اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار حمید شاہ کون تھے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 07, 2024

’حمید شاہ کا بچپن بہت مشکل اور تکالیف میں گزرا تھا۔ اُن کے والد فالج کے مریض تھے اور گھر میں غربت تھی۔ ایبٹ آباد میں اپنی آبائی علاقے تھاتھی سیداں شیروان سے وہ کئی کلومیٹر پیدل سفر کر کے سکول جایا کرتے تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد جب اسلام آباد پولیس میں نوکریاں آئیں تو انھوں نے تیاریشروع کی اور خوش قسمتی سے پولیس میںبھرتی ہو گئے۔‘

بی بی سی کو یہ تفصیلات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار حمید شاہ کے کزن فیصل نے بتائیں۔

اسلام آباد پولیس کے اہلکار حمیدشاہ کی ہلاکت کے حوالے سے اسلام آباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ روز کے احتجاج کے دوران وہ مظاہرین کے ہاتھوں یرغمال بنے اور بعدازاں مبینہ تشدد سے شدید زخمی ہوئے جس کے بعد مقامی ہسپتال میں ان کی ہلاکت ہوئی۔ تاہم تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہییں کیونکہ تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران مظاہرین کی جانب سے کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے مطابق ’حمید شاہ کی ڈیوٹی 26 نمبر چونگی پر تھی، جہاں سے انھیں مبینہ طور پر مظاہرین نے اغوا کیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انھیں شدید زخمی حالت میں قریب واقع درختوں میں پھینک دیا گیا۔‘

پولیس کا دعویٰ ہے کہ بعدازاں پولیس اہلکاروں نے انھیں تلاش کر کے ہسپتال پہنچایا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔

حمید شاہ کے بیٹے نعمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وقوعہ سے پہلے میری اُن سے بات ہوئی تو میں نے گزارش کی تھی کہ احتیاط کریں اور اپنا خیال رکھیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس کے بعد میری کوئی بات نہیں ہوئی۔ بعد میں اُن کی بہن کے ساتھ بھی بات ہوئی تھی۔ بہن کو انھوں نے کہا کہ وہ سائیڈ پر ہیں۔ اب یہ پولیس ہی بتائے گئی کہ اُن کے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘

نعمان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اپنے والد کے لیے انصاف چاہیے۔ وہ ایک ایماندار اور فرض شناس پولیس اہلکار تھے۔ انھوں نے ساری زندگی کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا تھا اور ہمیشہ اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کیے تھے۔‘

دوسری جانب تحریک انصاف اسلام آباد کے رہنما عامر مغل کا دعویٰ ہے کہ ’تحریک انصاف کی جانب سے کوئی تشدد نہیں ہوا بلکہ پُرامن مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

بی بی سی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس اہلکار کی ہلاکت پر انھیں بہت افسوس ہے اور اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہییں۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ یہ اہلکار پولیس کی اپنی ہی شیلنگ کا نشانہ بنے ہیں۔‘

علی امین گنڈاپور اسلام آباد پہنچنے کے بعد کہاں گئے؟’25 مئی کا بدلہ‘: کیا پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد پولیس افسران کا ’احتساب‘ کرے گی؟’آپ ہمارے بھائی ہیں‘: پی ٹی آئی کے مظاہرین کا پیغام، اسلام آباد میں تعینات فوجی دستوں کے پاس کیا اختیارات ہیں؟’تین دن پہلے یہاں پہنچے، پتا نہیں کب واپسی ہو گی‘: بی بی سی کی ٹیم نے پی ٹی آئی احتجاج کے دوران اسلام آباد میں کیا دیکھا؟’آج اسلام آباد نے اپنا بیٹا کھو دیا‘

اتوار کی شام وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سید علی ناصر رضوی نے کہا کہ ’آج کا دن اسلام آباد پولیس کے لیے بہت غمگین دن ہے۔ شہر میں صف ماتم ہے۔ آج اسلام آباد نے اپنا بیٹا کھو دیا ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ حمید شاہ امن و امان قائم کرنے اور شہریوں کی حفاظت کے لیے کام کر رہے تھے۔

