BBCشیرگڑھ حویلی جو امب کے گرمائی دارالخلافہ کی نشانی ہے
دریائے سندھ کے کنارے، پہاڑوں کے دامن میں کبھی ایک خودمختار ریاست ’امب‘ واقع تھی۔ یہ وہ خطہ تھا جہاں دربند کے قلعے سے فرید آباد کی جدید بستی تک ایک تاریخ سانس لیتی تھی مگر تربیلا ڈیم کے پانیوں نے سب کچھ نگل لیا۔ قلعے، باغات، حویلیاں اور حتیٰ کہ عدلیہ کی وہ عمارتیں بھی جہاں سے کبھی کبھار ’نواب‘ کے خلاف بھی فیصلے آ جاتے تھے۔
آج دربند کے ڈوبے ہوئے اس ورثے کی لہریں اُبھر اُبھر کر یادیں تازہ کرتی ہیں، یہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ ریاست تو ڈوب گئی، لیکن اس کی روح، اس کا قانون اور اس کی شناخت اب بھی ان کے دلوں میں زندہ ہے۔
’نواب صاحب اندر حویلی میں ہیں اور مہمانوں سے ملاقاتیں جاری ہیں۔‘
عملے کے ایک رُکن نے مجھے اطلاع دی کہ اندر جا کر ملاقات کی جا سکتی ہے۔
یہ شیرگڑھ ہے۔ ضلع مانسہرہ میں واقع وہ مقام جو کبھی ریاستِ ’امب‘ کا گرمائی دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ میں تاریخی حویلی کے دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ ’نواب صاحب‘ خود استقبال کے لیے باہر آ گئے۔
یہ تھے نواب فرید خان تنولی کے پوتے اور نواب سعید خان تنولی کے فرزند، نوابزادہ صلاح الدین تنولی جو سنہ 1985 کے بعد سے لگاتار پانچ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ھے۔ علاقے کے لوگ آج بھی احترام سے انھیں ’نواب صاحب‘ کہہ کر پکارتے ہیں اور دور دراز سے لوگ اُن سے ملاقات کے لیے اِسی حویلی کا رُخ کرتے ہیں۔
یہ حویلی دراصل سکھ دور کا قلعہ ہے، جو رنجیت سنگھ کے عہد میں سنہ 1819 میں تعمیر ہوا۔ ریاست امب کے بانی پائندہ خان تنولی نے کئی معرکوں کے بعد اس قلعے پر قبضہ کیا اور شاہی ریاست بننے سے قبل ہی ’تناول‘ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ برطانوی دور میں سنہ 1857 کے بعد ’تناول‘ کو باقاعدہ شاہی ریاست کا درجہ دیا گیا، جس کی اپنی فوج، سپہ سالار، وزیرِاعظم اور قومی خزانہ تک موجود تھا۔
BBCنیو دربند جسے سابقہ شاہی ریاست امب کے دارالحکومت دربند کے تربیلا جھیل کے ڈوبنے کے بعد تعمیر کیا گیا آثار جو تربیلا ڈیم کے پانیوں تلے زندہ ہیں
سید عبدالجبار شاہ، جو اس ریاست کے وزیر اعظم تھے، اپنی کتاب تاریخ العبرہ میں اس علاقے میں سنہ 1841 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں۔ لیکن قدرت کو جیسے کچھ اور ہی مقصود تھا۔ اس تباہ کُن سیلاب کے آنے کے لگ بھگ ایک صدی بعد تربیلا ڈیم کی تعمیر نے امب، دربند اور ستھیانہ سمیت درجنوں بستیوں کو ہمیشہ کے لیے پانی میں دفن کر دیا۔
’وہ دربند جس کے خوش ذائقہ اور رسیلے آموں کی فرمائش رنجیت سنگھ کرتا تھا، آج جھیل کے نیچے سو رہا ہے۔‘ یہ کہنا ہے مقامی بزرگ فضل الہیٰ کا، جو اب ’نیو دربند‘ کے مضافات بؤلڑا میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ہماری یادوں کا سورج کب کا ڈوب چکا لیکن اس کی گرماہٹ اب بھی ہمارے دلوں میں ہے۔‘
’ایمبولینیا‘ سے ’امب‘ تک کا سفر
ریاستِ امب کا دارالحکومت دریائے سندھ کے کنارے واقع دربند تھا، ایک خوشحال قصبہ جو 1841 کے سیلاب میں مکمل طور پر ڈوب گیا۔ مقامی روایات کے مطابق، اُس سیلاب کے بعد یہاں کے حکمران پائندہ خان تنولی نے نئی بستی دربند کے نام سے بسائی اور یوں پرانا ’امب‘ دوبارہ آباد ہوا۔ اسی قصبے کے نام پر بعد میں پوری ریاست کا نام ریاستِ ’امب‘ پڑا۔
