عمران خان کی اڈیالہ جیل میں ڈاکٹرز سے ملاقات، ’سرکاری ٹیم پر اعتبار نہیں‘: سابق وزیراعظم کی بہن نورین نیازی کی بیرسٹر گوہر پر بھی تنقید

بی بی سی اردو  |  Oct 15, 2024

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ڈاکٹرز کی ٹیم کے ساتھ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ تاہم عمران خان کی بہن نورین نیازی نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان کو سرکاری ڈاکٹرز پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری پیغام میں پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے لکھا ہے کہ ’آج شام تقریباً چار بجے ایک ای این ٹی اور ایک میڈیکل سپیشلسٹ پر مبنی دو ڈاکٹرز کی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ نورین نیازی نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کو ان ڈاکٹرز کا اعتبار ہوگا مگر تحریک انصاف کا کارکن اس صورتحال سے پریشان ہے۔

پی ٹی آئی کے کارکنان سوشل میڈیا پر بیرسٹر گوہر اور رکن قومی اسمبلی عمیر نیازی کی طرف سے عمران خان سے ڈاکٹرز کی ٹیم کی ملاقات پر تنقید کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک کارکن نے لکھا کہ ’آپ خوب جانتے ہیں کہ مطالبہ فیملی، ذاتی معالج اور پارٹی کے وفد کے مطالبے کا تھا۔‘

یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر 15 اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کر اعلان کر رکھا تھا۔

تاہم عمران خان تک رسائی دینے کے حوالے سے ’حکومت کی یقین دہانی پر‘ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاج موخر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تحریکِ انصاف کا مطالبہ رہا ہے کہ عمران خان کی اُن کے وکلا، ڈاکٹرز، اہلِخانہ اور پارٹی قائدین تک رسائی بحال کی جائے۔

بیرسٹر گوہر نے ڈاکٹرز کی ٹیم کی عمران خان سے ملاقات کے حوالے سے اپنے پیغام میں مزید لکھا کہ ’ہمیں کچھ دیر پہلے اطلاع ملی تھی کہ الحمدللہ خان صاحب خیریت سے ہیں اور آج ایک گھنٹہ ورزش کر چکے ہیں۔ ہم جلد ہی ان سے میڈیکل رپورٹس حاصل کریں گے جس کو شیئر کیا جائے گا۔‘

انھوں نے پی ٹی آئی کے ہر کارکن اور سپورٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ آپ سب عمران خان کی صحت کے بارے میں فکر مند تھے۔ خدا آپ سب کو خوش رکھے۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی نے آج اسلام آباد میں ہونے والا اپنا احتجاج موخر کرنے کا فیصلہ حکومت کی جانب سے یقین دہانی کے بعد کیا گیا

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اپنے ایک وڈیو بیان میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے ہم سے باضابطہ رابطہ کر کے یقین دہانی کروائی ہے۔

ویڈیو پیغام میں بیرسٹر گوہر خان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے انھیں یقین دہانی کرائی ہے کہ منگل کو پمز ہسپتال کے ڈاکٹر اڈیالہ جیل جا کر عمران خان کا معائنہ کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت اور سیاسی کمیٹی نے ’متفقہ طور پر اس بات کو قبول کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ایس سی او کا اجلاس ہونے جا رہا ہے اور ’ہمارے اتحادیوں نے احتجاج کی کال موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔‘

اس سے قبل انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت عمران خان کی صحت سے متعلق رپورٹ پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ شیئر کرے گی۔

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو عمران خان کی صحت کے حوالے سے خدشات تھے جس کی بنا پر 15 اکتوبر کو احتجاج کی کال دی گئی تھی۔

EPA

گذشتہ روز احتجاج کی کال واپس لینے کے بعد بیرسٹر گوہر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حکومت عمران خان کی صحت سے متعلق رپورٹ پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ شیئر کرے گی۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو عمران خان کی صحت کے حوالے سے خدشات تھے جس کی بنا پر 15 اکتوبر کو احتجاج کی کال دی گئی تھی۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او کانفرنس) کے روز ڈی چوک پر احتجاج کی کال دی تھی۔ اسلام آباد میں 15 اکتوبر سے شروع ہونے والے ایس سی او اجلاس کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے، ہر طرح کے احتجاج اور ریلیوں پر پابندی عائد ہے اور سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے فوج بھی تعینات کر دی گئی ہے۔

پیر کی شام وزارت داخلہ نے واضح کیا ہے کہ ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر ’کسی احتجاج یا مظاہرے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

وزارت داخلہ کی جانب سے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو بھیجے گئے مراسلے میں کسی بھی ’غیر قانونی اجتماع کی روک تھام کے لیے سکیورٹی اقدامات مزید سخت‘ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

Getty Imagesایس سی او اجلاس کے موقع پر اسلام آباد میں فوج بھی تعینات کر دی گئی ہےپی ٹی آئی کو اسلام آباد میں احتجاج موخر کیوں کرنا پڑا؟

تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے 15 اکتوبر کے احتجاج کا مقصد اسلام آباد میں ایس سی او کانفرنس کو نقصان پہنچانا نہیں تھا بلکہ یہ جاننا تھا کہ آیا عمران خان جیل میں خیریت سے ہیں۔

ایک آڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’دوست ممالک کے سفارتخانوں نے اسد قیصر سمیت پارٹی قیادت سے احتجاج موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف اسلام آباد میں تمام غیر ملکی وفود کو خوش آمدید کہتی ہے اور امید ہے کہ ایس سی او اجلاس کامیاب رہے گا۔

زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی ساکھ متاثر نہ ہو۔ ہم نے ملک اور عمران خان کے مفاد میں یہ احتجاج موخر کیا ہے۔‘

اس سے قبل پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت ’عمران خان کی جان کو خطرے میں ڈال کر‘ اڈیالہ جیل میں ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہی۔

خیال رہے کہ اکتوبر کے اوائل میں حکومت نے سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے 18 اکتوبر تک اڈیالہ جیل میں موجود عمران خان سمیت تمام قیدیوں سے ہر قسم کی ملاقات پر پابندی عائد کی تھی۔

تحریکِ انصاف کا مطالبہ رہا ہے کہ عمران خان کی اُن کے وکلا، ڈاکٹرز، اہلِخانہ اور پارٹی قائدین تک رسائی بحال کی جائے۔

پشتون تحفط موومنٹ: حکومت نے کالعدم تنظیم کو کیوں اور کیسے جرگہ منعقد کرنے کی اجازت دی؟علی امین گنڈاپور کی ’حکمت عملی‘ اور تحریک انصاف کا ڈی چوک احتجاج جو ’پارٹی کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا‘علی امین گنڈا پور: کے پی ہاؤس میں ’پراسرار گمشدگی‘ سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی ’سرپرائز انٹری‘ تکپی ٹی آئی کا راولپنڈی میں احتجاج ختم: ’نو مئی جیسے منصوبے کا موقع نہیں دینا چاہتے‘

سنیچر کے روز پی ٹی آئی کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے لیے وزارتِ داخلہ کو باضابطہ درخواست بھی دی گئی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ آخری مرتبہ پی ٹی آئی کے وکیلوں کی سابق وزیر اعظم سے اڈیالہ میں ملاقات تین اکتوبر کو ہوئی تھی، اور اب پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور حامد رضا کو بانی چیئرمین سے جیل میں ملنے کی اجازت دی جائے۔

یہ درخواست دائر کیے جانے کے بعد پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اور سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے سابق وزیرِ اعظم تک رسائی نہیں دی تو وہ خود احتجاج کی قیادت کریں گے۔

حکومتی وزرا کا دعویٰ تھا کہ اس احتجاج کی کال کا مقصد ’ایس سی او کانفرنس کا سبوتاژ کرنا ہے۔‘

نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک سیاسی جماعت احتجاج کی کال دے کر ایس سی او کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’قومی اہمیت کے ایونٹ کے موقع پر احتجاج مثبت پیغام نہیں۔ پی ٹی آئی کو احتجاج کی کال واپس لینی چاہیے۔‘

جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی ’عمران خان سے سیاسی ملاقات کے لیے سہولت کاری چاہتی ہے۔‘

پیر کو وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایس سی او سربراہی کانفرنس اور سکیورٹی خدشات کے تناظر میں جیل میں تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ کسی ایک قیدی کو ملاقات کی اجازت دینا، دیگر قیدیوں کے ساتھ دہرے معیار اور سلوک کے زمرے میں آئے گا۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے گذشتہ روز وفاقی وزیرداخلہ سے بیرسٹر گوہر کی ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی۔

ترجمان کا کہنا ہے وزیر داخلہ نے درخواست کا جائزہ لینے کی یقین دہانی کروائی تھی، لیکن ملاقات کی اجازت کی یقین دہانی نہیں کروائی گئی تھی۔

’پی ٹی آئی اور حکومت کے ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کے حربے‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور حکومت دونوں ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے احتجاج کے لیے 15 اکتوبر کا انتخاب ’حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا ہے کیوںکہ اسی دن ایس سی او کا اجلاس شروع ہو رہا ہے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو عمران خان کی صحت اور سکیورٹی کے بارے میں خدشات ہیں اور وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں جو کہ ان کا قانونی حق ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ حکومت عمران خان کی اُن کے وکلا سے ملاقات اس لیے نہیں چاہتی کیوںکہ ان کا خیال ہے کہ سابق وزیرِ اعظم اپنے وکلا سے ملاقات کے دوران قانونی معاملات پر بات چیت کی بجائے انھیں سیاسی معاملات پر ہدایات دیتے ہیں۔

حامد میر کے مطابق عمران خان سے اُن کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے آخری ملاقات سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئی تھی۔ حامد میر کا دعویٰ ہے کہ اس ملاقات کے دوران علی ظفر کو عمران خان سے سیاسی معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ جب علی ظفر کو عمران خان سے سیاسی گفتگو کرنے سے روکا گیا تو انھوں نے دلیل دی کہ وہ سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ تاہم حامد میر کے مطابق جیل حکام نے اسے قبول نہیں کیا اور ان کی ملاقات روک دی گئی۔ وہ کہتے ہیں حکومت کا یہ رویہ بھی خلاف قانون ہے۔

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے کیا تحریک انصاف کے بیانیے کو تقویت ملے گی؟عمران خان، فوج اور کنٹینرز: اقتدار کی جاری جنگ کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہے؟اڈیالہ سے آکسفرڈ تک۔۔۔پاکستان کی فوج میں اختلاف رائے کا تاثر: ’ذہن سازی‘ اور پالیسی میں ’تبدیلی‘ کا ٹکراؤ کیسے ہوا؟کیا عمران خان کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے؟جنرل فیض حمید: ولی عہد ہونے کی سزا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More