سید علی ناصر رضوی نے دعویٰ کیا کہ ’حمید شاہ مسلح جھتے اور ڈاکووں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ پہلے اُن پر پتھراؤ کر کے زخمی کیا گیا، پھر تشدد کیا گیا اور اُن سے بے رحمانہ سلوک کیا گیا۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’شہید اہلکار کے لواحقین اور اُن کے بچے انصاف کا سوال کر رہے ہیں اور ہم اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ اہلکار کو شہید کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی اور سو فیصد ہو گی۔ اس واقعہ میں ملوث کسی فرد کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا اور انھیں انصاف کے کہڑے میں کھڑا کیا جائے گا۔‘

آئی جی اسلام آباد کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ احتجاج نہیں بلکہ حملہ تھا۔ مظاہرین نے پولیس پر زہریلی گیس پھینکی اور شلینگ کی۔ خیبر پختونخوا ہاؤس سے براہ راست پولیس پر فائرنگ ہوئی۔‘

یاد رہے کہ تحریک انصاف کے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران لگ بھگ 878 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ شہر کے آٹھ مختلف تھانوں میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درجنوں افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ آئی جی اسلام آباد کے مطابق ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کے قتل کے مقدمے میں تحریک انصاف کی قیادت اور موقع سے گرفتار کیے جانے والے مظاہرین کو نامزد کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ’حمید شاہ چار اور پانچ تاریخ کی درمیانی رات کو ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے ہتھے چڑھے تھے جنھوں انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد 26 نمبر چونگی کے قریب ہی گھنے درختوں میں پھینک دیا تھا۔

ترجمان کے مطابق ’ہسپتال پہنچائے جانے کے بعد اُنھیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے اور ان کیابتدائی میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی موت سینے پر لگنے والی چوٹوںسےہوئی ہے۔‘

’نانا حمید شاہ کو مسافر شاہ کہتے تھے‘

حمید شاہ کے ایک بھانجے نوید کاظمی کراچی میں رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’واقعے سے چھ، سات گھنٹے قبل ان کے ماموں نے انھیں کال کی تھی۔ وہ میری والدہ سے بات کرنا چاہتے تھے مگر میری والدہ میری خالہ کی خیریت معلوم کرنے کے لیے اُن کے گھر گئی ہوئی تھیں۔‘

نوید کا کہنا تھا کہ اس موقع پر انھوں نے مجھے کہا کہ ’حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ 26 نمبر پر ڈیوٹی دے رہے ہیں جہاں پر مختلف ٹولیاں پولیس پر پتھراؤ وغیرہ کر رہی ہیں۔ وہ بہت مسلح اور تربیت یافتہ ہیں اور ہم سب پولیس اہلکار مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح حالات کو معمول پر لے آئیں۔‘

فرہاد بھی حمید شاہ کے بھانجے ہیں اور وہ بھیکراچی میں رہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے میری والدہ یعنی اپنی بہن کی طبعیت معلوم کی اور مجھے نصیحت کی کہ میں اپنی والدہ کا بہت خیال کروں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’وہ کہہ رہے تھے کہ اُن کا دل چاہتا ہے کہ وہ کراچی کا چکر لگا کر اپنی بہن کی عیادت کر لیں مگر حالات ایسے نہیں ہیں کہ جن میں چھٹی مل سکے۔‘

فرہاد کا کہنا تھا کہ ’میرے ماموں بہت سادہ طبعیت کے مالک تھے۔ انھوں نے ساری زندگی سفید پوشی میں گزاری ہے۔ ہمیں ہماری والدہ نے بتایا کہ وہ بچپن ہی سے بہت شریف طبع تھے جس وجہ سے اُن کے والد یعنی میرے نانا اُن کو مسافر شاہ کہا کرتے تھے۔‘

’والدہ کہتی ہیں کہ میرے نانا نے ماموں کو کبھی بھی ان کے نام سے نہیں پکارا بلکہ ہمیشہ مسافر شاہ ہی کہا کرتے تھے۔‘