جہانداد خان، جن کا تعلق اسی شاہی خاندان سے ہے، خطے کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
اُن کے مطابق ’جب سکندر اعظم اس علاقے سے گزرے تو دربند کی سرسبز وادی دیکھ کر اُنھوں نے یونانی زبان میں کہا: ’ایمبولینیا‘ (یعنی خوبصورت وادی)۔ روایت ہے کہ یہی لفظ بگڑتے بگڑتے ’امب‘ بن گیا، اور پھر ریاست اسی نام سے مشہور ہوئی۔‘
ریاست کے آخری وزیرِاعظم سید عبدالجبار شاہ نے اپنی کتاب ’تاریخ العبرہ‘ میں 1841 کے سیلاب کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق ’امب کا پرانا قصبہ دریائے سندھ کے کنارے کرپلیاں گاؤں کے سامنے واقع تھا، لیکن بعد میں اس کی دوبارہ تعمیر دربند اور ستھیانہ کے قریب کی گئی۔‘
BBCسابق نواب فرید خان کے پوتے نوابزادہ صلاح الدین کہتے ہیں کہ اگر عوام یہ ریاست خود نہ توڑتی تو پھر حکومت پاکستان سے بہتر معاہدہ ہو سکتا تھا
سید عبدالجبار شاہ کی وفات کے بعد یہ علاقہ ایک بار پھر پانی کے نیچے آ گیا، اس بار وجہ تھی تربیلا ڈیم کی تعمیر۔ ڈیم بننے سے ’امب‘، دربند اور گردونواح کے کئی دیہات ڈوب گئے، اور ریاست کا بیشتر تاریخی ورثہ ہمیشہ کے لیے زیرِ آب چلا گیا۔
اُس وقت دربند ہزارہ کا ایک بڑا تجارتی اور ثقافتی مرکز تھا۔ یہاں کالا ڈھاکا، تھاکوٹ اور گلگت بلتستان تک کے لوگ آیا کرتے تھے۔ نوابزادہ صلاح الدین تنولی کے مطابق ’تربیلا ڈیم کی تعمیر کے وقت ریاست کے اسلحہ خانے کا تمام سامان سرکاری ادارے اٹھا کر لے گئے۔‘ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بتاتے ہیں ’اور آج بھی وہ اسلحہ پولیس کے زیرِ استعمال ہے۔‘
رنجیت سنگھ کی ہری سنگھ نلوہ سے ’دربند‘ کے آموں کی فرمائش
تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد بھی دربند کا نام مکمل طور پر مٹ نہیں سکا۔ دریائے سندھ کے کنارے ایک نئی بستی بسائی گئی، جسے لوگ آج ’نیا دربند‘ کہتے ہیں۔ سنہ 2017 میں اسے باقاعدہ تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ مگر یہاں کے معمر افراد اکثر آہ بھرتے ہیں ’نئے دربند میں وہ بات کہاں، جو پرانے دربند میں تھی۔‘
نوابزادہ صلاح الدین تنولی نے شیرگڑھ حویلی میں مجھے ایک پرانی تصویر دکھائی، دربند ہسپتال کے انچارج ایک سرکاری ڈاکٹر کی۔ وہ مسکرا کر بولے ’اُس وقت بھی دربند میں پیشہ ور ڈاکٹر موجود تھے، جب دُور دُور تک کہیں میڈیکل کی سہولت نہیں تھی۔‘
دربند کی ایک اور خاص بات یہاں آموں کے باغات مشہور تھے، اور کہا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ نے اپنے گورنر ہری سنگھ نلوہ سے خاص طور پر دربند کے آم منگوانے کی فرمائش کی تھی۔
یہاں کے نواب فرید خان نے فرید آباد کے نام سے ایک نئی بستی آباد کی تھی، مگر وہ بھی تربیلا ڈیم کے پانیوں میں ڈوب گئی، اور خاندان وہاں قیام نہ کر سکا۔ نواب فرید خان کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد ان کے بیٹے نواب سعید خان تنولی بھی فوت ہو گئے۔
صلاح الدین بتاتے ہیں کہ حکومت نے ان کے والد کو باقاعدہ ’نواب‘ کا خطاب دیا تھا، اور اس موقع پر تقریبِ اعزاز کا اہتمام کیا گیا۔ نوابزادہ صلاح الدین نے اپنے دادا کے ساتھ بچپن کی ملاقاتوں کا دلچسپ احوال سناتے ہوئے کہا کہ ’دادا جب ہمیں ملنا چاہتے تو باضابطہ دعوت نامہ بھجواتے، جس پر لکھا ہوتا کہ قمیص کا اوپر والا بٹن بند ہو اور سر پر ٹوپی لازمی ہو۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’میں اور میرا بھائی جہانگیر تنولی خاص تیاری کرتے۔ دادا اپنی نشست پر براجمان ہوتے، اور ہم آداب کے ساتھ قالین پر بیٹھ کر اُن سے بات کرتے۔‘
