’سٹیج‘: دیہاتوں کا نیٹ فلکس کہلایا جانے والا انڈین سٹارٹ اپ جو نئی فلم انڈسٹری کو جنم دے رہا ہے

بی بی سی اردو  |  Oct 23, 2024

Getty Imagesانڈیا کی 1.4 ارب لوگوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہاتوں میں بستا ہے

انڈیا کی شمال مغربی ریاست ہریانہ کے چھوٹے چھوٹے دیہات، جن کے بارے میں انڈیا کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے، اب فلموں میں نظر آ رہے ہیں۔

صنعتوں کا گڑھ کہلائے جانے والے شہر روہتک کے گرد و نواح میں واقع کسانوں کے گھروں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ یہ گھر کسانوں اور ان کے خاندانوں کو چھت فراہم کرنے علاوہ اب فلموں کے سیٹ کے طور استعمال ہو رہے ہیں۔

ان دیہاتوں میں اب گائے بھینسوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ہدایت کاروں کی ’لائیٹس، کیمرہ، ایکشن‘ کی آوازیں سنائی دینا اب عام سی بات ہو گئی ہے۔

دیہاتوں کی دنیا کو شوبز کا حصہ بنانے کے پیچھے ’سٹیج‘ نامی ایک چھوٹی سی کمپنی کا بھی ہاتھ ہے۔ اور اب اس کمپنی کے کام کی وجہ سے ایک نئی فلم انڈسٹری اُبھر کر سامنے آ رہی ہے۔

’سٹیج‘ کے شریک بانی وِنے سنگھل نے بی بی سی کو بتایا کہ روہتک جیسے شہر میں فی الوقت چھ فلموں پر کام چل رہا ہے۔

’ہمارے آنے سے پہلے شاید انڈیا کی تاریخ میں ہریانوی زبان میں محض ایک درجن فلمیں بنی ہوں گی۔ تاہم 2019 سے لے کر اب تک ہم ہریانوی زبان میں 200 سے زیادہ فلمیں بنا چکے ہیں۔‘

ایک سال قبل ’سٹیج‘ کے بانی وِنے سنگھل اپنے دیگر شریک بانیوں کے ساتھ ریئلٹی شو ’شارک ٹینک انڈیا‘ میں نظر آئے تھے۔

اُن کا سٹارٹ اپ ایسی فلمیں بناتا ہے جو ناصرف دیہاتوں میں فلمائی جائیں بلکہ اُن میں زبان بھی وہی استعمال ہو جو وہاں کے رہائشی بولتے ہیں۔ اُن کا ٹارگٹ غیر مراعت یافتہ علاقوں میں بسنے والے ناظرین ہیں۔

فلموں کا مواد سامعین کے ذوق، ثقافت اور روایات کو مدِنظر رکھ کر تخلیق کیا جاتا ہے۔ اُن میں مقامی زبان اور علاقے کے خاص الفاظ اور تلفظ کا دھیان رکھا جاتا ہے۔

وِنے سنگھل نے بتایا کہ انڈیا میں ساڑھے 19 ہزار کے لگ بھگ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے 18 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد اتنی ہے کہ ان زبانوں کی اپنی الگ الگ فلم انڈسٹری قائم کی جا سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ’سٹیج‘ کی موبائل ایپ پر ہریانوی اور راجستھانی زبان میں مواد موجود ہے۔ ایپ کے 30 لاکھ سبسکرائبرز ہیں جو ایپ استعمال کرنے کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔

’سٹیج‘ ایپ پر عنقریب میتھلی اور کونکنی زبان میں بھی مواد ریلیز کیا جائے گا۔ میتھلی زبان انڈیا کے شمال مشرق میں بولی جاتی ہے جبکہ کونکنی ملک کے مغرب میں واقع ساحلی علاقوں کی زبان ہے۔

وِنے سنگھل نے بتایا کہ ’عنقریب ہمیں امریکہ کے ایک وینچر کیپیٹلسٹ فرم سے سرمایہ ملنے والا ہے جس سے ہم سٹیج کا دائرہ کار بڑھا کر دیگر علاقوں کے رہائشیوں کے لیے بھی فلمیں بنائیں گے۔‘

سٹیج اُن انڈین سٹارٹ اپس میں شامل ہے جو رفتہ رفتہ دیہاتوں میں بسنے والی عوام کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں۔ ان سٹارٹ اپس میں ’ایگرو سٹار‘ (Agrostar) اور ’دیہات‘ (DeHaat) نامی کمپنیاں شامل ہیں۔

انڈیا کی 1.4 ارب کی آبادی کی ایک بڑی تعداد 6 لاکھ 50 ہزار دیہاتوں میں آباد ہیں۔ تاہم ان علاقوں پر اب تک ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس نے کچھ خاص توجہ نہیں دی ہے۔

