وفاقی حکومت کا چھ نہروں کی تعمیر کا منصوبہ کیا ہے اور اس میں صرف چولستان وجہ تنازع کیوں ہے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 22, 2025

Getty Images'پاکستان گرین انیشی ایٹیو' منصوبے کے تحت سندھ میں تھر اور رینی کینالز، پنجاب میں چولستان اور گریٹر تھل کینالز، بلوچستان میں کچھی کینال اور خیبر پختونخوا میں چشمہ رائٹ بینک کینال تعمیر کی جانی ہیں۔

وفاقی حکومت کے گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کے اعلان کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر پانی کی تقیسم پر صوبوں میں اختلافات ایک بار پھر سامنے آ رہے ہیں۔

ان اعتراضات کی وجہ وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دینے اور کامیاب بنانے کے لیے چھ نہروں کے منصوبے کا اعلان ہے۔

وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی بھی اس بارے میں کھل کر بات کر رہی ہے۔

وفاقی حکومت نے نہروں کی تعمیر کے اس منصوبے کو 'چھ سٹریٹجک کینال' منصوبے کا نام دیا ہے۔

واضح رہے کہ اس نہری منصوبے کے خلاف سب سے زیادہ آواز صوبہ سندھ سے اٹھائی جا رہی ہے اور کسانوں، قوم پرست و مذہبی جماعتوں اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز کی جانب سے گذشتہ کئی ماہ سے حکومت کے اس منصوبے کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

18 اپریل کو حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا کہ 'وفاقی حکومت فوری طور پر یہ متنازع منصوبہ واپس لے ورنہ پیپلزپارٹی اس کے ساتھ نہیں چلے سکے گی جبکہ یہ ایشو وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔'

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ متنازع کینال منصوبہ ایک ایسا ایشو ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کو مسئلے میں ڈال سکتا ہے۔

جس کے بعد وفاقی حکومت اور سندھ حکومت نے پانی کی تقسیم اور اس متنازعے منصوبے کے معاملے کو سیاسی افہام تفہیم سے حل کرنے پر اتفاق تو کیا ہے مگر ابھی تک کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔

تاہم سیاسی بحث سے بالاتر ہو کر ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ چھ نہروں کا منصوبہ ہے کیا اور اس میں سب زیادہ شور چولستان میں بنائی جانے والی چولستان کینال پر ہی کیوں اٹھ رہا ہے اور وہ سندھ کے حصے کے پانی پر کیسے اثر انداز ہو گی؟

’چھ سٹریٹجک کینال‘ کا حکومتی منصوبہ کیا ہے؟

وفاقی حکومت کے چھ سٹرٹیجک کینال کے منصوبے کی ضرورت پاکستان گرین انیشیٹو کے تحت ملک میں شعبہ زراعت کو فروغ دینے کے لیے پیش آئی۔

وفاقی حکومت'پاکستان گرین انیشیٹیو' کے تحت ملک بھر میں 40 لاکھ ایکڑ کی غیر آباد زمین کو آباد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وفاقی حکومت یہ زمین صوبوں سے حاصل کر رہی ہے جہاں کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ان زمینوں کو قابل کاشت بنا کر اجناس کی ملکی ضروریات کو پورا کرنے اور جدید زراعت کے طریقے اپنا کر کسانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

'پاکستان گرین انیشیٹیو' منصوبے کے زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے چاروں صوبوں میں نئی نہروں کو تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جن میں سندھ میں تھر اور رینی کینالز، پنجاب میں چولستان اور گریٹر تھل کینالز، بلوچستان میں کچھی کینال اور خیبر پختونخوا میں چشمہ رائٹ بینک کینال تعمیر کی جانی ہیں۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت کے اس کینال منصوبے کی باقاعدہ منظوری نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے دور میں فروری 2024 میں نیشنل اکنامک کونسل نے دی تھی جو کہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری سے مشروط کی گئی تھی۔ تاہم اس کے بعد ابھی تک مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں ہوسکا ہے۔

اس منصوبےمیں ایک اہم علاقہ چولستان کا ہے جسے گرین انیشی ایٹیو کے تحت زراعت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت گریٹر تھل کینال، موجودہ تھل کینال کی ری ماڈلنگ، جلال پور کینال اور گریٹر چولستان کینال بنائی جا رہی ہیں۔

BBCہم ان نہروں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے آبی وسائل معین وٹو نے چھ نئی نہروں سے متعلق تحریری تفصیلات پیش کیں۔