برطانوی راج میں ریاستِ ’امب‘ کو تزویراتی اہمیت حاصل تھی
ریاستِ ’امب‘، شمالی پاکستان کی قدیم ریاستوں میں سے ایک تھی جنھیں تاریخ نے کئی رنگوں میں دیکھا۔ اطراف میں مختلف قبائل کے علاوہ چترال، سوات، دیر اور کشمیر کی ریاستیں تھیں، جبکہ برطانوی دور میں اسے تزویراتی اہمیت حاصل تھی۔ ریاست کی معیشت کا بڑا دارومدار باغات، زرعی زمینوں اور جنگلات پر تھا۔
برطانوی سرکاری دستاویزات کے مطابق ’ریاستِ امب و دربند کا کل رقبہ قریباً 720 مربع میل تھا۔ 240 مربع میل حصہ قابلِ کاشت یا مستقل آبادی والا علاقہ تھا، جبکہ باقی حصہ زیادہ تر پہاڑی اور غیر آباد خطوں پر مشتمل تھا۔‘
برطانوی فوجی افسر میجر جیمز ایبٹ (1849–1853 میں پہلے برطانوی ڈپٹی کمشنر ہزارہ) نے 15 جون 1851 کی رپورٹ میں لکھا کہ تنولی بہادر مگر خود سر قوم ہے، جو کسی بیرونی طاقت کے تابع نہیں۔ حتیٰ کہ انگریزوں نے تجویز دی کہ ’امب‘ کو بطور ’بفر سٹیٹ‘ رکھا جائے تاکہ دوسرے قبائل قابو میں رہیں۔
میجر جیمزایبٹ نے ریاست کی حدود یوں بیان کیں: ’ریاست شمال میں کوہِ بھینگڑہ (جسے مقامی لوگ سری کی چوٹی کہتے ہیں) سے شروع ہوتی، اور جنوب میں کولگا، کالنجا اور سوہالی کی پہاڑیوں تک پھیلی تھی۔ مشرق کی سمت یہ اگرور (اوگی) اور پکھلی (مانسہرہ) کے میدانی علاقوں تک پہنچتی، جبکہ مغرب میں اس کی سرحد دریائے سندھ سے جڑتی تھی، جس کے دونوں کناروں پر امب کی عملداری سمجھی جاتی تھی۔‘
’ایک جانب تورغر (کالا ڈھاکا) اور دوسری طرف گدون و امازئی کے علاقے تھے۔ روایت ہے کہ ’امب‘ قلعے سے اشراع کے مینار تک ریاست کا سورج آب و تاب سے چمکتا تھا۔ 1850 کی دہائی تھی جب جہانداد خان ریاست کے حکمران تھے، ایک ایسا دور جس میں انھیں نہ صرف بیرونی دباؤ بلکہ خاندانی رقابتوں کا بھی سامنا تھا۔
میجر ایبٹ کے مطابق ’ریاست میں جبر اور بدانتظامی نے مالی وسائل کو کمزور کر دیا تھا۔‘ اور شاید یہی وہ وقت تھا جب جہانداد خان نے دربند کے ہندو تاجروں سے قرض لینا شروع کیا، اِن تاجروں کے کاروبار کے آثار اور کہانیاں آج بھی دربند کے بزرگوں کی یادوں میں زندہ ہیں۔
BBCفضل الرحمان کے دادا شیر علی امب ریاست میں افسر مال تھے’بنگال میں قحط آیا تو ریاستِ ’امب‘ سے غلہ بھیجا گیا‘
سید علی ترمذی (پیر بابا) کی اولاد سے تعلق رکھنے والے اور سوات کے سابق حکمران سید اکبر شاہ کے پوتے سید عبدالجبار شاہ نے اندرونی اختلافات کے بعد ریاستِ ’امب‘ کا رُخ کیا تو یہاں کے نواب نے نہ صرف انھیں داماد بنایا بلکہ سید ہونے کے احترام میں وزیرِاعظم کا منصب بھی سونپ دیا۔ وہ قریباً 10 برس تک ریاست کے وزیرِاعظم رہے۔
محقق اور صحافی ظفر سید نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ریاست میں سادات کو خاص مقام حاصل تھا اور انتظامیہ کا سب سے اہم عہدہ بھی ان کے لیے مختص تھا۔
سید عبدالجبار شاہ کی وزارت کے بعد ظفر سید کے پڑنانا سید نواب علی شاہ اس عہدے پر فائز ہوئے، جنھیں مقامی لوگ محبت سے ’نواب شاہ باجی‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران، جب بنگال میں قحط آیا تو انھی کے حکم پر ریاستِ ’امب‘ سے غلہ بھیجا گیا جو اس وقت کے دور میں ایک غیر معمولی قدم سمجھا جاتا ہے۔
سر اولف کیرو کی کتاب ’دی پٹھانز‘ میں ’امب‘ کا ذکر