ایکسل وینچرز سے منسلک آنند ڈینیئل کا کہنا ہے کہ انڈیا ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ ’یہاں سٹارٹ اپس شروع کرنے کے لیے بہترین مواقع ہیں۔ یہاں سے ایسے ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس بھی نکلے ہیں جن کی قدر اب ایک ارب ڈالر ہو گی۔ تاہم ان سٹارٹ اپس نے شہروں میں مقیم رہائشیوں کی ’ٹاپ 10 فیصد‘ عوام کے لیے اپنے پروڈکٹس اور سروسز تخلیق کی ہیں۔‘

ایکسل وینچرز نے انڈیا کی کامیاب ترین سٹارٹ اپس جیسے فلِپ کارٹ، سوئگی اور اربن کمپنی میں سرمایا کاری کی ہے۔

اگرچہ ایک آدھ ٹیکنالوجی سٹارٹ اپ جیسے آن لائن خرید و فروخت کے لیے ’میشو‘ اور کھیتوں میں ٹیکنا لوجی کا استعمال کرنے والی کچھ کمپنیاں موجود ہیں، لیکن زیادہ تر سٹارٹ اپس نے دیہاتوں کو نظر انداز ہی کیا ہے۔

مگر اب یہ رجحان بدل رہا ہے۔ سٹارٹ اپس کے بانی دیہاتوں میں مقیم لوگوں کی دلچسپیاں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انھیں اپنے سٹارٹ اپس کے لیے سرمایہ مل سکے۔

کیا پاکستانی نوجوانوں کے لیے اس وقت سٹارٹ اپ شروع کرنا عقلمندانہ فیصلہ ہو گا؟دنیا کا سب سے قابل قدر ایجوکیشن سٹارٹ اپ بائیجوز زوال پذیر کیسے ہوا؟ورلڈ سٹارٹ اپ کنونشن: انڈیا کا کاروباری میلہ جو پہلے ہی دن سکینڈل کا شکار ہو گیاکینیڈا کا ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ کیا ہے اور اس کے لیے کن شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

’سٹیج‘ کے وِنے سنگھل بتاتے ہیں کہ ’اب سرمایہ کار آپ کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجتے۔ پانچ سال قبل مجھے سٹیج کے لیے کسی نے پیسے نہیں دیے۔ مجھے خود اپنی کمپنی کھڑی کرنی پڑی تھی۔‘

ایکسل وینچرز کے مطابق انھوں نے خود اِن سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری بڑھا دی ہے جو دیہات میں رہنے والے لوگوں کی دلچسپی کو مدِ نظر رکھ کر کام کریں گے۔ حال ہی میں کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ دیہاتوں میں کام کرنے والی سٹارٹ اپس کے لیے ایک پروگرام کے تحت دس لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔

ایکسل وینچرز جیسی ایک اور کمپنی ’یونیکورن انڈیا وینچرز‘ کا کہنا ہے کہ اُن کی 50 فیصد سرمایہ کاری اب ان ہی سٹارٹ اپس میں ہوتی ہے جو ’ٹیئر 2‘ اور ’ٹیئر 3‘ شہروں میں کام کر رہی ہیں۔ ’ٹیئر 2‘ ان شہروں کو کہا جاتا ہے جن کی آبادی 50 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے جبکہ ’ٹیئر 3‘ شہر کی آبادی 20 ہزار سے 50 ہزار کے درمیان ہے۔

رواں سال جولائی میں جاپانی آٹو کمپنی سوزوکی نے انڈیا میں دیہی علاقوں میں کام کرنے والے سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کے لیے 4 کروڑ ڈالرز مالیت کے فنڈ کا اعلان کیا ہے۔

تاہم دیہی علاقوں کے لیے کام کرنے والی سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

ایکسل وینچرز کے آنند ڈینیئل نے بتایا کہ دیہاتوں میں بزنس کے لیے بہت مواقع ہیں جن کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔

’سرمایہ کاروں اور سٹارٹ اپس کے بانیوں کو احساس ہو رہا ہے کہ اگر کوئی دیہات میں رہتا ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ غریب بھی ہو۔‘

ایکسل وینچرز کے مطابق انڈیا کی آبادی کا دو تہائی حصہ دیہاتوں میں آباد ہے جو ہر سال 500 ارب ڈالر تک خرچ کرتے ہیں۔ اس آبادی کا ٹاپ 20 فیصد شہروں میں بسنے والی 50 فیصد آبادی سے زیادہ پیسہ خرچ کرتی ہے۔

