پی ٹی آئی مخالف بیانیے کو پھیلاتے ہیں۔

ورک یہ مانتے ہیں کہ وہ اپنی پوسٹس میں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کسی ایک سوچ کی طرفدرای ضرور کرتے ہیں لیکن نہ تو وہ فیکٹ چیکر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ فوج کے ساتھ منسلک ہونے کے دعوے کی توثیق کرتے ہیں۔

اسی طرح پی ٹی آئی کے حامی انفلوئنسرز اور وہ انفلوئنسرز جو فوج کے حامی ہیں وہ بھی صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ ایک خاتون صحافی نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قسم کے انفلوئنسرز کے حملوں کا نشانہ رہی ہیں۔

انفلوئنسرز چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا ادارے کے حامی ہوں معلومات کے نظام پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب انھوں نے ایک ایسی صورتحال بنا دی ہے جس میں رپورٹرز کے لیے معلومات تک رسائی میں ابہام پایا جاتا ہے خاص طور پر ایسے موقع پر جب میڈیا بھی سینسر شپ کا شکار ہے۔

اسامہ خلجی کے مطابق ’جعلی خبریں اب سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے لوگوں میں پھیل رہی ہیں۔ مصدقہ معلومات کے فقدان کے درمیان ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے جس میں لوگ اپنی کہانیاں بنا رہے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More