سر اولف کیرو نے اپنی کتاب ’دی پٹھانز‘ میں ’امب‘ کے بارے میں صرف اتنا لکھا کہ یہاں تنولی قبیلے کی حکومت تھی، جو اگرچہ مقامی قبیلہ تھا مگر پشتون نسل سے نہیں تھا۔
آج بھی مقامی سطح پر بحث جاری ہے کہ تنولی قبیلہ دراصل افغانستان سے آیا تھا یا کسی اور خطے سے یہاں آ کر آباد ہوا۔ کچھ لوگ روایات اور کتابوں کے حوالے دیتے ہیں، جبکہ دوسرے انھیں اس خطے کے قدیم باشندے قرار دیتے ہیں۔
تاہم سید عبدالجبار شاہ نے اپنی تصنیف ’تاریخ العبرہ‘ میں مختلف مؤقف پیش کیا اور لکھا کہ ’تنولی قبیلہ انہی پہاڑی علاقوں کے قدیم باشندوں میں سے ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ کسی اور جگہ سے آ کر آباد ہوئے ہوں۔ غالب امکان ہے کہ جب ان علاقوں میں اسلام پھیلا تو وہ مسلمان ہو گئے۔‘
والی سوات کی قدیمی رہائش گاہ کو عجائب گھر میں بدلنے کا منصوبہ کیوں ترک کر دیا گیا؟ہزارہ ڈویژن کو تخت لاہور کے تابع کرنے والے سکھ گورنر کا مجسمہ کہاں گیا؟رنجیت سنگھ کی سلطنت کیسے اندرونی سازشوں کے باعث انگریزوں کے ہاتھ چلی گئی؟زمزمہ توپ کا آخری معرکہ: کئی ماہ محاصرے کے بعد رنجیت سنگھ کا ملتان پر وہ قبضہ جس سے پنجاب پر افغان حکمرانی ختم ہوئی’امب‘ کی فوج اور اسلحہ سازی
ریاستِ ’امب‘ کی فوج کا ہیڈکوارٹر دربند میں واقع تھا، جہاں منظم عسکری ڈھانچہ موجود تھا۔ فوج کے سربراہ کو سپہ سالار کہا جاتا تھا، جس کے کندھوں پر مخصوص تمغے اور نشانات اس کے عہدے کی پہچان تھے۔
نوابزادہ صلاح الدین تنولی کے مطابق، ریاست ’امب‘ میں اسلحہ ساز فیکٹری بھی قائم تھی، جہاں اس وقت کے جدید ہتھیار تیار کیے جاتے تھے۔ یہ فوج ریاست کے دفاع اور بیرونی خطرات کے مقابلے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔
’امب‘ کی فوج نے کئی بڑی لڑائیاں لڑیں۔ سوات، سکھوں، افغانوں اور سید احمد بریلوی کے لشکر سے ٹکراؤ ان میں نمایاں ہیں۔ سید احمد بریلوی نے قریباً ایک برس دربند کے قریب قیام کیا، مگر مقامی مزاحمت کے باعث بالآخر بالاکوٹ کی جانب کوچ کر گئے۔
سید عبدالجبار شاہ لکھتے ہیں کہ ’روانگی سے قبل سید احمد بریلوی نے ستھیانہ کے سادات کے ذریعے نواب پائندہ خان تنولی کو پیغام بھیجا: ’ہم خود یہاں سے جا رہے ہیں، سکھوں سے مدد نہ مانگی جائے۔‘
مقامی محقق آصف خان کے مطابق، پائندہ خان کے لشکر نے سکھوں کے ساتھ مل کر سید احمد بریلوی کے سپاہیوں کو شکست دی، جنھیں پھلڑہ اور پڑھنہ کے قریب دفن کیا گیا۔ یہیں سے ان کا کمزور لشکر بالاکوٹ کی جانب روانہ ہوا۔
سید احمد بریلوی کی مخالفت کیوں ہوئی؟
سید احمد بریلوی کے قیام کو ابتدا میں مذہبی تناظر میں دیکھا گیا، لیکن جلد ہی ان کے لشکر اور مقامی قبائل کے درمیان تناؤ پیدا ہونے لگا۔ جہانداد خان کے مطابق ’سید احمد کو مدعو کرنے والے اولین لوگوں میں سردار خادے خان شامل تھے، کچھ ہی عرصے بعد سید احمد بریلوی نے انھیں قتل کروا دیا۔ یہ مقامی قبائل کے لیے دھچکا تھا، لشکر کی مقامی تنازعات میں مداخلت بڑھتی گئی، جس سے ان کے خلاف مخالفت نے جنم لیا۔‘
تاریخِ ہزارہ کے مصنف سردار مہتاب سنگھ لکھتے ہیں کہ سید احمد بریلوی کی بعض مذہبی اصلاحات اور قبائلی روایات سے انحراف، یوسفزئی قبیلے سمیت کئی مقامی قبائل کو ناگوار گزریں، اور یہی مخالفت بعد میں کھلی مزاحمت میں بدل گئی۔
جہانداد خان کے بقول ’نواب پائندہ خان تنولی ہمیشہ بیرونی قوتوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ انھوں نے افغان درانیوں، سکھوں اور بالآخر سید احمد بریلوی تک کسی پر بھروسہ نہیں کیا۔ پائندہ خان نے اپنے والد کو درانی حکمران عظیم خان کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا تھا، اور ان کی آخری نصیحت یہی تھی کہ کبھی کسی بیرونی طاقت پر بھروسہ نہ کرنا۔‘
