پاکستان میں دیت کی رقم میں 17 لاکھ روپے کا اضافہ: یہ قانون ہے کیا اور تنقید کی زد میں کیوں رہتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 20, 2025

Getty Imagesگذشتہ برس یہ رقم 81 لاکھ تین ہزار955 روپے تھی

پاکستان میں دیت کی رقم کو 81 لاکھ سے بڑھا کر 98 لاکھ کر دیا گیا ہے اور اسے نافذ کرنے کے لیے حکومت نے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اب دیت کی رقم 98 لاکھ 28 ہزار 670 روپے ہو گی جو 30 ہزار 630 گرام چاندی کے مساوی بنتی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس یہ رقم 81 لاکھ تین ہزار955 روپے تھی یعنی اس برس اس میں 17 لاکھ روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔

پاکستان کے قانون میں قتل کی سزا موت یا عمر قید ہے لیکن اگر مدعی چاہے تو ملزمان سے دیت کی رقم لے کر یا اس کے بغیر بھی معافکر سکتا ہے تاہم انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے مقدمات میں صلح کی راہ موجود نہیں کیونکہ ان دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے۔

دیت کا قانون کیا ہے؟

پاکستان میں دیت کے قانون کے مطابق قتل جیسے سنگین جرم میں بھی مقتول کے خاندان کے پاس ملزمان کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔ انھیں صرف عدالت میں اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ’ہم انھیں خدا کے لیے معاف کرتے ہیں۔‘

درحقیقت قانونی ماہرین کے مطابق اس ’معافی‘ کا بنیادی مقصد مالی مفاد ہوتا ہے اور متاثرین کو غیر رسمی طریقے سے رقم کی ادائیگی کسی طرح بھی غیر قانونی نہیں۔

جسمانی تشدد کے جرائم کی صورت میں ’تصفیہ‘ یا ’معافی‘ کی دفعات پہلی مرتبہ 1990 کی دہائی میں اسلام سے متاثر قانونی اصلاحات کے طور پر متعارف کروائی گئیں تھی۔

اس نظام کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں عدالتی نظام پر کافی بوجھ ہے۔ ان دفعات سے نہ صرف نظام پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس سے فسادات بڑھنے کے امکان بھی کم ہو جاتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق سنہ 1990 میں قتل کے مقدمات میں سزا ملنے کی شرح 29 فیصد تھی تاہم ان قوانین کے آنے سے یہ کم ہو کر سنہ 2000 میں صرف 12 فیصد رہ گئی تھی۔

ناقدین کہتے ہیں کہ اس قانون سے بار بار جرم کرنے والوں کو ایک طرح کا استثنیٰ مل جاتا ہے اور یہ طاقتور افراد کے لیے انصاف سے بچنے کا ہتھیار بن جاتا ہے۔

پاکستان میں دیت کا قانون متنازع کیوں ہے؟

سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے بی بی سی کو بتایا کہ دیت کی رقم کا تعین چاندی کے نرخ کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق چونکہ دوسری چیزوں کی طرح ہر برس چاندی کے نرخ بھی تبدیل ہوتے ہیں تو اس وجہ سے یہ رقم بھی ہر سال بڑھا دی جاتی ہے۔

خالد رانجھا کے مطابق حکومت دیت کی رقم کے تعین کے لیے پہلے چاندی کے نرخ کو دیکھتی ہے اور پھر اسے مساوی طور پر روپے میں مقرر کر دیتی ہے۔

اس قانون کے غلط استعمال سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ یہ نظام انصاف پر منحصر ہے کہ وہ اس قانون کے غلط استعمال کوروکے اور اس میں دباؤ یا دھونس کے پہلو کو نہ آنے دے۔

خالد رانجھا کی رائے میں یہ دیت کا قانون اسلام سے بھی پہلے سےچلا آ رہا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اسے کسٹمری اور سول لا کی کیٹگیری میں رکھا گیا ہے۔

مذہبی سکالر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دیت کا قانون قرآن سے بھی پہلے عرب قبائل میں رائج تھا۔ ان کی رائے میں پاکستان میں صرف عربی سے انگریزی میں ترجمہ کر کے شامل کر دیا گیا جبکہ اس کی روح کو سمجھا ہی نہیں گیا۔

ان کے مطابق جب پیسے کے زور پر کسی کو عدالت سے معافی مل جاتی ہے تو اس سے سماجی اور معاشرتی تفریق مزید بڑھ جاتی ہے اور کامن لا والے ججز جرم کی نوعیت کو دیکھے بغیر ترجمہ کیے گئے قانون کی طرف آ جاتے ہیں کہ چلیں جی اب تو خاندانوں میں صلح ہو گئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ جہاں قرآن میں احکامات درج ہیں وہیں ہزاروں فقہ موجود ہیں اور اس پر بہت تحقیق کی گئی ہے کہ کیسے کسی حکم پر عمل پیرا ہونا ہے جبکہ پاکستان میں اس طرح کی تحقیق نہیں کی گئی، جس سے ہمیں اس قانون کے مرضی کے استعمال کے پہلو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

AFPشاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں نے دسمبر 2012 میں تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے شاہ زیب خان کو قتل کر دیا تھا

اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے محقق مجتبی راٹھور نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تک ورثا راضی نہ ہوں تو پھر دیت کا آپشن لاگو نہیں کیا جا سکتا۔

ان کے مطابق اگر ورثا دیت وصول بھی کر لیں تو عدالت کسی عادی مجرم یا مقدے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تعزیری سزائیں دے سکتی ہے تاکہ عادی مجرم اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔

