مولای ادریس: مراکش کا ’مقدس‘ قصبہ جس کے کچھ حصوں میں آج بھی غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع ہے

بی بی سی اردو  |  Aug 11, 2025

رنگوں اور روایتوں میں ڈوبا یہ چھوٹا سا قصبہ صدیوں تک بیرونی دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رہا ہے۔ ’مولای ادریس‘ (مولاي إدريس) ایک ایسا مقدس مقام ہے جو گوشہ عافیت ہے۔

یہ مراکش کے ریف پہاڑی سلسلے میں واقع ’جبل زرہون‘ کے دامن میں واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔

میں مراکش کی گرمی کی تپش سے بچنے کے لیے علی الصبح اٹھتا ہوں اور زیتون کے درختوں سے ڈھکی پہاڑی کی جانب نکل جاتا ہوں۔ راستے میں صدیوں پرانی پُرپیچ گلیاں پڑتی ہیں جن کی دیواریں مرجان، بنفشی اور زمرد کے رنگوں میں رنگی ہوئی ہیں۔

یہ قصبہ مراکش کے شہر ’شیفشاون‘ سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

تاریخی طور پر غیر مسلموں کے لیے بند ہونے اور براہ راست یہاں تک ٹرین کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مولای ادریس سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ اس رنگ برنگے قصبے کا مراکش کی پہلی اسلامی سلطنت کے بانی ادریس اول سے تعلق ہے اور مولای ادریس کو مراکش کی مقدس ترین زیارت گاہ تصور کیا جاتا ہے۔

ہمارے ٹور گائڈ عماد المیلودی نے بتایا کہ ’اگر آپ مولای ادریس زیارت کے لیے آئیں، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ نے سعودی عرب کے شہر مکہ کی زیارت کی ہو۔‘

اپنے شاندار رنگوں اور مقدس حیثیت کے باوجود، یہاں کی زندگی سادہ، خاموش اور روایتوں میں رچی بسی ہے۔ اس قصبے میں غیرمسلموں کے داخلے پر عائد پابندی سنہ 1912 میں ختم کر دی گئی تھی اور اب مراکش کے تیز رفتار ریلوے نظام میں بہتری کے ایک منصوبے کے تحت یہاں آنا مزید آسان ہو جائے گا، کیونکہ اس قصبے کے قریب واقع شہر ’مکناس‘ میں ایک نیا ریلوے سٹیشن بنایا جا چکا ہے۔

عماد المیلودی کہتے ہیں: کہ ’ہم مزید زائرین کے منتظر ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو مراکش کے اس اہم شہر کے بارے میں پتہ چلے۔‘

کھنڈرات میں پناہ

سنہ 786 میں ایک ناکام بغاوت کے بعد مراکش کی پہلی اسلامی سلطنت کے بانیادریس اول یعنی ادریس بن عبداللہ (جن کا نسب پیغمبر اسلام کے خاندان سے جا ملتا ہے) نے ولوبیلس یا ولیلی نامی کھنڈرات کو اپنا مرکز بنایا تاکہ وہ اسلام کی تبلیغ کر سکیں۔

سنہ 791 میں زہر دیے جانے کے سبب ادریس اول کی موت واقع ہو گئی اور انھیں ان کھنڈرات سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر دفنایا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ان کے پیروکاروں نے اُن کی قبر کے گرد گھر بنانا شروع کیے، جس سے اس قصبے کی بنیاد پڑی۔

آج ولیلی کے کھنڈرات میں ستونوں، قدیم گھروں، عوامی حماموں اور نقش و نگار سے مزین در و دیوار کی باقیات، زرد پھولوں سے بھرے کھیتوں، زیتون اور انگوروں کے باغات کے بیچ، بکھری ہوئی ہیں۔

ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ ’ایک وقت تھا جب یہاں دو دریا بہتے تھے۔ پہلے لوگ یہاں زرخیز زمین کی وجہ سے آباد ہوئے۔ ان کے پاس سب کچھ تھا۔‘

