Getty Images
’ہم سٹار گیٹ پر واقع اپنے سینٹر میں موجود تھے کہ پونے گیارہ بجے کے قریب دھماکے کی آواز سنی گئی جس پر ہم فوری پہلے پرانے ٹرمینل پر گئے جہاں کچھ نہیں تھا اس کے بعد کارگو کی طرف آئے کیونکہ ان مقامات پر عوام کی آمدرفت ہوتی ہے اس کے بعد جب جناح ٹرمینل کے پاس پہنچے تو وہاں لوگوں میں بہت افراتفری تھی جب آگے بڑھے تو دیکھا گاڑیوں سے شعلے بلند ہو رھے تھے۔‘
محمد شفیق فلاحی ادارے ایدھی کے رضاکار ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جو گذشتہ رات کراچی کے جناح انٹرنینشل ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے دھماکے کے بعد پہلے پہنچنے والوں میں شامل ہیں۔
پاکستان کے صوبہ سندھ اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چینی شہریوں کو لے جانے والے قافلے پر ایک حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ 11 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
گذشتہ رات کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے حملے کی ذمہ داری شدت پسند کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔
ایدھی کے رضاکار محمد شفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ گیارہ بج کر دس منٹ پر جائے وقوع پر پہنچے گئے تھے اس وقت گاڑیوں کو آگ لگی ہوئی تھی اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس کو بجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان کے مطابق اس آگ کو بجھانے میں دس سے پندرہ منٹ لگےہوں گے جس کے بعد انھوں نے پہلے مرحلے میں زخمیوں کو نکالا جنھیں جناح ہسپتال اور قریبی نجی ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اس کے بعد جائےوقوع سے تین لاشیں نکالی گئیں جن میں سے دو چینی شہریوں کی تھیں جو ساوتھ سٹی ہسپتال منتقل کی گئیں جبکہ تیسری لاش ایک گاڑی سے آخر میں نکالی گئی جو ٹکڑوں میں تھیں اور ناقابل شناخت تھی۔
Getty Images
پولیس نے ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کیا کہ دھماکے کی نوعیت کیا تھی تاہم سندھ فارنزک یونٹ اور سٹی ٹی ڈی پولیس کی ٹیموں نے جائے وقوع کا دورہ کیا اور وہاں سے شواہد اکٹھا کیے ہیں اور جائے وقوع کو قناتیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز اس حملے کے فوری بعد مقامی میڈیا پر ابتدائی طور پر ایسی خبریں سامنے آئی تھی کہ کسی آئل ٹینکر میں دھماکہ ہوا ہے۔ تاہم جب بی بی سی نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا تو حملے کے مقام پر سڑک کی ابتدا میں دو سفید رنگ کی ڈبل کیبن گاڑیاں موجود تھیں جن پر چھروں کے نشانات موجود تھے جبکہ ایک گاڑی پر سگنل جیمراینٹینا لگا ہوا تھا چند قدم کے فاصلے پر دو رکشہ، دو چھوٹی گاڑیاں، ایک سفید ڈبل کیبن اور ایک گاڑی کا صرف نصف ڈھانچہ موجود تھا تاہم کسی آئل ٹینکر کا نام و نشان نہیں تھا۔
Getty Imagesپولیس نے ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کیا کہ دھماکے کی نوعیت کیا تھی تاہم سیکورٹی اہلکاروں نے جائے وقوع کو قناتیں لگا کر بند کر دیا ہے’دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ ہر چیز ہل کر رہ گئی‘
دھماکے کے مقام سے نصف کلومیٹر فاصلے پر شاہراہ فیصل پر واقع اپارٹمنٹس کے ایک دکاندار ذاکر خان نے بتایا کہ جس وقت دھماکہ ہوا اس وقت بجلی گئی ہوئی تھی اور وہ اپنی دکان کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔
’دھماکے اس قدر شدید تھا کہ ہر چیز ہل کر رہ گئی، پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے کوئی ٹائر پھٹا ہے یا کچھ اور ہوا ہے اس کے بعد آس پاس کی عمارتوں سے بھی لوگ نیچے اتر آئے اس کے بعد خبریں آئیں کہ دھماکہ ہوا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ عام طور پر یہ علاقہ پر امن ہے یہاں سکیورٹی بھی سخت رہتی ہے ایسا واقعہ پہلی بار ہوا ہے۔
واضح رہے کہ جس مقام پر یہ دھماکے ہوا ہے یہاں ایک پولیس چوکی بھی قائم ہے جبکہ کچھ ہی فاصلے پر اے ایس ایف کا سکیورٹی ٹاور ہے۔ ایئرپورٹ کے داخلی راستے سے شاہراہ فیصل جانے کے لیے یہ سڑک استعمال ہوتی ہے جبکہ اس کے بالکل سامنے کی ایک سڑک ملیر کینٹ کی طرف جاتی ہے۔
یاد رہے کہ جناح ایئرپورٹ کا مذکورہ علاقہ ہائی سکیورٹی زون میں شامل ہے، اس سے قبل 2014 میں ایئرپورٹ کے اندر حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے لی تھی اس وقت فورسز اور شدت پسندوں میں چھ گھنٹے مقابلہ ہوا تھا، دس سال کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے جس نے سکیورٹی انتظامات پرسوالاتاٹھائے ہیں۔
