جے شنکر کا دورہ اسلام آباد: ’جمود توڑنے کا موقع لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Oct 06, 2024

Getty Imagesانڈین وزیر خارجہ جے شنکر

انڈیا کی وزارت خارجہ نے جمعے کی شام جب اچانک یہ اعلان کیا کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر پاکستان میں اس مہینے کے وسط میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جائیں گے تو یہ انڈیا کے صحافتی حلقوں کے لیے بھی حیرت کا باعث تھا۔ سنیچر کے بیشتر اخبارات میں یہ پہلی یا دوسری سب سے اہم خبر رہی۔

سنیچر کو ایک بیان میں جے شینکر نے کہا کہ ’میں وہاں انڈیا-پاکستان تعلقات پر بات چیت کرنے نہیں جا رہا۔ میں وہاں ایس سی او کے اچھے رکن کے طور پر جا رہا ہوں۔‘

اس سے بھی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک نیوز کانفرنس میں وزیر خارجہ کے دورے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ’ایس جے شنکر ایس سی او کی میٹنگ میں شرکت کے لیے اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ وہ انڈین وفد کی قیادت کریں گے۔‘

جب ان سے پو چھا گیا کہ کیا اس دورے کو انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے آثار کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تو ان کا جواب تھا کہ ’یہ دورہ ایس سی او کی میٹنگ کے لیے ہو رہا ہے۔ اس دورے سے اس سے زیادہ مطلب نکالنا ٹھیک نہیں ہے۔‘

گذشتہ تقریباً ایک عشرے میں یہ کسی انڈین وزیر خارجہ کا پہلا دورہ پاکستان ہو گا۔ اس سے پہلے 2015 میں اُس وقت کی وزیر خارجہ سشما سوراج ’ہارٹ آف ایشا‘ کی وزارتی میٹنگ میں شرکت کے لیے اسلام آباد گئی تھیں۔ انھوں نے اُس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ سرتاج ‏عزیز اور وزیر اعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کی تھی۔

سشما سوراج کے اس دورے کے کچھ ہی دنوں بعد انڈیا کے وزیر اعظم نے روس کے دورے سے واپسی پر افغانستان کے راستے انڈیا آتے ہوئے اچانک لاہور کا دورہ کیا تھا جہاں وزیرا‏عظم نواز شریف سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ اُس وقت تک تعلقات بہتری کی طرف بڑھ رہے تھے۔

اس کے بعد 2016 میں اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سارک کی میٹنگ کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ لیکن پٹھان کوٹ کے فضائی اڈے پر حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑتے گئے۔ 2019 میں جب انڈیا نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تو پھر سرد مہری چھا گئی۔

انڈیا کی بی جے پی حکومت نے پاکستان کے خلاف انتہائی سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔

تجزیہ کار نروپما سبھرامنین کے مطابق ’مودی حکومت نے پاکستان کے گرد ایک ایسا بیانیہ تخلیق کیا ہے کہ لوگ اب یہ ماننے لگے ہیں کہ پاکستان سے تعلقات کبھی اچھے نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اس کے بارے میں سوچنا ہی بیکار ہے۔‘

Getty Imagesانڈیا کی بی جے پی حکومت نے پاکستان کے خلاف انتہائی سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔کیا تعلقات میں بہتری کے امکان ہیں؟

اس پس منظر میں انڈیا میں جے شنکر کے مجوزہ اسلام آباد کے دورے کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ حکومتی موقف کے حامی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے اس دورے سے انڈیا پاکستان تعلقات کے ضمن میں کسی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

حکومت حامی تھنک ٹینک ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کے خارجی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر ہرش وردھن پنت جے شنکر کے مجوزہ دورے کو اہم نہیں مانتے۔

بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’میرے خیال میں اس وقت ایسی کوئی حوصلہ افزا صورتحال نہیں ہے اور دوسرا پاکستان کی اندورنی صورتحال بھی غیر مستحکم ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی قیادت سے براہ کوئی بات ہوسکتی ہے، یہ قرین قیاس نہیں لگتا۔‘

نینیما باسو خارجی امور کی تجزیہ کار ہیں۔ وہ ڈاکٹر ہرش وردھنسے متفق دکھائی نہیں دیتی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’جے شنکر کا یہ دورہ مجھے بہت زیادہ اہم لگتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ انڈیا نے پاکستان سے سارے ڈائیلاگ بند کر رکھے ہیں۔ انڈیا پاکستان میں کسی میٹنگ میں شریک نہیں ہو رہا ہے، اسی وجہ سے سارک کا عمل بھی رکا ہوا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’2017 میں جب انڈیا اور پاکستان کو ایس سی او کی رکنیت دی گئی تھی تو اس وقت ان دوںوں کو یہ بتا دیا گیا تھا وہ اپنے باہمی تنازعات اس گروپ سے باہر رکھیں اور ان کے اختلافات سے ایس سی او میٹنگ نہیں بند ہوںی چاہئیے۔ اسی کو مد نظر رکھ کر انڈیا نے اس میٹنگ میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔

’ساتھ ہی انڈیا کے پڑوس میں ہر جگہ انڈیا کے لیے حالات مشکل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ممکن ہے انڈیا نے سوچا ہو کہ پاکستان کی طرف ہی کوئی پہل کی جائے۔‘

پڑوس میں بدلتی حکومتیں جو انڈیا کی خارجہ پالیسی کے لیے چیلنجز پیدا کر رہی ہیںجب شاہ ایران نے 1971 میں ’کراچی کے دفاع‘ کا وعدہ پورا نہ کیاسندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئیابابیل اور شاہین تھری: کیا امریکی پابندیاں پاکستان کےمیزائل پروگرام کو متاثر کر سکتی ہیں؟

نینیما کہتی ہیں کہ ’یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ نو برس بعد ہو رہا ہے۔ موجودہ جمود میں یہ اپنے آپ میں ہی ایک اہم قدم ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کوئی براہ راست بہت چیت ہو پائے گی یا نہیں لیکن مواقع ضرور آئیں گے اور پاکستان بھی اس سلسلے میں پہل کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

’یہاں کئی اہم ریاستوں میں انتخاب ہونے والے ہیں۔ برسوں سے پاکستان مخلاف سخت موقف اختیار کرنے کے بعد مودی حکومت اچانک اپنے حامیوں کو یہ پیغام نہیں دینا چاہے گی کہ وہ اب نرم پڑ رہی ہے۔ لیکن یہ دورہ اس جمود کو توڑنے کا ایک راستہ ضرور کھولے گا۔‘

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس نیوز کانفرنس میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے جے شنکر کے دورے کا اعلان کیا اسی میں انھوں نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے متنازع اسلامی سکالر ذاکر نائیک کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ’ان کے پاکستان کے دورے پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ دورہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔‘

امریکی کے تحقیقی ادارے ولسن سنٹرکے تجزیہ کار مائکل کوگلمین نے 'ایکس' پر اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ اتنے برسوں کے توقف کے بعد انڈیا کے وزیر خارجہ کا دورہ اہمیت کا حامل ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’اگرچہ ان کا یہ دورہ باہمی سے زیادہ ایس سی او کی سرگرمیوں پر مرکوز ہو گا لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات کے ضمن میں اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

Getty Imagesدسمبر 2015 میں انڈیا کے وزیر اعظم نے روس کے دورے سے واپسی پر اچانک لاہور کا دورہ کیا تھاجے شنکر کا دورہ اسلام آباد اور ایس سی او کانفرنس کیوں اہم ہے؟