مقدس شہروں کا مرکز

جیسے جیسے مولای ادریس نے ترقی کرنا شروع کی یہ تیزی سے مراکش کا سب سے اہم مذہبی شہر بنتا گیا۔ اس کی تقدیس کو برقرار رکھنے کے لیے، اس میں غیرمسلموں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی جو سنہ 1912 تک نافذ العمل رہی۔

اس کے بعد بھی یہاں غیرمسلموں کو رات گزارنے کی اجازت نہیں تھی تاہم سنہ 2005 میں مراکش کے بادشاہ حمد ششم کے حکم پر غیر مسلموں کو یہاں رات گزارنے کی اجازت دی گئی۔ اس اجازت کا مقصد مغربی تہذیبوں اور مراکش کے درمیان فاصلے کم کرنا اور مولای ادریس کو دنیا کے سامنے متعارف کروانا بتایا گیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود اس قصبے کے کچھ سب سے مقدس مقامات آج بھی صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں، جیسے ادریس اول کا مزار اور اُن سے منسلک مسجد۔ قصبے کے مرکزی چوک سے ایک محرابی راستے کے ذریعے آپ چمکدار سفید فرش پر چلتے ہوئے مسجد اور مزار کے اندر جاتے ہیں، یہاں وہ مقام ہے جہاں سے آگے غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع ہے اور اس کے آگے صرف مسلمان ہی جا سکتے ہیں۔

اذان کی آواز

مقامی گیسٹ ہاؤس میں میرے میزبانوں میں سے ایک ہاحبہ ضاحک مجھے کئی پُرپیچ راستوں سے گزارتے ہوئے مسجد کے سامنے ایک عام نظروں سے اوجھل مقام پر لے گئیں۔ یہاں اذان کی آواز تنگ گلیوں میں گونج رہی تھی۔ محراب دار کھڑکیوں سے ہم نے چند نمازیوں کو مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔

جب ہم سبز و سفید پتھروں سے بنی ایک راہداری سے مسجد کو دیکھ رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ ’رمضان میں یہ راہداریاں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ اور ماہ اگست میں، مولای ادریس کی تعظیم میں ایک تہوار منایا جاتا ہے جس میں پورے مراکش سے مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ اس تہوار کے دوران لوگ زمین پر سوتے ہیں، اور موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔‘

ایک بہت ہی منفرد مینار

سڑک کے کنارے دو لڑکے پُرجوش انداز میں پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’لا گرانڈ ٹیرس، میڈم؟ لے مینار؟ سینک منٹس!' یعنی کتنا شاندار ٹیرس ہے میڈم، یہ مینار، صرف پانچ منٹ!‘

ڈھلان کے نیچے سے میں السنطیسی مسجد کے سبز گول مینار کو دیکھتی ہوں، جس پر خط کوفی میں قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ سبز اور سفید رنگ اسلامی مذہب میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔

7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفرانڈیا میں ’براہمنوں کا شہر‘ جو اپنی نیلی شناخت کھو رہا ہےمکہ اور مدینہ میں آباد طاقتور یہودی اور مسیحی قبائل کا عروج و زوال: مسلمانوں کے مقدس ترین شہر اسلام سے قبل کیسے تھے؟ازبکستان میں ’مقدس پھل‘ سے بھری ریشم کی وادی جو سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے

سبز رنگ نیکی کی علامت ہے اور سفید پاکیزگی کی۔ اور یہ گول مینار مبینہ طور پر مراکش کا واحد مینار ہے جو اس شکل کا ہے، کیونکہ مراکش میں مسجدوں اور مقدس مقامات کے مینار عام طور پر چوکور ہوتے ہیں۔

اس مسجد کے معمار ادریس السنطیسی نے سنہ 1939 میں اس مینار کو اس نظریے کے تحت بنایا کہ مولای ادریس کی مسجد کو دیگر مساجد سے منفرد کیا جا سکے۔

