امریکی ریاست آئیوا میں مسلمانوں کی ایک قدیم ترین عمارت اور بچ جانے والی عبادت گاہ ہے جسے ’مدر ماسق‘ یعنی ام المساجد کہا جاتا ہے۔ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق آئیوا کے شہر سیڈر ریپڈس میں لبنانی تارکین وطن کی نسل نے تقریباً ایک صدی قبل اسے تعمیر کیا تھا۔ایسے وقت میں جب مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازعات نے امریکہ میں امیگریشن اور اسلام کے حوالے سے کشیدگی کو ہوا دی ہے، ان تارکین نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بطور مسلمان اور امریکی شہری یہاں رہنا کیسا ہے۔
سونے کی کڑھائی والے لباس میں ملبوس دروازے کے ساتھ کھڑی فاطمہ ایگرام سمیجکل نے عقیدت مندوں کو’سلام‘ کہتے ہوئے خوش آمدید کہا جو جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے اسلامک سینٹر آف سیڈر ریپڈس میں داخل ہوئے تھے۔
1934 میں ان کے خاندان نے اس عمارت کو بنانے میں تعاون کیا تھا جسے نیشنل رجسٹر آف ہسٹورک پلیس نے وہ ’پہلی عمارت‘ قرار دیا ہے جسے خاص طور پر امریکہ میں مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا۔فاطمہ ایگرام نے اپنے جیسے خاندانوں کے بارے میں بتایا جو 20 ویں صدی کے اواخر میں پہنچے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب وہ یہاں آئے تھے تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا، انہیں جو ملا یہاں سے ملا اس لیے وہ کچھ دینا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں صومالیہ، کانگو، سوڈان اور افغانستان سے آنے والوں کے لیے بہت نرم گوشہ رکھتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کیا چھوڑا، اس مسجد میں چلتے ہوئے وہ کیا سوچ رہے ہوں گے۔‘کمیونٹی اب اسلامک سینٹر میں جمع ہے جسے 1970 کی دہائی میں اُس وقت بنایا گیا تھا جب اس کے ارکان کی تعداد مسجد کے نماز کی ادائیگی کے لیے مختص ہال کے لیے اضافی ہو گئی تھی۔مسجد کے امام طحہ تاویل کا کہنا ہے کہ سیڈر ریپڈس میں دقیانوسی تصوّرات نہیں چل سکتے (فوٹو: اے پی)حسن ایگرام جو سینٹر کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ ’آپ ایک ایسے مسلمان ہو سکتے ہیں جو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو اور اس کے باوجود آپ اپنے آس پاس موجود افراد کے ساتھ مل کر رہ سکتے ہیں۔‘ہزاروں نوجوان، عیسائی اور مسلمان دونوں، سلطنت عثمانیہ سے فرار ہونے کے بعد وسط مغربی قصبوں میں آباد ہوئے۔بیکنگ سیلز اور کمیونٹی ڈنر کے ذریعے مسلم خواتین کے ایک گروپ نے 1920 کی دہائی میں ’مسلم ٹیمپل‘ کی تعمیر کے لیے فنڈز اکٹھے کیے۔انیس آسی نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے۔ ’ہم پر مذہب کے حوالے سے زیادہ سختی نہیں تھی۔ وہ خود کو امریکی معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے یہاں آئے تھے۔‘مسلمانوں کو بعض اوقات ادارہ جاتی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری عالمی جنگ میں خدمات انجام دینے کے بعد سمیجکل کے والد عبداللہ ایگرام نے کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور یہودیوں کے ساتھ ساتھ مسلمان کو ایک آپشن کے طور پر شامل کرنے کے لیے ’ڈاگ ٹیگ‘ کے لیے کامیابی سے مہم چلائی۔لیکن امریکی ریاست لووا کے شہر سیڈر ریپڈس میں تارکین وطن کو قبولیت ملی۔ عبادت گاہوں اور امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کے غیر مسلم پڑوسیوں کے درمیان دوستی سے اس قبولیت میں اضافہ ہوا۔افریقی نژاد امریکی شہری اکو عبدالصمد جنہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک ڈیس موئنز کی ایوان نمائندگان میں نمائندگی کی، نے بتایا کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد بد اعتمادی ایک بار پھر بھڑک اُٹھی۔انہیں خوف تھا کہ جب وہ پہلی بار عہدے کے لیے انتخاب لڑیں گے تو مسلمان ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوں گے تاہم ووٹروں نے انہیں بار بار منتخب کیا۔’مدر ماسق‘ کو امریکہ میں مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ کے طور پر بنائی گئی پہلی عمارت کہا جاتا ہے (فوٹو: اے پی)اگرچہ مسلم کمیونٹیز مینی پولس اور ڈیٹرائٹ جیسے بڑے شہروں میں پھل پھول رہی ہیں اور اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں، امیگریشن ایک متنازع مسئلہ ہے۔مسجد کے امام طحہ تاویل کا کہنا ہے کہ ’مسلمانوں اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان روزانہ کی بات چیت نے تعصب سے کچھ تحفظ فراہم کیا ہے۔ سیڈر ریپڈس میں دقیانوسی تصوّرات نہیں چل سکتے۔‘ فروز وزیری نے ازراہِ مذاق کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ مینا اس شہر میں پہلے افغان تھے جو 2010 کی دہائی کے وسط میں بیرون ملک امریکی مسلح افواج کے لیے کام کرنے والوں کے خصوصی ویزے پر یہاں آئے تھے۔ ’کلچرل شاک‘ اور مختلف زبان کی وجہ سے درپیش مسائل سے نبرد آزما ہونے کے بعد وہ امریکی شہری بن گئے ہیں، اور وہ کیتھولک راہباؤں کے ذریعے قائم کردہ غیر منافع بخش ادارے میں پناہ گزینوں کے ریسورس مینیجر ہیں۔اگرچہ فروز وزیری امداد اور تحفظ کے لیے شکر گزار ہیں تاہم وہ اپنے خاندان اور وطن کو یاد کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ مینا وزیری کہتی ہیں کہ ’ذہنی اور جذباتی طور پر میں کبھی نہیں سوچتی کہ میں امریکی ہوں۔‘