وکیل مدثر لطیف عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ دیت اور قصاص کے قوانین جب 1990 میں لائے گئے تو اس کا مقصد متاثرین کی بھلائی اور فلاح کے پہلو کو سامنے رکھنا تھا۔ ان کے مطابق اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزم کےبجائے کمزور فریق کے ساتھ کھڑی ہو جس کی داد رسی اگر کوئی اور نہ بھی کرے تو پھر اس کا خدا کے بعدسہارا تو ریاست ہی ہوتی ہے۔

مدثر کی رائے میں فوجداری مقدمات میں اسی وجہ سے ریاست فریق ہوتی ہے اور اس کا یہ کام بنتا ہے کہ وہ بااثر ملزمان سے مل کر متاثرین پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہ آنے دیں اور یہ فیصلہ انھیں اپنی آزادانہ مرضی سے کرنے دیں۔ ان کی رائے میں اسلامی قوانین میں بغیر دیت لیے بھی معافی کا تصور ہے۔

دیت کا قانون: طاقتور کو تحفظ دینے کا ہتھیار کیوں؟شاہ رخ جتوئی بری: ’کوئی امیر اور طاقتور بچا تو نہیں جیل میں؟‘صلاح الدین کیس میں پولیس کو معافی کیسے ملیدیت کا قانون: طاقتور کو تحفظ دینے کا ہتھیار کیوں؟ماضی میں پاکستان میں دیت کے قانون کو کیسے استعمال کیا جاتا رہا؟

اسلام آباد کے ایک متمول علاقے میں بارہ دسمبر 2022 کو ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں کم عمر لڑکی کی گاڑی سے ایک 40 سالہ شخص کی موت ہوئی تھی۔

23 دسمبر 2022 کو اسلام آباد کی ایک عدالت نے فریقین کے مابین راضی نامہ ہو جانے کے بعد ملزمہ کی ضمانت منظور کر لی تھی۔ عدالت سے جاری ہونے والے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملزمہ اور مدعی مقدمہ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ اور لواحقین کے درمیان راضی نامہ ہو گیا جس کے عوض لڑکی کے گھر والوں نے لواحقین کو 69 لاکھ روپے بطور دیت ادا کیے۔

آٹھ جون 2022 کی رات جب شکیل تنولی اور ان کے دوست علی حسنین نے اسلام آباد ہائی وے کو پیدل عبور کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ اقدام ان کی جان لے لے گا۔

مقامی پولیس کے مطابق شکیل اور علی سڑک عبور کر رہے تھے جب ایک تیز رفتار گاڑی نے انھیں ٹکر ماری جس کی وجہ سے دونوں افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے اور مذکورہ خاتون جائے حادثہ سے فرار ہو گئیں۔

مرنے والے دونوں افراد بلیو ایریا میں ایک ریستوران میں کام کرتے تھے اور آٹھ جون کی شب ڈیوٹی کر کے واپس گھر لوٹ رہے تھے اور اس حادثے میں جو گاڑی استعمال ہوئی وہ مقامی پولیس کے بقول اس وقت کے لاہور ہائی کورٹ کے جج ملک شہزاد احمد خان کے زیر استعمال تھی۔

یہ مقدمہ بھی دیت کے قانون کے تحت ہی ختم کر دیا گیا تھا۔

Getty Imagesمحقق مجتبی راٹھور نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تک ورثا راضی نہ ہوں تو پھر دیت کا آپشن لاگو نہیں کیا جا سکتا

یہ 2023 کا واقعہ ہے۔ ثنا بابر ایک مقامی کالج میں او لیول کی طالبہ ہیں۔ ان کے بھائی سلمان بابر اسلام آباد میں تعیلم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کال سینٹر بھی چلاتے تھے۔

ثنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نو فروری کو سلمان اکبر اپنا کام مکمل کرنے کے بعد موٹر سائیکل پر گھر جارہے تھے کہ رات ڈیڑھ بجے کے قریب اسلام آباد میں تھانہ کوہسار کی حدود میں واقع کوہسار روڈ پر ایک تیز رفتار گاڑی نے اُن کو ٹکر ماری جس سے سلمان بابر موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پولیس افسر نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث ملزم ایک سیاسی رہنما کا رشتہ دار ہے تاہم اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تھانہ کوہسار میں درج ہونے والے مقدمے میں پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 لگائی ہے جو کہ قتل عمد سے متعلق ہے اور اگر مقتول کے ورثا راضی ہوں تو دیت کے قانون کے تحت ملزم بری ہو سکتا ہے۔

اسی طرح شاہ زیب خان کی ہلاکت کا واقعہ 24 دسمبر 2012 کی شب کراچی میں ڈیفینس کے علاقے میں پیش آیا تھا جہاں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں نے تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے شاہ زیب کو قتل کر دیا تھا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے 18 اکتوبر 2022 میں اس وقت تمام ملزمان کو بری کر دیا جب ان کی صلح کی تفصیلات جمع کرائیں۔

شاہ رخ جتوئی بری: ’کوئی امیر اور طاقتور بچا تو نہیں جیل میں؟‘اسلام آباد: ’تفتیشی افسر نے والدہ سے کہا کہ اپنے ہاتھ سے درخواست لکھیں ورنہ بیٹے کی لاش نہیں ملے گی‘سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی کے خلاف ’ہٹ اینڈ رن‘ کیس: ملزمہ کی دو برس بعد عدالت میں پیشی اور ضمانت کیسے ممکن ہوئی؟اسلام آباد میں گاڑی کی ٹکر سے 40 سالہ شخص کی ہلاکت: 69 لاکھ دیت کی ادائیگی کے بعد ملزمہ کی ضمانت منظوردیت کا قانون: طاقتور کو تحفظ دینے کا ہتھیار کیوں؟صلاح الدین کیس میں پولیس کو معافی کیسے ملی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More