بی بی سی کو حاصل ان سرکاری دستاویزات اور وفاقی وزیر کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بیان کی گئی تفصیلات کے مطابق اس منصوبے کے تحت پنجاب کے لیے لیسر چولستان نہر کے منصوبے کے لیے ارسا نے جنوری 2024 میں این او سی جاری کیا تھا۔

یہ منصوبہ حکومت پنجاب کی مالی معاونت سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ یہ نہر ستلج سے نکالی جانی ہے۔ اس کینال سے بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع میں چولستان کے علاقے کو سیراب کیا جائے گا۔

چولستان منصوبے کی کل لاگت 225 ارب 34 کروڑ روپے ہے جسے سی ڈی ڈبلیو پی نے ایکنک کو بھجوا دیا ہے۔

وفاقی وزیر آبی وسائل معین وٹو نے قومی اسمبلی میں اس منصوبے کے متعلق مزید بتایا کہ حکومت سندھ نے 15 نومبر 2024 کو ارسا کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے کی سمری ارسال کی جب کہ تھر کینال منصوبے کے لیے ارسا سے این او سی کی باضابطہ درخواست نہیں دی گئی۔

ان کے مطابق واپڈا نے اس منصوبے کے لیے 212 ارب روپے کا پی سی ون جمع کرایا ہے، منصوبہ فی الحال غیر منظور شدہ ہے۔

معین وٹو کے مطابق گریٹر تھل کینال کے لیے ارسا نے مئی 2008 میں پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا، اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 10 ارب 17 کروڑ روپے کی لاگت سے 2010 میں مکمل ہو چکا ہے اور اسے پنجاب کے حوالے بھی کیا جا چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'دوسرے مرحلے کی منظوری ایکنک نے 2024 میں سی سی آئی سے مشروط کر کے دی ہے۔'

ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟مارگلہ کے دو دیہات کی زمین پاکستانی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے مطلوب: ’حکومت ہم پر رحم کرے، ہمیں بےگھر نہ کرے‘’گرین پاکستان‘ منصوبہ کیا ہے اور اس میں فوج کو اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟جنگی مشق یا ’بارش سے متاثرہ فصل خشک کرنے کی کوشش‘: سوشل میڈیا پر فوجی ہیلی کاپٹروں کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟

انھوں نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ تھل کینال جراح بیراج سے نکلتی ہے اور پھر یہ بھکر اور لیہ کو سیراب کرتی ہے۔ تیسرے فیز میں یہ کوٹ ادو تک پہنچے گی۔

وفاقی وزیر کے جواب کے مطابق برساتی نہر منصوبے کے لیے ارسا نے ستمبر 2002 میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ فیز ون 17 ارب 88 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا اور اسے حکومت سندھ کے حوالے کر دیا گیا۔

واپڈا نے رینی کینال تعمیر کر کے اسے جنوری 2022 میں حکومت سندھ کے حوالے کیا ہے۔ 5,000 کیوسک سے زیادہ کی گنجائش والی اس نہر کو ضلع گھوٹکی میں 0.4 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لیے شروع کیے گئے نہری منصوبے کا این او سی ارسا نے اکتوبر 2003 میں جاری کیا تھا، اس کا فیز ون 2017 میں مکمل ہو چکا۔ ان کے مطابق اس منصوبے کے فیز ٹو کے لیے 70 ارب روپے کا پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے جس کی منظوری کا انتظار ہے۔

معین وٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کے لیے چشمہ رائٹ بینک کینال کو ارسا نے اپریل 2004 میں این او سی دیا جبکہ ایکنک نے 2022 میں 189 ارب 61 کروڑ روپے کا پی سی ون منظور کیا۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ فی الحال ایوارڈ کے عمل سے گزر رہا ہے۔

اس منصوبے پر سندھ اور وفاق میں تنازعہ کیوں؟BBC

اس تنازعے کی شروعات گذشتہ برس آٹھ جولائی کو ہوئی تھی جب اس کینال منصوبے سے متعلق صدر مملکت آصف علی زرداری کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا جس میں اس منصوبے پر بریفنگ دی گئی۔

تاہم رواں برس مارچ میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں اور وہ بطور صدر دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کے یک طرفہ حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کر سکتے۔

آبی ماہر نصیر میمن کے مطابق حکومت کی طرف سے دیے گئے منصوبے میں چوبارہ کینال کی تعمیر، کچھی کینال، رینی کینال، تھر کینال، چشمہ رائٹ بینک کینال اور چولستان فلڈ فیڈر کینال شامل ہیں۔ ان کے مطابق ان نہروں کا کل کمانڈ ایریا 3.58 ملین ایکڑ بنتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گریٹر چولستان کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے لیے چناب پر تین ریزروائرز، ستلج پر دو بیراج اور فیڈر کینال کی تعمیر شامل ہے۔