واٹرکلر کے ذریعے اسلام کو خراجِ عقیدت

مرکزی چوک کے اوپر، مکانات اور دکانیں پتھریلی پہاڑیوں پر بنی ہیں، جو تنگ گلیوں اور سرنگوں کی بھول بھلیوں جیسے جال سے جُڑی ہوئی ہیں۔ یہ راہداریاں پہاڑیوں کے گرد گھومتی ہوئی اوپر کو جاتی ہیں، جہاں سفید دیواریں رنگین راستوں میں بدل جاتی ہیں۔ ہر موڑ اور سیڑھیوں کے ہر زینے میں ایک نیا رنگ ظاہر ہوتا ہے۔ ان رنگوں میں آپ کو سبز، ہلکا نیلا، پیلا، گدلا گلابی اور دیگر ہلکے رنگ نظر آتے ہیں جو کہ آپ کو واٹر کلر کی پینٹنگ کا احساس دلاتے ہیں۔

یہاں ہمیں اِن رنگین گلیوں کی ابتدا کے بارے میں مختلف کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ کچھ مقامی لوگ جن سے میری ملاقات ہوئی، کہتے ہیں کہ جب سے یہ شہر آباد ہوا ہے، عمارتیں سبز اور سفید ہی رہی ہیں۔ دوسرے کہتے ہیں کہ پہلے یہ مکان صرف سفید ہوتے تھے، پھر آہستہ آہستہ لوگوں نے خود ہی ان پر رنگ کرنا شروع کر دیا۔

ہمارے گائیڈ عماد المیلوی کہتے ہیں: ’یہ رنگ لوگوں کی پسند کا نتیجہ ہیں۔‘

البتہ وہ بات جس پر سب متفق نظر آتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مولای ادریس میں سبز اور سفید رنگ کی غالب موجودگی اسلام کو خراجِ عقیدت ہے، جو امن اور اس شہر کی روحانی اہمیت کی علامت بھی ہے۔

مقدس سمجھے جانے والے جانور

’کیا آپ نے کبھی سوچا کہ مراکش کی گلیوں میں بلیاں ہر جگہ کیوں نظر آتی ہیں؟‘ قریبی شہر مکناس سے تعلق رکھنے مراکشی خاتون مدیحہ الفی نے ہم سے یہ سوال کیا۔ اور پھر وہ خود ہی اس کا جواب دیتی ہیں کہ ’اسلام میں بلیوں کو بہت قدر و منزلت حاصل ہے۔ وہ ناپاک نہیں ہیں۔ روایت ہے کہ پیغمبر اسلام بلیوں کے معاملے میں نرمی اور محبت سے پیش آتے تھے، اور یہ مسلمانوں کے لیے ایک مثال ہے۔‘

واقعی، مولای ادریس کی رنگین گلیوں میں گھومتے ہوئے آپ کو شاید انسانوں سے زیادہ بلیاں نظر آئیں۔ نارنجی اور سفید بلیاں زرد سیڑھیوں پر گھومتی یا آرام کرتی نظر آتی ہیں۔ نیلی راہداری میں کھیلتے بلی کے بچے بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔

روایتی طرزِ زندگی کی جھلکیاں

گدھے آج بھی مولای ادریس میں روایتی طرزِ زندگی کی علامت ہیں۔ مراکش کے دوسرے مشہور سیاحتی مقامات جیسے فاس یا مراکش کے برعکس، یہاں گدھوں کو سیاحوں کے لیے نہیں، بلکہ مقامی باشندوں کی روزمرہ زندگی میں مدد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

المیلودی کہتے ہیں: ’یہ گدھے ہر معاملے میں مقامی افراد کے کام آتے ہیں۔ زیتون کی فصل کی کٹائی ہو یا پہاڑوں تک سامان پہنچانا یا کسی مریض یا بوڑھے شخص کو کہیں پہنچانا۔‘

قدیم شہر میں جدید زندگی

مولای ادریس کی زیادہ تر زندگی پہاڑی گلیوں اور رنگین راستوں کے درمیان میں ہو کر گزرتی ہے۔ مگر شام ہوتے ہی، شہر کی زندگی پہاڑیوں سے اُتر کر نیچے مرکزی چوک میں آ جاتی ہے۔

