"اگر بچوں کو بزنس کلاس نہیں دینا تو کیا بچے کہیں سے ادھار لیے ہیں؟"
"اگر پیسے ہونے کے باوجود بچے فائدہ نہ اٹھا سکیں تو ایسے پیسے کا فائدہ؟ بچوں کو جھونپڑی میں رکھو اور خود محل میں رہو“
"ماں ہو کر بچوں کو اکانومی میں اور خود بزنس میں؟ فیملی ٹرپ کا مطلب ہے سب ساتھ، یہ سوچ قابلِ افسوس ہے!"
"سبق دینا ہے ٹھیک، مگر انہیں سہولت بھی دیں... ورنہ وہ خود کو الگ محسوس کریں گے!"
"یہ پاکستانی سیلیبریٹیز بزنس کلاس کے اتنے دیوانے کیوں ہیں؟ ہر بات کیوں شیئر کرنی ضروری ہے؟"
یہ وہ تنقیدی تبصرے ہیں جو ندا یاسر کے ایک حالیہ بیان کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔
ندا یاسر، جو گزشتہ سولہ برس سے مارننگ شو گڈ مارننگ پاکستان کی میزبان ہیں اور انسٹاگرام پر 2.6 ملین فالوورز رکھتی ہیں، ایک انٹرویو میں دیے گئے بیان کے باعث آج کل تنقید کی زد میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ:
"میں اور یاسر اکثر سفر کرتے ہیں، اسی لیے بزنس کلاس کی ڈیلز اور ڈسکاؤنٹس ہمیں مل جاتے ہیں، تو ہم فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن میں اپنے بچوں کو بزنس کلاس کا ٹکٹ نہیں لینے دیتی۔ وہ اکانومی میں سفر کرتے ہیں، کیونکہ جب وہ خود کمائیں گے تو بزنس کلاس کی سہولت سے لطف اٹھا سکیں گے۔"
یہ بیان سادہ سا مشورہ لگ سکتا تھا، مگر عوامی ردعمل نے اسے تنازع میں بدل دیا۔ کئی سوشل میڈیا صارفین نے اس بیان کو "طبقاتی فرق کی تربیت" اور "ماں کی طرف سے بچوں کو الگ کرنے کا عمل" قرار دیا۔
کچھ نے کہا کہ اگر بچے سفر میں ساتھ ہوں تو ان کے ساتھ بھی وہی سہولت ہونی چاہیے، کیونکہ فیملی کا مطلب ہے ساتھ سفر، نہ کہ ایک فلائٹ میں بھی والدین الگ اور بچے الگ ہوں۔
جہاں ندا کا مقصد شاید بچوں کو زندگی کی قدر سکھانا ہو، وہاں عوامی رائے یہ کہتی ہے کہ تربیت کا مطلب یہ نہیں کہ سہولت چھینی جائے — خاص طور پر جب وہ سہولت آپ کے پاس موجود ہو۔
ندا یاسر کے اس بیان نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ مشہور شخصیات کو اپنی زندگی کے کون سے پہلو عوامی کرنا چاہییں، اور کن باتوں کو ذاتی رکھنا بہتر ہوتا ہے، تاکہ غلط فہمیاں نہ پھیلیں اور حقیقی پیغام واضح طور پر پہنچ سکے۔