Getty Images / BBC
اپنی نئی نوکری پر پہلے ہی روز ’ادو‘ نامی خاتون کو احساس ہو چکا تھا کہ انھوں نے ایک بڑی غلطی کی ہے۔
’ہمیں پہننے کے لیے وردی (یونیفارم) مل گئی اس سے قطع نظر کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ہمیں کیا کام کرنا ہو گا۔ کام کے پہلے دن سے ہی ہمیں ڈرون فیکٹری میں لے جایا گیا۔ ہم فیکٹری میں داخل ہوئے تو وہاں ہر جگہ ڈرون موجود تھے اور لوگ کام کر رہے تھے۔ پھر وہ ہمیں اپنے مختلف ورک سٹیشنز پر لے گئے۔‘
جنوبی سوڈان سے تعلق رکھنے والی 23 برس کی ادو کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال انھیں کُل وقتی ملازمت کے وعدے پر روس کے خصوصی اقتصادی زون میں کام کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔
ادو نے اس پروگرام کے تحت نوکری کی درخواست دی تھی جس میں 18 سے 22 سال کی عمر کی خواتین کو ملازمت دی جاتی ہے۔ زیادہ تر افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین اس پروگرام کا حصہ بنتی ہیں۔ اس پروگرام میں لاجسٹکس، کیٹرنگ اور مہمان نوازی سمیت متعدد شعبوں میں پیشہ ورانہ تربیت دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
لیکن روس کے اس پروگرام سے متعلق الزام سامنے آیا ہے کہ اس پروگرام کے تحت دھوکہ دہی سے بھرتی کی گئی اور جن نوجوان لڑکیوں کو ملازمت دی گئی ہے انھیں اشتہار میں بتائی گئی تنخواہ سے کم رقم اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
روسی کمپنی نے تمام الزامات کی تردید کی ہے لیکن انھوں نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ کچھ ملازمین ڈرون بنانے میں مدد کر رہے تھے۔
الابوگا سٹارٹ پروگرام (اے ایس) نے حال ہی میں عالمی شہ سرخیوں میں اس وقت جگہ بنائی جب اس پروگرام کی تشہیر کرنے والے جنوبی افریقہ کے انفلوئنسرز پر انسانی سمگلنگ کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا گیا۔
بی بی سی نے اس معاملات میں ملوث تمام مبینہ ذمہ دار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے بھی ہماری درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
کچھ اندازوں کے مطابق الابوگا کی اسلحہ سازی کی فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے افریقہ بھر سے 1000 سے زائد خواتین کو بھرتی کیا گیا ہے۔ اگست میں جنوبی افریقہ کی حکومت نے اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا تھا اور اپنے شہریوں کو متنبہ کیا کہ وہ اس متنازع پروگرام کا حصہ نہ بنیں۔
ادو نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے پہلی بار 2023 میں اس پروگرام کے بارے میں سُنا تھا۔
’میری ایک دوست نے اپنے فیس بک سٹیٹس پر روس میں سکالرشپ کے بارے میں پوسٹ کیا۔ یہ اشتہار جنوبی سوڈان کی وزارتِ اعلیٰ تعلیم کی طرف سے پوسٹ کیا گیا تھا۔‘
Supplied to the BBC
ادو نے واٹس ایپ کے ذریعے اس پروگرام کے منتظمین سے رابطہ کیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھ سے میرا نام، عمر اور دیگر بنیادی تفصیلات پوچھنے کے بعد یہ پوچھا کہ میں الابوگا پروگرام میں کیوں شامل ہونا چاہتی ہوں۔ ساتھ ہی انھوں نے مجھ سے ایک فارم بھرنے کو بھی کہا۔ اور پھر انھوں نے مجھ سے ان تین شعبوں کا انتخاب کرنے کو بھی کہا جن میں میں کام کرنا چاہتی تھی۔‘
ادو کا کہنا ہے کہ انھوں نے ٹاور کرین آپریٹر کی نوکری کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا کیونکہ وہ ہمیشہ ٹیکنالوجی کی دنیا سے وابستہ رہی تھیں اور ماضی میں روبوٹکس مقابلے میں حصہ لینے کے لیے ایک بار بیرون ملک بھی گئی تھیں۔
