’آٹھ گھنٹے کی نیند کچھ اتنی ضروری بھی نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Nov 10, 2025

Getty Images

صبح کے ناشتے کے نام پر کافی یا چائے کا ایک بڑا سا کپ مگر ساتھ کھانے میں کچھ بھی نہیں۔۔۔ صحت و تندرستی سے متعلق ایک پوڈکاسٹ کی میزبانی کرنے والے شخص کے سامنے یہ ’ناشتہ‘ دیکھنا شاید آپ کو نامناسب لگے گا۔

تاہم اپنے جڑواں بھائی ڈاکٹر زینڈ کے ساتھ بی بی سی کے پروگرام ’واٹس اپ ڈاکس‘ کی میزبانی کرنے والے ڈاکٹر کرس وین ٹولکن روز اپنی صبح کا ایسا ہی آغاز کرنے کا اعتراف کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’چونکہ میں عمر کے درمیانی حصے میں داخل ہو رہا ہوں اس لیے سارا دن منھ چلانا نہیں چاہتا۔ میں پورے دن کھانا نہیں کھانا چاہتا اس لیے ناشتہ چھوڑ دیتا ہوں۔‘

ہر اعتبار سے مکمل زندگی نہ گزارنے کا اعتراف اور دیگر مسائل سے متعلق ان کی صاف گوئی ہی انھیں دیگر لوگوں کی طرح بناتی ہے۔

یہ دونوں بھائی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے شو کرنے کے باعث ہر گھرمیں جانے پہچانے نام بن چکے ہیں۔ وہ بچوں کے مشہور پروگرام ’آپریشن آؤچ‘ کی میزبانی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر زینڈ کا شمار بی بی سی کے لائیو مارننگ پروگرام میں مستقل طور پر شرکت کرنے والے ماہرین میں ہوتا ہے جبکہ ڈاکٹر کرس اپنی کتاب ’الٹرا پروسیسڈ پیپل‘ کی وجہ سے دور دور تک شہرت رکھتے ہیں۔

Emma Lynch/BBCڈاکٹر زینڈ اور اُن کے جڑواں بھائی

پوڈ کاسٹ میں یہ دونوں بھائی اکثر صحت اور تندرستی سے متعلق مختلف دعوؤں پر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے وہ اپنی روزمرہ زندگی میں کرتے ہیں۔

کرس کہتے ہیں کہ ’زینڈ جیسے بھائی کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں جو اتنا پریشان کرتا ہو‘ اور یہ سن کر زینڈ زور سے ہنس پڑتے ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں بھائی ایک ساتھ کام کر کے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔

کرس اعتراف کرتے ہیں کہ اس پوڈکاسٹ کے شروع کرنے کے پیچھے ’ان کی اپنی خود غرضی کارفرما تھی کیونکہ ہم اپنے ہی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

’لیکن ہمیں بعد میں احساس ہوا کہ ہماری مشکلات بھی دراصل دوسروں کی مشکلات کی طرح ہی ہیں۔‘

ان دونوں بھائیوں کا کہنا ہے کہ اس پوڈکاسٹ سے ان دونوں کی زندگیوں پر مثبت اثر پڑا ہے اور وہ اس دوران اپنی عادات اور رویوں میں آنے والی تبدیلیاں بھی سامعین کے ساتھ شیئر کرتے ہیں، جو اب تک پیش کی گئی 30 سے زائد اقساط میں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔

کیا آٹھ گھنٹے سے زیادہ سونا ضروری ہے؟

ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کی طرح یہ دونوں بھائی بھی پہلے اس نظریے پر قائم تھے کہ آٹھ گھنٹے کی نیند ہی صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے اور اگر اس سے کم سویا جائے تو یہ ایک طرح کی ناکامی ہو گی، لیکن اب وہ اس اصول پر سختی سے کاربند نہیں ہیں۔

دونوں بھائیوں کا کہنا ہے کہ ایک صحت مند نیند چھ سے دس گھنٹوں پر محیط ہو سکتی ہے۔

کرس کے مطابق ’آٹھ گھنٹے کی نیند پوری نہ ہونے پر لوگ بہت پریشان ہو جاتے ہیں لیکن میری زندگی کے کئی اہم کام ایسے ہیں جو نیند کی کمی کے باوجود میں نے کیے ہیں، جس کی ایک مثال بچوں کی پرورش ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب انھیں احساس ہوا کہ جنگیں جیتنے سے لے کر امتحانات پاس کرنے تک کئی بڑے کام کم نیند کے باوجود انجام پاتے رہے ہیں تو سمجھ آ گیا کہ تھوڑی مدت کے لیے نیند کی کمی انسان کی توجہ اور فوکس کو بڑھا سکتی ہے۔

زینڈ کہتے ہیں کہ اس احساس نے انھیں ’زیادہ نیند لینے کے جنون اور پریشانی‘ سے آزاد کر دیا۔ ’اب نیند میری زندگی پر حاوی نہیں اور میں اس کے بارے میں بہت کم سوچتا ہوں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ اب وہ ضرورت پڑنے پر بلا جھجک مختصر نیند لے لیتے ہیں۔

’اگر میں تھک جاؤں تو بیس منٹ کی نیند لے لیتا ہوں۔‘

ہاں یا نہ کہنے سے قبل وقفہ لیںGetty Images

دونوں بھائیوں کے لیے کسی بھی بات سے ’انکار‘ کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے اور زینڈ کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ایسا کرنے میں انھیں ’جسمانی تکلیف‘ بھی محسوس ہوتی ہے۔

اب انھوں نے ’وقفہ لینے‘ کی عادت اختیار کر لی ہے۔

اگر فوراً کوئی فیصلہ لینا ضروری نہ ہو تو وہ اب کچھ وقت مانگ لیتے ہیں تاکہ سوچ سکیں اور صرف دباؤ کے تحت ’ہاں‘ نہ کہہ بیٹھیں۔

کرس کا کہنا ہے کہ اس سے انھیں ان مشکل معاملات سے نمٹنے میں مدد ملی ہے جن سے نمٹنا پہلے مشکل لگتا تھا۔ تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں کہ انھیں اس عادت کو مزید پختہ کرنا ہو گا۔

’مجھے معلوم ہے کہ مجھے اپنے ارادوں میں مزید پختہ ہونا چاہیے لیکن ایسا ہو نہیں پاتا اور مجھے معلوم ہے کہ مجھے اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اس موضوع سے متعلق پوڈکاسٹ کی ایک قسط نے انھیں یہ سکھایا کہ انھیں اپنی اقدار یا روایات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے دوسروں کی جانب سے کہے جانے والے کام ان سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔

زینڈ کے لیے سب سے بڑی ترجیح اپنی بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا تھا۔

اس ترجیح کو سمجھنے کے بعد انھوں نے اب کئی ایسے کاموں کو ’نہ‘ کہنا سیکھ لیا ہے جنھیں وہ پہلے آسانی سے قبول کر لیتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے حال ہی میں اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں ملنے والے ایک بہت بڑے اور اہم موقع کو ٹھکرا دیا تھا، حالانکہ مجھ پر اسے قبول کرنے کا دباؤ تھا مگر وہ میری ذاتی ترجیحات اور ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔‘

آپ کی وہ پسندیدہ عادات جو آپ کو انجانے میں تھکا بھی دیتی ہیںاگر بڑھتی عمر کے ساتھ یادداشت کی کمزوری سے بچنا ہے تو یہ چار عادات فوراً چھوڑ دیںہم شکل جڑواں بچوں کی ایک سی عادات ہونا قدرتی عمل ہے یا پرورش اور ماحول کا کرشمہکوبرا سانپ کھانے کے شوقین، دانت صاف نہ کرنے کی عادت اور عوام سے خوفزدہ رہنے والے آمروں کی عجیب و غریب داستانیںاپنے دانت دھیان سے صاف کریں

ان دونوں جڑواں بھائیوں کی سب سے پختہ عادت ان کے دانت صاف کرنے کا طریقہ ہے۔ یہ چھوٹا سا عمل اب ان کے لیے ایک انتہائی دھیان سے کرنے والا کام بن چکا ہے۔ زینڈ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دانت صاف کرنے کے انداز کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔

وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میرے بیوی ڈولی نے اس پوڈکاسٹ کے بعد سے میری سانس سے آنے والی بدبو کی شکایت نہیں کی۔ میں اب فلاس کرنے کے لیے خصوصی برش استعمال کرتا ہوں، دانتوں کا برش ایک مخصوص زاویے پر پکڑتا ہوں اور دانت صاف کرتے وقت موبائل فون نہیں دیکھتا۔‘

اور کرس اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ان کا بھائی کبھی دانت صاف کرتے وقت فون بھی استعمال کرتا تھا۔ مگر وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ چھوٹی تبدیلیاں واقعی مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔

کرس کہتے ہیں کہ ’برش پکڑنے کا طریقہ، دانت صاف کرتے وقت نرمی اختیار کرنا اور اس بات کی مکمل آگاہی رکھنا کہ آپ اپنے اس عمل سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، آپ اپنے دانت کی ہر سطح صاف کرنا چاہتے ہیں۔‘