Getty Imagesپاکستان میں چینی شہریوں پر حملے: کیا یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے؟چینی انجینیئرز پر حملے کے بعد بیجنگ پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟چینی معیشت اور پانچ سوال: پاکستان سمیت دیگر ممالک میں چین کی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟شانگلہ حملے کے بعد چین کی تحقیقاتی ٹیم کی اسلام آباد آمد: پاکستان سے ’سکیورٹی خطرات کے مکمل خاتمے‘ کو یقینی بنانے کا مطالبہچینی قونصل خانے کی مذمت
پاکستان میں چینی سفارت خانے اور قونصلیٹس جنرل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ چھ اکتوبر کو رات 11 بجے کے قریب پورٹ قاسم اتھارٹی الیکٹرک پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ سے چینی عملے کو لانے والے ایک قافلے پر کیے گئے حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ ایک چینی شہری زخمی ہوا ہے۔
چینی قونصل خانے نے اپنے بیان میں شدت پسند حملے کی مذمت کی ہے اور دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے متاثرہ شہریوں کے اہلِخانہ سے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر اس کے بعد کا لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چینی قونصل خانے نے بتایا ہے کہ ان کی جانب سے فوری طور پر ایک ایمرجنسی پلان لانچ کر دیا گیا ہے اور پاکستانی حکام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس حملے کی جامع تحقیقات کریں اور ملوث افراد کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مختلف منصوبوں میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔
Getty Imagesوزیرِ اعظم شہباز شریف اور دفترِ خارجہ کا ردِ عمل
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انھیں گذشتہ رات کراچی ایئرپورٹ کے قریب قافلے پر ہونے والے حملے میں دو چینی شہریوں کی ہلاکت پر گہرا صدمہ اور دکھ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اس گھناؤنے عمل کی مذمت کرتا ہوں اور چینی رہنماؤں اور باشندوں سے افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بھیانک حملے میں ملوث افراد پاکستانی نہیں ہو سکتے بلکہ یہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس بارے میں فوری تحقیقات جاری ہیں تاکہ ان کی شناخت کرتے ہوئے انھیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جایا۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے چینی دوستوں کی حفاظت کے لیے پرعظم ہے، ہم ان کی سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔
دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پیر کو ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ پاکستان چینی شہریوں پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اورواقعے پر چینی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائی پاکستان اور چین کی پائیدار دوستی پر حملہ ہے، سکیورٹی فورسز دہشت گردوں، سہولت کاروں کو پکڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی، حملے میں ملوث افراد کو ضرور سزا ملے گی۔
ترجمان نے کہا کہ سیکورٹی فورسز دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو پکڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، مجید بریگیڈ سمیت اس بزدلانہ حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔
پاکستان میں چینی باشندوں کو کب کب نشانہ بنایا گیا ہے؟BBC
پاکستان میں چینی باشندوں کی بڑی تعداد چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں میں کام کرنے کے لیے موجود ہے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران ان پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
اس سے قبل، رواں برس مارچ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ کی تحصیل بشام میں چینی انجینیئرز کے قافلے کو داسو ڈیم کی طرف جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں پانچ چینی انجنییئر ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے کے بعد چین کی جانب سے پاکستان پر ملک میں چینی باشندوں کی سکیورٹی یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔
رواں سال جون میں پاکستان میں منعقد ہونے والے ’پاک چین مشاورتی میکانزم‘ نامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر لیو جیان چاؤ نے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو اندرونی استحکام اور بہتر سکیورٹی سے مشروط قرار دیا تھا۔
اس کے فوراً بعد نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ملکی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف فوج پر ڈالنے کی بجائے صوبوں سے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی تھی اور اس اجلاس کے اعلامیے میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس سے قبل جولائی 2021 کے دوران داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سنہ 2018 میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں سات پاکستانی شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ سنہ 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔
حملے کے بعد بی ایل اے کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی اور ایک بیان میں حملہ آور کی شناخت ظاہر کی گئی ہے۔ بیان کے مطابق حملہ آور کی شناخت شاہ فہد عرف آفتاب بتائی گئی ہے۔
بی ایل اے کیسے بنی اور اس کا مجید بریگیڈ کیا ہے؟
اس سال میں بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کی جانب سے متعدد ہلاکت خیز حملے کیے گئے ہیں۔ 26 اگست کو بلوچستان کے علاقے بیلہ میں سکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ کے دروازے پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرانے سے آپریشن ھیروف کا آغاز ہوا تھا جس میں کم از کم 39 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی جبکہ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی کے دوران 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
بلوچستان میں جاری عسکری تحریک پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ اسلم اچھو اور بشیر زیب نے مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی۔
ان کے تربیتی اور اشاعتی مواد کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ سوچ تھی کہ وہ کچھ مزید پیشرفت کریں کیونکہ سب سے خطرناک اقدام یہ ہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہیں پر گھس جائیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران جب بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت یعنی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو بر طرف کیا جا چکا تھا تو مزاحمت شروع ہو چکی تھی۔
سنہ 1975 میں اگست کے مہینے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو ایک دستی بم دھماکے میں مجید لانگو نامی نوجوان ہلاک ہو گیا بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ نوجوان بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
مجید لانگو کا تعلق منگوچر کے علاقے سے تھا اور وہ طالب علمی سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او سے وابستہ تھا۔
مجید لانگو کی ہلاکت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوئی جس کا نام مجید رکھا گیا، جس نے کالعدم بلوچ لبرشین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 2011 میں کوئٹہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ایک مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔
بی ایل اے کا کہنا ہے کہ اسی ہلاکت والے دن اس فدائی گروپ کی تشکیل کا اعلان ہوا اور استاد اسلم نے اس کا نام دونوں بھائیوں کی بہادری کے پیش نظر مجید بریگیڈ رکھا گیا۔
پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے: کیا یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے؟پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینیکیوں نشانہ بن رہے ہیں اور یہ حملے کون کر رہا ہے؟’آپریشن عزم استحکام‘: کیا چین کے سکیورٹی اور اندرونی استحکام کے مطالبے نے پاکستان کو متحرک کیا؟’مزدور عید سے پہلے بے روزگار ہوگئے‘: چینی انجینیئرز پر حملے کے بعد داسو ڈیم سیمت دیگر منصوبوں پر کام بندکراچی یونیورسٹی: حملہ آور کون تھیں اور پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کی تاریخ کیا ہے؟چینی انجینیئرز پر حملے کے بعد بیجنگ پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟’چار لاشیں مکمل جل چکی تھیں‘: بشام میں چینی انجینیئرز پر خودکش حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا