Moose Campbell/ BBCغزہ شہر میں عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو چکی ہیں
غزہ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی رازداری نہیں کہ اس جنگ نے یہاں کیا کیا۔
نقشے اور یادیں یہاں سے ختم ہو چکی ہیں اور غزہ سٹی سے بیت حانون تک صرف ملبہ پھیلا ہوا ہے۔
غزہ شہر کے اندر اب بھی کھڑی کچھ عمارتوں سے ہٹ کر، یہاں ان محلوں اور گلیوں کی شناخت کے لیے تقریباً کچھ بھی نہیں بچا، جہاں کبھی دسیوں ہزار لوگ رہتے تھے۔
یہ ان علاقوں میں سے ایک تھا جہاں جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں اسرائیل کی زمینی فوج داخل ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ متعدد بار واپس آ چکے ہیں کیونکہ حماس اس علاقے میں اپنے مضبوط گڑھ کی وجہ سے دوبارہ منظم ہو گئی۔
اسرائیل میڈیا اداروں کو آزادانہ طور پر غزہ سے رپورٹنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ بی بی سی سمیت صحافیوں کے ایک گروپ کو اسرائیلی فوج کے زیر قبضہ پٹی کے علاقے میں لے گیا۔
اس مختصر دورے کے دوران فلسطینیوں یا غزہ کے دیگر علاقوں تک رسائی نہیں دی گئی۔
اسرائیل میں ملٹری سینسر شپ قوانین کا مطلب یہ ہے کہ اشاعت سے پہلے فوجی اہلکاروں کو ہمارا مواد دکھایا گیا تھا۔ بی بی سی نے ہر وقت اس رپورٹ کے ادارتی کنٹرول کو برقرار رکھا۔
BBC
جس علاقے کا ہم نے دورہ کیا، اس میں تباہی کے حوالے سے جب اسرائیلی فوج کے ترجمان نادو شوشانی سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’مقصد یہ نہیں تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مقصد دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ہے۔ تقریباً ہر گھر سے کسی سرنگ کو راستہ جاتا تھا، یا یہاں جال لگایا گیا تھا یا آر پی جی (راکٹ سے چلنے والا گرینیڈ) یا سنائپر سٹیشن تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ تیزی سے ڈرائیونگ کر رہے ہیں تو صرف ایک منٹ میں آپ کسی اسرائیلی دادی یا بچے کے کمرے کے اندر ہو سکتے ہیں اور یہ ہی 7 اکتوبر کو ہوا۔‘
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرئیل پر حماس کے حملے کے نتیجے میں 1100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اس کے بعد سے اب تک عزہ کے 68 ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
لیفٹیننٹ کرنل شوشانی کہتے ہیں کہ اس علاقے سے متعدد یرغمالیوں کی لاشیں ملی ہیں جبکہ مزید سات مغویوں کی لاپتہ لاشوں کی تلاش جاری ہے۔
غزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ: اب کیا ہو گا اور کن نکات پر ابہام باقی ہے؟غزہ امن معاہدے سے جڑی اُمیدیں اور خدشات: کیا نتن یاہو یرغمالیوں کی واپسی کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں؟اسرائیل سے موصول ہونے والی فلسطینیوں کی 95 مسخ شدہ نامعلوم لاشوں کا معمہ: ’بعض کو جلایا گیا، کچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا‘ٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ: کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟
ہم نے جس اسرائیلی فوجی اڈے کا سفر کیا وہ اس پیلے رنگ کی لکیر سے صرف چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے، جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے مطابق عارضی باؤنڈری بنایا گیا۔
یہ پیلی لکیر ان علاقوں کو، جو اب بھی اسرائیلی فورسز کے زیر کنٹرول ہیں، حماس کے زیر کنٹرول علاقوں سے الگ کرتی ہے۔
اسرائیلی فوجحماس کے جنگجوؤں اور عام شہریوں کے لیے ایک انتباہ کے طور پر بتدریج زمین پر بلاکس کے ساتھ اس پیلی لکیر کو نمایاں کر رہی ہے۔
لکیر کے اس حصے میں ابھی تک کوئی حد بندی نہیں، ایک سپاہی نے منہدم عمارتوں کے سرمئی ٹکڑوں کے درمیان موجود ریت سے بیرنگ لیتے ہوئے میری طرف اشارہ کیا۔
BBC
جنگ بندی ہوئے ایک ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ’تقریبا پر روز‘ ہی حماس کے جنگجوؤں سے لڑتے ہیں۔
کانسی کے رنگ کے گولیوں کے ڈھیر غزہ شہر میں فائرنگ کے مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
حماس اسرائیل پر ’سینکڑوں بار‘ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر چکا ہے اور حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اس کے نتیجے میں 240 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