ہری سنگھ نلوہ کے منشی مہتاب سنگھ نے ان حالات کو تفصیل سے قلم بند کیا۔ ان کے مطابق ’پائندہ خان نے مختصر وقت کے لیے سکھوں سے اتحاد کر کے چمیڑی سے دربند تک قلعوں پر حملے کیے، لیکن جیسے ہی سید احمد بریلوی کا لشکر یہاں سے نکلا، پائندہ خان اور رنجیت سنگھ کی افواج میں دوبارہ جنگ چھڑ گئی۔‘
’امب کی عدلیہ، جہاں نواب کے خلاف بھی فیصلے ہوتے تھے‘
ریاستِ ’امب‘ میں عدلیہ کو انتظامیہ سے غیر معمولی خودمختاری حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں قاضی بعض اوقات نواب کے خلاف بھی فیصلہ سنا دیتے تھے، اور اس فیصلے پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جاتا تھا۔
نوابزادہ صلاح الدین تنولی ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں: ’ایک بار نواب خانی زمان خان کے خلاف ایک بھکاری نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ جیت لیا۔ بعد میں نواب صاحب نے خود اُسے تلاش کیا، اس سے صلح کی اور مقدمہ واپس لیا گیا۔‘
فضل الہٰی کے مطابق ’ریاستِ امب میں باقاعدہ جیل اور عدالتیں موجود تھیں۔ یہاں قاضی اور مجسٹریٹ مقدمات کی سماعت کرتے، اور فیصلے قانون کے مطابق صادر کیے جاتے تھے۔‘
محقق آصف خان کے بقول ’یہ ایسی ریاست تھی جہاں حکمران اور رعایا دونوں کا تعلق قبیلے تنولی سے تھا۔ جب خاندان میں کسی ایک کے ہاتھ میں اقتدار آتا، تو وہ اپنے ہی رشتہ داروں پر نظر رکھتا۔ یہی اندرونی تقسیم بالآخر ریاست کے بکھرنے کا سبب بنی۔‘
مذہبی آزادی، رواداری اور ہم آہنگی
ریاستِ ’امب‘ میں مذہبی رواداری اور باہمی ہم آہنگی کی روایت قدیم تھی۔ یہاں ہندو، سکھ، مسیحی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کی رسومات کا احترام کرتے تھے۔ اگرچہ حکومت تنولی قبیلے کے پاس تھی، مگر ریاست کے نظام میں سادات، گجر، اعوان اور پٹھان قبائل کا بھی نمایاں کردار تھا۔
روایت کے مطابق اگر نواب تنولی خاندان سے ہوتا، تو وزیرِ اعظم کے لیے سید کا انتخاب لازم سمجھا جاتا تھا۔ تجارت اور معیشت بڑی حد تک ہندو تاجروں پر انحصار کرتی تھی۔
سید عبدالجبار شاہ کی نواسی فرح سلطان شاہ بتاتی ہیں کہ ’ہم لوگ ایسے گھل مل کر رہتے تھے کہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کون مسلمان ہے، کون ہندو اور کون سکھ۔ کسی پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی جاتی تھی۔‘
تقسیمِ ہند کے وقت جب دربند کے ہندوؤں نے انڈیا چلے جانےکی خواہش ظاہر کی، تو نواب فرید خان نے اُن کے لیے حسن ابدال تک محفوظ سفر کے انتظامات کیے۔ واہگہ تک سفر کے لیے پیر آف گولڑہ شریف سے خصوصی درخواست کی گئی، تاکہ کوئی ہندو یا سکھ نقصان نہ اٹھائے۔
تربیلا جھیل بننے کے بعد پرانا دربند ڈوبا، تو نیو دربند کے نام سے نئی بستی بسائی گئی، جہاں آج بھی ایک شمشان گھاٹ موجود ہے، جسے مقامی زبان میں ترمسال کہا جاتا ہے۔
نیو دربند بازار میں سری چند اور چمن لال جیسے تاجروں کی دکانیں برسوں مقامی معیشت کی علامت رہیں۔ جہانداد خان کے مطابق ’جب ریاست کو مالی دباؤ کا سامنا ہوا، تو دربند کے ہندو تاجروں (مقامی زبان میں کھتریوں) نے نوابوں کو قرض دیا۔ یہ تاجر ریاست کے معاشی نظام کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے۔‘