’میں ان شعبوں میں کام کرنا چاہتی تھی جن کا انتخاب عام طور پر خواتین نہیں کرتیں۔ ایک خاتون کے لیے ٹاور کرین آپریشن جیسے شعبوں میں آنا بہت مشکل ہے، خاص طور پر میرے ملک میں اس حوالے سے مشکلات زیادہ ہیں۔‘
ویزا کے طویل عمل کی وجہ سے درخواست کا عمل مکمل کرنے میں ایک سال کا عرصہ لگا۔
Supplied to the BBC
گذشتہ برس مارچ میں وہ آخر کار روس پہنچ گئیں۔ ’جب میں پہلی بار وہاں پہنچی تو وہاں بہت سردی تھی، مجھے اس طرح کے موسم سے نفرت ہے۔ جیسے ہی میں ایئرپورٹ سے باہر نکلی تو وہاں جما دینے والی سردی تھی۔‘
لیکن الابوگا سپیشل زون میں پہنچنے کے بعد اور وہاں کا ماحول دیکھ کر اُن پر ایک اچھا تاثر قائم ہوا۔
’میں بہت متاثر ہوئی۔ یہ وہ سب کچھ تھا جس کے بارے میں میں نے سوچا تھا کہ یہ وہاں ہو سکتا ہے۔ وہاں واقعی میں نے بہت سی فیکٹریاں تھیں، کاریں تھیں اور زرعی کمپنیاں تھیں۔‘
ادو نے جولائی میں کام شروع کرنے سے پہلے تین ماہ روسی زبان سیکھنے میں گزارے۔ یہی وہ وقت تھا جب حالات خرابی کی طرف جانا شروع ہوئے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب اُن سمیت پروگرام کے دیگر شرکا سے فارم بھروائے گئے تھے تو انھیں ڈرون فیکٹری میں کام کرنے کے بارے میں کوئی چوائس یعنی انتخاب نہیں دیا گیا تھا۔
ادو بتاتی ہیں کہ نوکری پر آنے سے قبل ان سے نان ڈسکلوژر کے معاہدوں پر دستخط کروائے گئے تھے اور اسی کے تحت اب وہ اپنے اہلخانہ سے اپنے کام سے متعلق تبادلہ خیال نہیں کر سکتی تھیں۔
’ہم سب کے پاس بہت سارے سوالات تھے۔ ہم سب نے کام کرنے کے لیے تکنیکی شعبوں جیسا کہ پروڈکشن آپریشن، لاجسٹکس، ٹاور کرین آپریٹر وغیرہ کے طور پر کام کرنے کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ لیکن یہاں پہنچ کر ہم سب ڈرون فیکٹری میں کام کر رہے تھے۔‘
دوسری جانب الابوگا نے کارکنوں کو بھرتی کرنے کے لیے دھوکہ دہی جیسے ہتھکنڈوں کے استعمال سے انکار کیا ہے۔
بی بی سی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں روسی کمپنی نے کہا کہ ’وہ تمام شعبے جن میں ہمارے ملازمین کام کرتے ہیں ان کی تفصیلات ہماری ویب سائٹ پر درج ہیں۔‘
اس علاقے میں کام کرنے والوں کو یہاں کی تصاویر لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔لیکن بی بی سی نے ’ادو‘ کو روسی سرکاری ٹی وی سٹیشن ’آر ٹی‘ پر نشر ہونے والی ایک ایسی فیکٹری کی فوٹیج دکھائی جو الابوگا میں ایرانی ’شاہد 136‘ نامی ڈرون بنانے والی فیکٹری کی تھی۔
ادو نے ہمیں تصدیق کی کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں وہ کام کرتی تھیں۔
انسٹیٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی سے وابستہ سپینسر فراگاسو کا کہنا ہے کہ ’الابوگا سپیشل اکنامک زون‘ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک جنگی ساز و سامان بنانے والی فیکٹری ہے۔ انھوں نے کہا کہ روس نے کُھل کر اعتراف کیا ہے کہ وہ وہاں ڈرون تیار کر رہے ہیں اور اس متعلق انھوں نے ویڈیوز تک بھی نشر کر رکھی ہیں۔
روس کو اپنی اس سائٹ پر بہت فخر ہے اور وہ اس کی کامیابیوں پر فخر بھی کرتے ہیں اور اس کی تشہیر بھی۔ سپینسر کا کہنا ہے کہ ادو کی طرح انھوں نے اس پروگرام کا حصہ بننے والی بہت سی خواتین سے بھی انٹرویو کیا اور انھوں نے بھی یہی کہا کہ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ روس پہنچ کر ہتھیار بنائیں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ بظاہر یہ بہت سی خواتین کے لیے دنیا دیکھنے، تجربہ حاصل کرنے، پیسہ کمانے اور اپنی پسند کی زندگی گزارنے کا حیرت انگیز موقع ہوتا ہے لیکن حقیقت میں جب انھیں الابوگا لایا جاتا ہے تو انھیں یہ تلخ احساس ہوتا ہے کہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے اور یہاں جو کام انھیں دیا گیا تھا وہ اس سے مختلف ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔
ادو کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی سمجھ گئی تھیں کہ وہ فیکٹری میں کام جاری نہیں رکھ سکتیں۔
اب ان کے ذہن میں وہ سب کچھ آنا شروع ہو گیا کہ کیسے اُن کی ملازمت کے لیے دی جانے والی درخواست سے لے کر اب تک اُن جھوٹ بولے گئے۔ ’مجھے ایسا لگا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کام نہیں کر سکتی جنھوں نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ میں نے اپنی زندگی میں ڈرون فیکٹری میں کام کرنے سے زیادہ کے ِخواب دیکھ رکھے تھے۔‘
انھوں نے ملازمت چھوڑنے کا نوٹس دیا مگر اس موقع پر انھیں بتایا گیا کہ نوٹس کی مدت دو ہفتے ہے اور یوں اس دوران انھیں کام جاری رکھنا پڑا۔ اس دوران انھوں نے ڈرونز کے بیرونی خول کو کیمیائی مادوں سے پینٹ کرنے کا کام کرنا پڑا جس کے باعث اُن کی جلد بھی جل گئی۔
’جب میں گھر پہنچی تو میں نے اپنی جلد کا جائزہ لیا اور یہ جھلس رہی تھی۔ ہم نے حفاظتی لباس پہنا ہوا تھا، لیکن کیمیکل پھر بھی اس حفاظتی لباس سے گزرتا رہا تھا۔‘
الابوگا کا کہنا ہے کہ تمام عملے کو ضروری حفاظتی لباس فراہم کیے جاتے ہیں۔
Supplied to the BBCفیکٹر میں ادو کے ساتھ کرنے والے ایک ساتھی کا جھلسا ہوا بازو
اور یہ واحد خطرہ نہیں تھا۔ 2 اپریل 2024 کو ادو کے روس پہنچنے کے صرف دو ہفتوں بعد الابوگا سپیشل اکنامک زون کو یوکرین کے ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا۔
’اس دن کچھ غیر معمولی ہوا تھا۔ ہمارے ہاسٹل کی اوپری منزل کی کھڑکیاں ٹوٹ چکی تھیں اور کچھ لڑکیاں دھماکے کی آوازیں سُن کر جاگی تھیں، چنانچہ ہم عمارت سے باہر چلے گئے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ باہر نکلی تو انھوں نے چند افراد کو بھاگتے ہوئے دیکھا۔
’میں نے کچھ لوگوں کو اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا ، میں نے بھی آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا، میں نے دیکھا کہ ایک ڈرون آسمان پر نظر آ رہا تھا۔ اسی وقت میں نے بھی دوڑنا شروع کیا۔ میں اتنی تیزی سے بھاگی کہ میں نے ان لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا جو میرے آگے بھاگ رہے تھے۔‘
Supplied to the BBCیوکرین کے حملے کے بعد خوفزدہ لوگ جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں
انھوں نے کہا کہ ’ڈرون نے ہمارے ساتھ والے ہاسٹل کو نشانہ بنایا تھا۔ وہ عمارت مکمل تباہ ہو گئی تھی جبکہ ہماری عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔‘
مہینوں بعد جب انھیں پتہ چلا کہ وہ ڈرون فیکٹری میں کام کر رہی تھیں تو انھوں نے اس حملے کے بارے میں سوچا اور انھیں احساس ہوا کہ یہی وجہ ہے کہ ان پر حملہ کیا گیا۔ ’یوکرین جانتا تھا کہ افریقی لڑکیاں جو ڈرون فیکٹریوں میں کام کرنے آئی تھیں، اس ہاسٹل میں رہتی تھیں۔ اب یہ بات میڈیا تک پہنچ چکی تھی۔‘
جب یوکرین پر شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’نہیں، وہ ڈرون فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور ہیں۔‘ ڈرون حملے کے بعد کچھ خواتین اس روسی کمپنی کو مطلع کیے بغیر وہاں سے چلی گئیں، جس کے بعد منتظمین نے کچھ دیر کے لیے غیرملکی کارکنوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے۔
ادو نے کہا کہ انھیں عملے کی طرف سے بار بار یقین دلایا گیا تھا کہ بھرتی ہونے والے صرف ان شعبوں میں کام کریں گے جن کے لیے انھوں نے سائن اپ کیا ہے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ’یہ الزامات کہ ہم ڈرون بنائیں گے وہ مجھے روس مخالف پراپیگنڈے کی طرح محسوس ہوا۔ جب روس کی بات آتی ہے تو بہت ساری جعلی خبریں ہوتی ہیں، جو روس کو برا دکھانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔‘
سپیشل اکنامک زون میں یورپ اور امریکہ سے لوگ وہاں کام کرتے تھے لیکن روس پر پابندیوں کی وجہ سے وہ سب یوکرین روس جنگ کے بعد وہاں سے چلے گئے ہیں۔ لہٰذا جب روس نے افریقیوں کو وہاں کام کرنے کے لیے تلاش کرنا شروع کیا تو، ایسا محسوس ہوا جیسے وہ صرف یورپی شہریوں کے چھوڑی ہوئی ملازمتوں کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ادو کے نوٹس دینے کے بعد ان کے اہلخانہ نے انھیں گھر واپسی کا ٹکٹ بھیجا لیکن وہ کہتی ہیں کہ بہت سی خواتین کے اہلخانہ واپسی کی پرواز کے لیے ادائیگی نہیں کر سکتے اور وہ وہیں پھنسی رہ جاتی ہیں۔ وہ خود بھی واپسی کا ٹکٹ نہیں خرید سکتیں کیونکہ وہاں ان کو دی جانے والی بتائی جانے والی تنخواہ سے کہیں کم ہوتی ہے۔
جب ادو روس کے لیے روانہ ہو رہی تھیں تو ان کا پلان تھا کہ وہ ہر ماہ 600 ڈالر تک کمائی یقینی بنا پائیں گی، لیکن انھیں اس کا صرف چھٹا حصہ ہی مل سکا۔
’انھوں نے کرائے، لینگویج کلاسز، انٹرنیٹ، ٹرانسپورٹ اور ٹیکس کی مد میں کٹوتی بھی اسی تھوڑی سی تنخواہ سے کی۔ اور پھر انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم ایک دن چھٹی کریں گی تو تنخواہ سے 50 ڈالر کی کٹوتی ہو گی۔ اگر ہم نے اپنا روسی زبان کا ہوم ورک مکمل نہیں کریں گے یا اگر ہم کلاس چھوڑ دیتے ہیں تو بھی وہ آپ کی تنخواہ سے کٹوتی کرتے ہیں۔‘
الابوگا سٹارٹ پروگرام نے بی بی سی کو بتایا کہ تنخواہوں کا انحصار جزوی طور پر کام کی جگہ پر کارکردگی اور طرز عمل پر ہے۔
ہم نے اس پروگرام کا حصہ بننے والی ایک اور خاتون سے بھی بات کی اور وہ کہتی ہیں کہ الابوگا میں اُن کا کام کرنے ا تجریہ زیادہ مثبتتھا۔
انھوں نے استفسار کیا کہ ’ہر کمپنی کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ اگر آپ کسی بھی وجہ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں یا کام پر نہیں جاتے ہیں تو وہ آپ کو آپ کی پوری تنخواہ کیسے ادا کر سکتے ہیں؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہر چیز منطقی ہے، کسی پر بھی زبردستی نہیں کی جاتی۔ زیادہ تر لڑکیاں جو کام چھوڑ دیتی ہیں اور قواعد پر عمل نہیں کرتی ہیں وہ وہاں سے جا سکتی ہیں۔ الابوگا میں کسی کو یرغمال نہیں بنایا جاتا، آپ کسی بھی وقت وہاں سے جا سکتے ہیں۔‘
لیکن ادو کا کہنا ہے کہ روس کی جنگی مشین کے لیے کام کرنا تباہ کن تھا۔
’یہ خوفناک تھا۔ ایک وقت تھا جب میں اپنے ہاسٹل واپس آئی اور میں رونے لگی۔ میں نے خود سے بات کی کہ 'مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں اب یہی کر رہی ہوں۔ ایسی مشین کی تیاری میں کردار ادا کرنا بہت خوفناک محسوس ہوا جو بہت ساری جانیں لے رہی ہے۔‘
’پوتن نے پاکستان کا ذکر کیا نہ افغانستان کا‘: روسی صدر کی ’دھمکی آمیز ویڈیو‘ جس پر ماسکو کو وضاحت دینا پڑیسستے تیل کی ’سازش‘ جس نے سرد جنگ میں سوویت یونین کو نقصان پہنچایا، کیا ٹرمپ اسے دہرا سکتے ہیں؟’خطرناک‘ سمجھا جانے والا علاقہ ’سوالکی گیپ‘ جس پر ممکنہ روسی حملہ تین ممالک کو یورپ اور نیٹو سے الگ کر سکتا ہےروسی فوجیوں کو قتل کرو اور پوائنٹس کماؤ: یوکرین کی نئی سکیم جس نے خون ریز جنگ کو کسی گیم میں تبدیل کر دیارفال کا ڈرون مار گرانے والا ’لیزر سسٹم‘ متعارف جس میں ’ایک ساتھ 10 اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت‘ ہےآپریشن سپائڈر ویب: یوکرین کی 117 ڈرونز سمگل کر کے روس میں فضائی اڈوں اور جنگی طیاروں کو نشانہ بنانے کی بڑی کارروائی