کرنل شوشانی کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج امریکہ کے زیر قیادت امن منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن وہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ حماس اب اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرہ نہیں بنے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ بات سب پر واضح ہے کہ حماس مسلح ہے اور غزہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس چیز کو حل کیا جائے گا تاہم ابھی ہم اس سے دور ہیں۔‘
امریکی منصوبے کے اگلے مرحلے کے مطابق حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا اور صدر ٹرمپ سمیت بین الاقوامی شخصیات کی نگرانی میں ایک فلسطینی کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا۔
کرنل شوشانی کہتے ہیں کہ ’لیکن اپنی طاقت اور ہتھیار ترک کرنے کی بجائے حماس اس کے برعکس کر رہی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’حماس خود کو مسلح کرنے، تسلط قائم کرنے اور غزہ پر کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
’یہ (حماس) دن دیہاڑے لوگوں کو مار رہی ہے تاکہ شہریوں کو خوف میں مبتلا کر کے انھیں یہ بتایا جا سکے کہ غزہ میں اصل باس کون ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے کافی دباؤ ہے۔‘
اسرائیلی فورسز نے ہمیں ان سرنگوں کا نقشہ دکھایا جو ان کے مطابق فوجیوں کو ملبے کے نیچے ملی تھیں۔ ’سرنگوں کا وسیع نیٹ ورک، تقریباً مکڑی کے جالے کی طرح۔‘
کچھ پہلے ہی تباہ ہو چکی ہیں، کچھ اب بھی باقی ہیں اور کچھ کو وہ ابھی تک تلاش کر رہے ہیں۔
EPAغزہ شہر میں بدھ کے روز حماس کے جنگجوؤں کی تصویر
اس معائدے کے اگلے مرحلے میں کیا ہو گا، یہ ابھی تک واضح نہیں۔
معائدے نے غزہ کو کشیدہ صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے۔ واشنگٹن کو معلوم ہے کہ صورتحال کس قدر نازک ہے کیونکہ جنگ بندی پہلے ہی دو بارناکام ہو چکی ہے۔
امریکہ اس غیر مستحکم صورتحال سے پائیدار امن کی طرف بڑھنے کے لیے سخت زور دے رہا ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کو ایک مسودہ قرارداد بھی بھیجی ہے، جسے بی بی سی نے دیکھا۔
اس میں غزہ کی سکیورٹی سنبھالنے اور حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے بین الاقوامی سٹیبلائزیشن فورس کے لیے دو سالہ مینڈیٹ کا خاکہ پیش کیا گیا۔
لیکن معاہدے کے اگلے مرحلے کی تفصیلات بہت کم ہیں: یہ واضح نہیں کہ کون سے ممالک غزہ کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی اپنی فوج بھیجیں گے، اسرائیل کی فوجیں کب واپس جائیں گی، یا غزہ کی نئی ٹیکنوکریٹک انتظامیہ کے ارکان کی تقرری کیسے کی جائے گی۔
صدر ٹرمپ غزہ کے بارے میں اپنے وژن کو مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے مرکز کے طور پر بیان کرتے ہیں، جسے غیر ملکی سرمایہ کاری سے بنایا گیا ہو۔
لیکن آج غزہ جہاں ہے، وہاں سے یہ بہت دور کی بات لگتی ہے۔
اسرائیل کی طرف سے بڑے پیمانے پر تباہی کے شکار عزہ کو ٹرمپ کی جانب سے سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن سوال صرف یہ نہیں کہ لڑائی کو کون روک سکتا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے غزہ کے شہری اپنی کمیونٹیز اور زمینوں کے مستقبل کے بارے میں کتنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
غزہ کی پٹی: ’دنیا کی سب سے بڑی کُھلی جیل‘ جس پر سکندر اعظم سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ تک نے حکومت کیغزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ: اب کیا ہو گا اور کن نکات پر ابہام باقی ہے؟غزہ امن معاہدے سے جڑی اُمیدیں اور خدشات: کیا نتن یاہو یرغمالیوں کی واپسی کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں؟حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ جس سے ہلاکتیں تو رک سکتی ہیں لیکن تنازع نہیںاسرائیل سے موصول ہونے والی فلسطینیوں کی 95 مسخ شدہ نامعلوم لاشوں کا معمہ: ’بعض کو جلایا گیا، کچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا‘ٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ: کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