’ریٹائرمنٹ کے بعد کے لیے ملازمت تلاش کر رہے تھے‘

اسلام آباد پولیس کے مطابق حمید شاہ اسلام آباد پولیس کے شعبہ تفتیش سے منسلک تھے۔

وہ سنہ 1988میں اسلام آباد پولیس میں بھرتی ہوئے تھے اور اُن کی ریٹائرمنٹ میں صرف تین ماہ باقی تھے۔

فیصل بتاتے ہیں کہ ’پولیس کی طویل ملازمت کے بعد اب وہ ریٹائرمنٹ کے قریب تھے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے لیے انھوں نے مختلف منصوبے سوچ رکھے تھے مگر کچھ بھی فائنل نہیں تھا۔‘

’کبھی کہتے تھے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پینشن سے کوئی کاروبار کر لوں، پھر سوچتے تھے کہ کوئی تجربہ نہیں ہے کاروبار کیسے کروں گا۔۔۔ پھر کہتے کہ کوئی ملازمت تلاش کر لوں گا۔‘

فیصل کا کہنا تھا کہ ’ان کا ذہن بن گیا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی ملازمت تلاش کرنی ہے اور اس کے لیے انھوں نے مختلف لوگوں سے بھی کہہ رکھا تھا تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ فارغ نہ رہیں اور روزگار بھی مل جائے۔‘

فیصل کا کہنا تھا کہ پولیس میں ملازمت کے بعد وہ کچھ عرصہ تک تو گاؤں ہی میں رہے تھے مگر جب اُن کے بچے بڑے ہوئے تو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وہ راولپنڈی کے علاقے جھنگی سیداں میں رہائش پذیر ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حمید شاہ نے سوگواروں میں تین بچے اور بیوہ کو چھوڑا ہیں۔ ان کا ایک بیٹا طالب علم ہے جبکہ بیٹی اور بیٹا شادی شدہ ہیں۔

’گاؤں والوں کو شہر میں کوئی کام ہوتا تو کہتے شاہ جی ہیں نہ‘

فیاض شاہ ’تھاتھی سیدان شیروان‘ کے سماجی کارکن ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’عبدالحمید کے والد مقامی زمیندار تھے۔ اُن کی اپنے گاؤں میں تھوڑی بہت زمین تھی۔ علاقے میں زمینداری کے علاوہ محنت مزدوری بھی کرتے تھے۔ جب انھیں فالج ہوا تو پھر مشکلات ہوئیں اس موقع پر عبدالحمید شاہ کے چچا اور ان کے چچا زاد بھائیوں نے مدد کی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عبدالحمید شاہ نے محنت سے تعلیم حاصل کی اور میٹرک کیا تو پولیس میں چلے گئے جبکہ ان کا ایک بھائی کراچی چلا گیا۔ عبدالحمید شاہ نے پولیس کی ملازمت کے بعد اپنی بہنوں کی شادیاں کیں اور بھائی کو بھی سیٹ کیا تھا۔‘

فیاض شاہ کا کہنا تھا کہ ’عبدالحمید کا صرف کسی شادی بیاہ یا کسی ماتم کے موقع ہی پر گاؤں میں آنا ہوتا تھا۔ مگر ہمارے گاؤں کے لوگوں کو جب اسلام آباد یا راولپنڈی میں کوئی کام ہوتا تو ہر کوئی کہتا کہ شاہ جی ہے نہ، وہ مدد کر دیں گے۔ اور عبدالحمید شاہ ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ لوگوں کے مختلفکام کروا دیتے تھے۔‘

’25 مئی کا بدلہ‘: کیا پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد پولیس افسران کا ’احتساب‘ کرے گی؟’آپ ہمارے بھائی ہیں‘: پی ٹی آئی کے مظاہرین کا پیغام، اسلام آباد میں تعینات فوجی دستوں کے پاس کیا اختیارات ہیں؟’تین دن پہلے یہاں پہنچے، پتا نہیں کب واپسی ہو گی‘: بی بی سی کی ٹیم نے پی ٹی آئی احتجاج کے دوران اسلام آباد میں کیا دیکھا؟پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں احتجاج کے مقاصد کیا ہیں اور اس کی ٹائمنگ کیوں اہم ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More