یہاں نیلے اور جامنی پھولوں والے درختوں کے سائے تلے میزوں پر مقامی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، کافی اور پودینے کی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

بچے فٹبال کھیلتے ہیں۔ عورتیں سرخ پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھی ایک دوسرے کے ہاتھوں اور پیروں پر مہندی لگاتی ہیں۔ مرد دھاری دار جلابہ (ایک لمبا، روایتی مراکشی چوغہ) پہنے چوک میں خوش خرامیاں کرتے نظر آتے ہیں۔

موسمی نعمتیں

مرکزی چوک کے قریب ہی ایک موڑ پر، دکاندار تازہ کھانے اور موسمی پھل فروخت کرتے ہیں۔

ٹوکریوں میں آڑو، شہتوت، آلوچے اور ہرے پتوں والی جڑی بوٹیاں بھری ہوتی ہیں۔

سٹریٹ فوڈ بھی جگہ جگہ وافر تعداد اور مقدار میں دستیاب ہیں۔ مرد کیفتہ یا کوفتہ (گائے یا بھیڑ کے گوشت سے تیار کردہ مصالحے دار کباب) اور تازہ مکئی کی بالیاں آگ پر بھونتے ہیں۔

اوپر سے منظر

دوپہر کی گرمی ختم ہونے پر میں غروبِ آفتاب کے وقت شہر سے باہر نکل کر پہاڑ کی طرف چڑھائی کرتی ہوں۔ رومی حماموں کے پاس سے گزرتی ہوں، ایک بہتے دریا کو عبور کرتی ہوں، اور گلابی پھولوں سے بھرے کھیتوں میں چرنے والی بھیڑوں کے ریوڑوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے بڑھتی ہوں۔

اور پھر زیتون کے درخت کی شاخوں کے نیچے پتھریلی زمین پر بیٹھ کر میں مولای ادریس کے رنگین گھروں کو دیکھتی ہوں جو دو کھردری پہاڑیوں پر پھیلے ہیں اور کھلے میدانوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ آسمان پر نارنجی اور سرخ رنگ چھا جاتے ہیں، جو اسے سنہری روشنی میں نہلا دیتے ہیں۔

یہ ایک ایسی دنیا میں آباد ہے جہاں سیاحت اکثر بناوٹی اور ترتیب دی ہوئی ہوتی ہے۔ مولای ادریس روزمرہ کی غیر فلٹر شدہ زندگی میں جھانکنے کا ایک نایاب موقع فراہم کرتا ہے۔

المیلودی نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ ’اگر آپ کسی کے دروازے پر دستک دیں، تو وہ آپ کو چائے کی دعوت ضرور دے گا۔‘ مراکش کی روحانی تاریخ کا دل سیاحوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کی صدیوں پرانی، رنگوں میں ڈوبی گلیوں اور روایتی زندگی کی سست روی کو دریافت کریں۔

مراکش کے رف ماؤنٹینز یا جبال الریف کو بی بی سی ٹریول نے سنہ 2025 میں دیکھنے کے 25 بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک قرار دیا ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جو نہ صرف سیاحوں کا خیرمقدم کر رہے ہیں، بلکہ سیاحت کو اچھے کام کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہاں مکمل فہرست دیکھیں۔

7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفرمکہ اور مدینہ میں آباد طاقتور یہودی اور مسیحی قبائل کا عروج و زوال: مسلمانوں کے مقدس ترین شہر اسلام سے قبل کیسے تھے؟مسجد الحرام: کعبے کے گرد ایک چھوٹے سے صحن سے دنیا کی سب سے بڑی مسجد تکازبکستان میں ’مقدس پھل‘ سے بھری ریشم کی وادی جو سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے2025 میں سیر و تفریح کے لیے گلگت بلتستان سمیت دنیا کے 25 بہترین مقامات
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More