تقسیمِ ہند اور بعد ازاں تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد جب دربند کے ہندو ہندوستان چلے گئے، تو انھوں نے نئی دہلی کے قریب ایک بستی آباد کی جسے انھوں نے اپنے 'نواب صاحب' کے احترام میں فرید آباد کا نام دیا۔‘
BBCجامع مسجد نیو دربندمسجد، مدرسہ اور ’سیری‘ کا نظام
ریاستِ امب میں مذہبی و تعلیمی اداروں کے لیے چندہ یا خیرات جمع نہیں کی جاتی تھی۔ یہاں مساجد اور مدارس کے مالی انتظام کے لیے ایک منظم اور خود کفیل نظام رائج تھا، جسے ’سیری‘ کا نظام کہا جاتا تھا۔
ریاستی ریکارڈ کے مطابق ’امب میں قریباً ساڑھے سات سو مساجد و مدارس تھے۔ ہر مسجد کے نام پر زمین مختص کی جاتی، جس کی پیداوار سے مسجد اور مدرسے کے اخراجات پورے کیے جاتے۔ یوں مذہبی ادارے ریاست سے آزاد رہتے اور اپنی ضروریات خود پوری کرتے تھے۔‘
سیری کا نظام آج بھی بعض علاقوں میں کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے، اور مسجد یا وقف زمین کو مقامی لوگ اب بھی ’سیری‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ محقق محمد آصف خان کے مطابق ’سیری کا یہ تصور صدیوں پرانا ہے اور اس کی بنیاد شیخ ملی بابا کے وضع کردہ تقسیمِ اراضی کے نظام میں ملتی ہے۔‘
فرید آباد: وہ شاہی بستی جو آباد نہ ہو سکی
ریاستِ امب کے نواب فرید خان نے دربند کے قریب ایک جدید بستی آباد کی تھی، جسے ان کے نام پر ’فرید آباد‘ کہا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب دربند کو ریاستِ امب کا دل سمجھا جاتا تھا۔ مگر فرید آباد کی قسمت بھی امب اور دربند جیسی رہی، یہ بستی تربیلا ڈیم کے پانیوں میں ڈوب گئی۔
نوابزادہ صلاح الدین تنولی کے مطابق فرید خان نے اس شہر کی تعمیر میں خاص دلچسپی لی تھی۔ انھوں نے اسے جدید نقشے پر بسانے کا منصوبہ بنایا، مگر افسوس کہ وہ خود وہاں رہائش اختیار نہ کر سکے۔
دربند کے 90 سالہ بزرگ فضل الہٰی بتاتے ہیں کہ فرید آباد اپنی طرز کا ایک منفرد اور جدید شہر تھا۔ پنجاب سے ماہر انجینیئر، مستری اور معمار بلا کر تعمیرات کی گئیں۔فضل الہٰی کے والد، جو برطانوی فوج میں افسر تھے، فرید آباد کی تعمیر کے نگرانوں میں شامل تھے۔
بستی مکمل ہونے ہی کو تھی کہ حکومت نے تربیلا ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیا اور یوں وہ خواب، جو تعبیر پانے کو تھا، ہمیشہ کے لیے پانیوں میں دفن ہو گیا۔
دربند کے بزرگ شہری ممبر فضل الرحمان بتاتے ہیں کہ ان کے دادا شیر علی، نواب خانی زمان اور نواب فرید خان کے دور میں ریاست کے افسرِ مال تھے۔ ان کے مطابق ’دربند اس زمانے میں تفریح اور کھیلوں کا بڑا مرکز تھا۔ انگریز افسر یہاں نیزا بازی کے مقابلے دیکھنے آتے تھے۔‘
دربند کے ساتھ قیمتی ورثہ بھی غرقِ آب ہو گیا
دربند کے پانی میں صرف ایک شہر نہیں ڈوبا، سات نسلوں پر محیط ایک تاریخ بھی لہروں میں گم گئی۔ نواب صلاح الدین تنولی کے لیے پہلا بڑا صدمہ 1971 میں ان کے دادا نواب فرید خان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ان کے والد نواب سعید خان کا دنیا سے رخصت ہونا تھا۔ ریاستی نظام پہلے ہی تحلیل ہو چکا تھا، اب خاندانی نظام بھی بکھرنے لگا۔
صلاح الدین بتاتے ہیں کہ ریاستی انضمام کے بعد حکومت نے ان کی جائیداد اور بینک اکاؤنٹس عرصہ دراز تک منجمد رکھے۔ وہ خاندان جو صدیوں تک حکمران رہا،اب تنگ دستی اور بے بسی کا شکار ہو گیا۔ ان کے مطابق ’امب، دربند، ستھیانہ اور فرید آباد سے ریاستی ریکارڈ، قیمتی اشیا اور تاریخی ورثہ غائب کر دیا گیا۔‘