نصیر میمن کا کہنا ہے کہ چوبارہ کینال گریٹر تھل کینال کی ایک برانچ کینال ہے، جس پر سندھ شروع سے اعتراض کرتا آ رہا ہے۔

ان کے مطابق ارسا نے سات مئی 2002 کو اس منصوبے کی منظوری دی تھی جبکہ سندھ اور ارسا کے وفاق سے ممبران نے اس کی مخالفت کی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ سندھ اسمبلی نے 2003 میں اس منصوبے کے خلاف دو متفقہ قراردادیں منظور کی تھیں۔ بعد ازاں اسمبلی نے نومبر 2021 میں چوبارہ کینال کو ختم کرنے کی قرارداد بھی منظور کی۔

ان کے مطابق سندھ کے اختلافات کے باوجود ایکنک نے 16 مارچ 2022 کو اس منصوبے کی منظوری دے دی۔ سندھ اب اس معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں زیر بحث لانا چاہتا ہے۔

نصیر میمن کے مطابق نئی نہروں کے منصوبے کے تحت تھر کینال کو رینی کینال سے نکالا جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ جلالپور نہر پر بھی سندھ کو اعتراض ہے مگر یہ ان چھ نہروں کا حصہ نہیں ہے جس پر ابھی تنازع چل رہا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر رخسانہ زبیری نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک تکنیکی نوعیت کا معاملہ ہے اور اس پر ان کی جماعت اس پہلو سے ہی اس پر آواز بلند کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہریں پہلی ہی سوکھی ہوئی ہیں۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ اوپر سے پانی نہیں آ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ کی 77 فیصد زرعی زمین نہری پانی سے سیراب ہوتی ہے جبکہ یہاں کاشتکاروں کی اکثریت چھوٹے کسانوں پر مشتمل ہے جن کے پاس اوسط بارہ ایکڑ تک زمین ہے۔

ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق چولستان کینال کے منصوبے کی مکمل تفصیلات شیئر نہیں کی جا رہی ہیں اور یہ منصوبہ کہیں زیادہ بڑا ہے جس میں آگے چل کر مزید نہریں، بیراج اور ڈیم بھی تعمیر کیے جائیں گے۔

ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق یہ منصوبہ بظاہر پنجاب کا ہے مگر اس سے پنجاب کا کسان ہی نہیں بلکہ سندھ بھی متاثر ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جس بھی دریا پر کینال بنے آخر میں اس کا اثر سندھ طاس پر ہی پڑتا ہے۔

ارسا کے ترجمان خالد رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ'ارسا نے منصوبے کی تفصیلات کے بجائے صرف پانی کا حصہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کسی صوبے کا حق متاثر تو نہیں ہو رہا ہے۔'

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 'چولستان کینال کے منصوبے کے لیے پنجاب نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس کے لیے پانی دے گا اور اس کے لیے سندھ کے حصے کا پانی نہیں لیا جائے گا۔'

تحقیقاتی ادارے ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر شفقت منیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا چھ میں سے پانچ کینال تو پہلے ہی بن چکی ہیں اور اب جو تنازع ہے وہ چولستان کینال پر ہے جو صحرا میں بننی ہے۔ اس منصوبے کے مطابق مروٹ کے مقام پر بننے والے نہر سے پانی ستلج اور ہیڈ سلمانکی سے لیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ سیاسی سے زیادہ تنکیکی معاملہ ہے۔ 'جب تک سیاسی درجہ حرارت کم نہیں ہوگا اس پر آگے بڑھنا مشکل ہوگا اور سیاسی درجہ حرارت تب کم ہوگا جب مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوگا۔'

ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟مارگلہ کے دو دیہات کی زمین پاکستانی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے مطلوب: ’حکومت ہم پر رحم کرے، ہمیں بےگھر نہ کرے‘’گرین پاکستان‘ منصوبہ کیا ہے اور اس میں فوج کو اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟جنگی مشق یا ’بارش سے متاثرہ فصل خشک کرنے کی کوشش‘: سوشل میڈیا پر فوجی ہیلی کاپٹروں کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟سونے کے ذخائر، قیمتی پتھر اور دھاتیں: پاکستان میں ’کھربوں ڈالرز‘ کی معدنیات کہاں پائی جاتی ہیں اور ان سے فائدہ حاصل کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟سعودی عرب کو پاکستان جیسی کمزور معیشت میں سرمایہ کاری سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More