قوت ارادی ہی سب کچھ نہیں Getty Images

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ خوراک، ورزش یا عادات بدلنے میں مشکلات کا سامنا دراصل ایک قسم کی کمزوری ہے اور زینڈ بھی ایسے ہی محسوس کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں زیادہ تر وقت سست رہتا ہوں اور اپنے اندر کسی چیز کی کمی محسوس کرتا ہوں۔ میں ہر ہفتے مانچسٹر جاتا ہوں اور عموماً طویل ٹرین کے سفر کے بعد وہاں دیر سے پہنچتا ہوں۔ میں کھانے کا آرڈر دیتا ہوں اور ورزش نہیں کرتا پھر اپنے آپ پرغصہ بھی آتا ہے۔‘

پوڈکاسٹ کی اس قسط میں ان کے مہمان ماہرِ نفسیات کِمبرلی ولسن نے زینڈ کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ’قوتِ ارادی جیسی کسی چیز کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے۔‘

قوتِ ارادی کوئی طلسماتی چیز نہیں ہے، بلکہ کسی کام یا بات پر قائم رہنے کی صلاحیت کا انحصار اس چیز پر ہے کہ ’آپ نے اپنے اردگرد کی دنیا کو کس طرح ترتیب دیا ہے۔‘

مثال کے طور پر اگر آپ پہلے سے منصوبہ بندی کریں اور سوچیں کہ رات کے کھانے میں کیا کھائیں گے تو آپ آسانی سے فاسٹ فوڈ چھوڑ کر صحت مند کھانے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

اس قسط کے بعد زینڈ نے اپنی ورزش کا دورانیہ تو بڑھا دیا، تاہم وہ ابھی بھی اسے پسند نہیں کرتے۔

’میں بس ورزش کے لیے سائیکل پر بیٹھتا ہوں اور ورزش کے دوران منفی خیالات آتے رہتے ہیں۔‘

ایک اور سادہ تبدیلی جو انھوں نے کی وہ یہ ہے کہ لندن اور مانچسٹر کے درمیان معمول کے سفر کے دوران وہ اپنے ساتھ سیب لے جاتے ہیں اور ٹرین میں غیر صحت مند سنیکس نہیں خریدتے۔

کرس نے سمجھا کہ قوتِ ارادی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دکھ اور تکلیف میں صبر کر سکتیں بلکہ اس سے مراد خود کو زیادہ منظم کرنا ہے۔

’میں نے اب ہفتے بھر کا کھانا ایک دن میں پکانا شروع کر دیا ہے، جس سے میرے لیے ممکن ہو پاتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ پزیادہ وقت گزار سکوں۔‘

Emma Lynch/BBC

اپنے اندر لانے والی ان تمام تبدیلیوں کے باوجود دونوں بھائی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہر ایکسپرٹ کی ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔

اپنی بات کو سمجھانے کے لیے انھوں نے سن سکرین کی مثال دی۔

ڈاکٹر کرس نے بتایا کہ ’ایک ڈرماٹولوجسٹ نے ہمیں بہت اچھی نصیحتیں کیں لیکن ذرا سوچیے کہ سورج میں کچھ ایسا ضرور ہے جو ہمیں بہت طاقتور محسوس ہوتا ہے۔ علمی طور پر ہم جانتے ہیں کہ سورج کی روشنی بعض معاملات میں نقصان دہ ہو سکتی ہے، لیکن پھر بھی ہم خود کو اس کی طرف کھنچا کھنچا محسوس کرتے ہیں۔‘

ہمارے علم اور عمل کے بیچ یہ تضاد ان کے پوڈکاسٹ کے موضوع کی اصل بنیاد ہے۔

دونوں ڈاکٹر بھائی چاہتے ہیں کہ ان کا شو دیکھنے والے افراد یہ سوچیں کہ صحت کے مسائل ذاتی ناکامی کے ذمرے میں نہیں آتے۔

ڈاکٹر زینڈ کہتے ہیں کہ ’آپ کی صحت کے ساتھ ہونے والے مسائل محض آپ کی غلطی نہیں ہے۔ بہت سی طاقتیں آپ کے پیسوں، توجہ اور وقت کو ان چیزوں سے دور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو واقعی اہم ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان سب کو راستے سے ہٹا کر آپ کی زندگی کو آپ کی اقدار کے مطابق ترتیب دیں۔‘

آپ کی وہ پسندیدہ عادات جو آپ کو انجانے میں تھکا بھی دیتی ہیںاگر بڑھتی عمر کے ساتھ یادداشت کی کمزوری سے بچنا ہے تو یہ چار عادات فوراً چھوڑ دیںہم شکل جڑواں بچوں کی ایک سی عادات ہونا قدرتی عمل ہے یا پرورش اور ماحول کا کرشمہکوبرا سانپ کھانے کے شوقین، دانت صاف نہ کرنے کی عادت اور عوام سے خوفزدہ رہنے والے آمروں کی عجیب و غریب داستانیںکیا منہ کھول کر سونا کسی بیماری کی علامت ہو سکتا ہے؟وہ نئے شواہد جو ’کزن کے درمیان شادیوں‘ پر پابندی کے مطالبے کی وجہ بن رہے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More