نواب صلاح الدین کے مطابق ریاست پاکستان نے ریاستِ امب کے ساتھ جو معاہدے کیے، بدقسمتی سے ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ انھوں نے شیرگڑھ حویلی کے اندر بیٹھے مرکزی دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’میرے بزرگوں نے اس گیٹ سے کبھی انگریز اور سکھوں کو اندر نہیں آنے دیا، تو میں کیسے کسی کو ایسا موقع دیتا کہ چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال ہو؟‘
BBCدربند کے قریب واقع ڈوگہ کا قلعہامب ریاست کے تاریخی مقامات، ماضی کی بازگشت
بی بی سی نے ریاستِ امب کے چند تاریخی مقامات کا دورہ کیا، وہ جگہیں جو کبھی شان و شوکت کی علامت تھیں، اب خاموش کھنڈرات میں بدل چکی ہیں۔ دربند کے قریب ایک پہاڑ کی چوٹی پر ڈوگہ کا تاریخی قلعہ واقع ہے۔ یہ قلعہ وقت کی دست برد سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ نہ کوئی رکھوالا، نہ صفائی کا انتظام۔
سیاحوں کے لیے یہاں تک پہنچنا بھی دشوار مہم سے کم نہیں۔ پہاڑی راستوں پر چڑھتے ہوئے جب قلعے کے در و دیوار دکھائی دیتے ہیں تو لگتا ہے جیسے تاریخ خود پتھروں میں چھپ کر سانس لے رہی ہو۔
شاہکوٹ کا قلعہ جسے نواب محمد اکرم خان نے تعمیر کروایا تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ نواب کو یہاں کا پانی اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اسی مقام پر اپنا گھر بھی بنوا لیا۔ یہ جگہ کوہ بھینگڑہ کے قریب ہے، جہاں سے دربند، تربیلا جھیل اور دور تک پھیلی وادیوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
دربند کے قریب آبی بین نامی علاقہ کبھی ریاست امب کے زرخیز باغات کے لیے مشہور تھا۔ اب اس کا بڑا حصہ تربیلا جھیل میں ڈوب چکا ہے، مگر آم اور دیگر پھلوں کے کچھ باغات آج بھی باقی ہیں۔ یہاں ایک ندی بہتی ہے جو ریاست کے پرانے فارم ہاؤس بائی بریال کو سیراب کرتی ہوئی دریائے سندھ میں جا ملتی ہے۔
بلند و بالا آبشار ’مچھی ترپ‘ کے بارے میں کئی لوک داستانیں مشہور ہیں۔ اسی آبشار کے دامن میں ریاستِ امب کا تاریخی فارم ہاؤس واقع ہے۔ بزرگ فضل الہٰی یاد کرتے ہیں: ’یہاں ہر طرف باغات تھے، زمین زرخیز تھی اور جنگل کی ہوا میں سنہری تاریخ کی خوشبو رچی تھی۔‘
BBCدربند کے گاؤں بائی بریال کا منظر جو امب ریاست کا فارم ہاؤس تھا۔ اب وادی میں چھپا ورثہ جس کی بقا کو اب کان کنی جیسے خطرات کا سامنا ہےامب کے تاریخی ورثے پر مائننگ کا سایہ
اب یہاں گھنے باغات اور سرسبز جنگل تو نہیں، مگر زمین اب بھی زرخیز ہے، پہاڑوں کے دامن سے بہتے صاف پانی کے چشمے آج بھی دربند کے لوگوں کی پیاس بجھاتے ہیں۔ تاہم اس تاریخی خطے پر ایک نیا خطرہ منڈلا رہا ہے، پہاڑوں میں ہونے والی مائننگ، یعنی کان کنی۔
بی بی سی نے دربند، شیر گڑھ اور مضافات میں کان کنی سے جنگلات اور ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لیا، یہاں کئی مقامات پر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ پانی کے چشمے یا تو خشک ہو گئے ہیں یا پھر ان پانی کے چینل نے رستہ بدل لیا ہے۔
BBCپشاور ہائی کورٹ نے بائی بریال کے بالکل اوپر جاریکان کنی کی سرگرمیوں پر حکم امتناع دے رکھا ہے
امب و دربندکی تاریخی بستی بائی بریال اور اس سے ملحقہ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ اگر یہ سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں تو نہ صرف یہاں کا ماحولیاتی توازن بگڑ جائے گا بلکہ یہ بستی کسی بڑے سیلابی سانحے کا شکار بھی ہوسکتی ہے، جیسے بونیر کی وادیوں میں ہوا تھا۔