ایکسل وینچرز کے آنند ڈینیئل نے کہا ’رواں دہائی میں انڈیا کی جی ڈی پی میں چار کھرب ڈالر کا اضافہ ہو گا۔ اس میں کم از کم پانچ فیصد معاونت ڈیجیٹل انڈسٹری کی جانب سے ہو گی جو کہ ’بھارت‘ یا ہمارے انڈیا کے دیہات سے آئے گا۔‘

یہ کمپنیوں کو 200 ارب ڈالر تک کی کمائی کا موقع فراہم کرے گا۔ اس کی وجہ متوسط دیہی گھرانوں میں سمارٹ فونز کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔

شہروں سے دور رہنے والے تقریباً 45 کروڑ انڈین عوام سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں۔ آبادی کی یہ تعداد امریکہ کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ ڈیجیٹل پیمنٹ کے آسان طریقہ کار کی بدولت اُن تمام کمپنیوں کو فائدہ ہوا ہے جو اپنی مصنوعات کو بڑے شہروں تک محدود رکھنے کے بجائے انھیں چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچانا چاہتی ہیں۔

ڈینیئل کہتے ہیں کہ آج سے پانچ، سات سال قبل اس مارکیٹ تک رسائی کا کوئی سوچتا بھی نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ آج سٹارٹ اپس کے پاس پہلے سے بہت بہتر مواقع ہیں کہ وہ اس مارکیٹ سے فائدہ اٹھا سکیں۔

ایک دہائی قبل تک ممبئی اور بنگلورو جیسے شہر جدت کے مراکز سمجھے جاتے تھے تاہم اب نسبتاً چھوٹے قصبوں سے پہلے سے کہیں زیادہ سٹارٹ اپس سامنے آ رہے ہیں۔

پرائم وینچرز کی رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ وہاں کاروبار کرنے کی کم لاگت، ٹیلنٹ کی دستیابی اور حکومتی اقدامات ہیں جن کا مقصد چھوٹے شہروں میں کاروبار کے رجحان کو بڑھانا ہے۔

ان سٹارٹ اپس کے مالکان کیوںکہ خود بھی ان ہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اس ہی لیے شاید وہ اس مارکیٹ کے بارے میں بہتر طریقے سے جان پائے ہیں۔

تاہم ان دیہی انڈیا تک رسائی اتنی بھی آسان نہیں۔

چھوٹے قصبوں سے تعلق رکھنے والے صارفین کے لیے نہ صرف مصنوعات یا سروس کی قیمت اہمیت رکھتی ہے بلکہ ان کی اکثریٹ دور دراز علاقوں میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔

گوتم ملک فرنٹیئر مارکیٹ نامی سٹارٹ اپ میں چیف ریوینیو افسر ہیں۔ ان کا سٹارٹ اپ پانچ ہزار سے بھی کم آبادی والے دیہاتوں میں سامان کی ڈیلوری کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں انفراسٹرکچر کی حالت کافی خراب ہوتی ہے اور وہاں ڈیلیوری کرنا آسان کام نہیں۔

گوتم کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ جو فارمولا شہر میں کام کرتا ہے وہ دیہاتوں میں بھی کام کرے۔

ان کی کمپنی کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ روایتی ای کامرس کی دیہاتوں میں رے پیمانے پر کیوں کامیا نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے بیشتر صارف کسی ایسے کمپنی پر آسانی سے بھروسہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے جس کی مقامی سظح پر نمائندگی نہ ہو۔

بالآخر مقامی افراد کا بھروسہ حاصل کرنے کے لیے گوتم کی کمپنی کو گاؤں کی خواتین کو اپنا سیلز اور ڈیلیوری ایجنٹ بنانا پڑا۔

گوتم کہتے ہیں کہ دو سو ارب ڈالر کی دیہی انڈیا کی مارکیٹ تک رسائی اور اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے ایسے ہی منفرد اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔

بالی وڈ کے بڑے نام اپنا پیسہ کہاں لگا رہے ہیں؟بالی وڈ کے بڑے نام سٹارٹ اپ سٹارز بننے کی دوڑ میں کیسے شامل ہوئے؟کیا آپ کو نوکری چھوڑ کر سٹارٹ اپ شروع کر دینا چاہیے؟وہ کمپنی جس نے کسٹمر سروس کے 90 فیصد انسانی عملے کو مصنوعی ذہانت سےبدل دیاانڈیا میں مٹی کے تیل پر چلنے والا تھری ڈی پرنٹڈ راکٹ: ’صرف 72 گھنٹوں میں انجن تیار ہو جاتا ہے‘گھر بیٹھے ہزاروں ڈالر کمانے والے پاکستانی فری لانسرز
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More