مقامی حکومت کے نمائندے طارق تنولی نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم مائننگ کے خلاف نہیں، لیکن جس طرح جنگلات کا نقصان کیا جا رہا ہے اور سڑکوں کو تباہ کیا جا رہا ہے یہ قابل تشویش ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ گاؤں کے بالکل سامنے جس طرح پہاڑوں کو کاٹا جا رہا ہے وہ نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہاں کے تاریخی ورثے اور صاف پانی کے چشموں کے لیے خطرہ ہے۔‘
بی بی سی نے اس سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی دیکھا ہے جس کے مطابق دربند کے قریب مائننگ بغیر کسی قانونی اجازت کے جاری ہے۔‘
طارق تنولی کہتے ہیں کہ ’اگر عدالتی حکم پر عمل ہوا تو ہم نہ صرف امب کے تاریخی ورثے کو محفوظ بنا سکیں گے بلکہ کئی قیمتی جانوں اور پوری بستی کی بقا کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے، بصورتِ دیگر نتائج بہت سنگین ہو سکتے ہیں۔‘
BBCآبی بین میں آج بھی آم کا باغ موجود ہےوہ ریاست جس کے شہری ضلع کا درجہ مانگ رہے ہیں
ریاستِ امب جو کبھی خودمختار حکمرانی کی علامت تھی، آج دو انتظامی حصوںہری پور اور مانسہرہ میں تقسیم ہے۔ یہاں کے لوگوں کے مطابق ریاست تو ختم ہو گئی، مگر ان کے مقدمے، مطالبے اور محرومیاں اب بھی باقی ہیں۔
دربند اور اس کے مضافات کے رہائشی کہتے ہیں کہ جب تربیلا ڈیم بنا تو ان کا ورثہ اور ماضی پانی کے نیچے دفن ہو گیا، مگر اس کے بدلے میں وہ سہولیات کبھی نہ مل سکیں جو قیامِ پاکستان کے وقت ریاست کے انضمام پر وعدہ کی گئی تھیں۔
یہاں کے مکین شکایت کرتے ہیں کہ نہ بجلی کی مناسب سہولت ہے، نہ تعلیم یا صحت کے مراکز، اور نہ ہی بنیادی سڑکوں کی حالت اطمینان بخش ہے۔ ان کے بقول، رہی سہی کسر اب پہاڑوں میں ہونے والی مائننگ نے نکال دی ہے۔
نوابزادہ صلاح الدین تنولی کا کہنا ہے: ’جب ریاست پاکستان کے ساتھ ضم ہوئی تو وعدہ کیا گیا تھا کہ دربند کو تحصیل بنایا جائے گا۔ اس وقت ہزارہ میں صرف تین تحصیلیں تھیں ایبٹ آباد، ہری پور اور مانسہرہ۔ دوسری سابق ریاستوں کو ایک یا ایک سے زیادہ اضلاع دیے گئے، جبکہ امب آج تک ضلع نہ بن سکی۔‘
یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے 2024 کے عام انتخابات میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے بھی انتخاب لڑا تھا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ شاید اس بات کی علامت بھی ہے کہ امب کے لوگوں کے دل جیتنا اب بھی آسان نہیں۔
ریاستِ امب ضلع تک نہ بن سکی مگر اس کے لوگ اب بھی خود کو ایک تاریخ، ایک شناخت اور ایک وعدے کا وارث سمجھتے ہیں۔
16 ورثا میں 2600 کروڑ کی جائیداد کی شرعی تقسیم کا 49 سال پرانا تنازعشاہی ریاست ’ماناودر‘ کے پاکستان سے الحاق کا تنازع اور اس کے آخری حکمران کے پاکستان میں گزرے دنوں کی داستانجونا گڑھ کو پاکستان کے نئے ’سیاسی نقشے‘ میں شامل کرنے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟'جونا گڑھ کے پاکستان میں انضمام کا فیصلہ نواب کا نہیں بھٹو صاحب کا تھا‘زمزمہ توپ کا آخری معرکہ: کئی ماہ محاصرے کے بعد رنجیت سنگھ کا ملتان پر وہ قبضہ جس سے پنجاب پر افغان حکمرانی ختم ہوئیوالی سوات کی قدیمی رہائش گاہ کو عجائب گھر میں بدلنے کا منصوبہ کیوں ترک کر دیا گیا؟