نیروپما سبھرامنین بھی جے شنکر کے اسلام آباد کے مجوزہ دورے کو اہم قرار دیتی ہیں۔ بی بی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ دورہ مثبت ہے۔ یہ ایس سی او کے تئیں انڈیا کے کمٹمنٹ کا عکاس ہے۔ جس طرح کشیدہ تعلقات اور پاکستان میں شدید مخالفت کے باوجود اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری 2023 میں ایس سی او کی وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے گوا آئے تھے اسی طرح جے شنکر کا اسلام آباد کا یہ دورہ ہو گا۔ اس میں ساری توجہ ایس سی او پر مرکوز ہو گی۔‘

نیروپما مزید کہتی ہیں ’ایس سی او میں شرکت کے ذریعے انڈیا بین الاقوامی برادری کواپنی اس پوزیشن کا بھی اشارہ کرے گا کہ وہ یوکرین کی جنگ کے پس منظر میں غیر جانبدار ہے۔ وہ کواڈ میں امریکہ کے ساتھ ہے تو ایس سی او میں روس کے ساتھ ہے، وہ برکس میں بھی شامل ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک غیر جانبدار ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

اس موقف کی تصدیق انڈیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے یوٹیوب پر جاری ایک ویڈیو میں انڈین وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے بیان سے ہوتی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کثیرالاقوامی اجلاس میں شریک ہونے جا رہے ہیں۔

’میں وہاں پاکستان اور انڈیا کے تعلقات پر بات چیت کرنے نہیں جا رہا۔ میں وہاں ایس سی او کا اچھا رُکن بننے جا رہا ہوں۔‘

Getty Images2023 پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ایس سی او کی وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے گوا آئے تھے

تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے مجوزہ دورے کے دوران ایس جے شنکر انڈین خبر رساں ایجنسیوں کو کوئی انٹرویو دے سکتے ہیں یا کسی پریس کانفرنس کا انعقاد کر سکتے ہیں۔ وہ اس میں کیا کہیں گے اس سے پتہ چلے گا کہ ان کے اس دورے سے باہمی تعلقات پر کسی طرح کا اثر پڑے گا یا نہیں۔

ایس سی او کی میٹنگ اسلام آباد میں 15-16 اکتوبر کو منعقد ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد 2001 میں کر‏غزستان، قزاقستان، روس، تاجکسان اور چین نے رکھی تھی۔ بعد میں اس میں انڈیا اور پاکستان بھی شامل ہو گئے۔ ایران اور بیلاروس بھی اب اس تنظیم کا حصہ ہیں۔

ایس سی او ایک یوریشین بین الحکومتی بین الاقوامی تنظیم ہے اور اس کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ جغرافیائی اور آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے۔ اس خطے ميں دنیا کی 42 فیصد آبادی رہتی ہے اور دنیا کی معیشت کا 20 فیصد جی ڈی پی اس خطے سے آتا ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والی یہ میٹنگ اس لحاظ سے بھی اہم ہوگی کیونکہ اس میں ایران کے ساتھ ساتھ روس اور چین کے وزرا خارجہ بھی شرکت کریں گے جو فلسطین کے معاملے پر امریکہ اور یورپ سے مختلف موقف رکھتے ہیں۔

اجیت ڈوول کی پوتن سے ملاقات اور سفارتکاری پر بحث: ’دورۂ یوکرین کے بعد روس کو وضاحتیں‘جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیامغل بادشاہ اکبر کو راجستھان میں ’عظیم‘ کہنے سے کیوں روکا گیا؟ذاکر نائیک پاکستان کے دورے پر: ’بنیاد پرست مبلغین اپنے ہی کافی ہیں باہر سے بلانے کی ضرورت نہیں‘IC-423 ہائی جیکنگ: پاکستانی کمانڈوز کا وہ آپریشن جس پر انڈیا نے جنرل ضیا کا شکریہ ادا کیااقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انڈین وزیر خارجہ کا شہباز شریف کو جواب: ’پاکستان کی معاشی بدحالی اس کے کرموں کا پھل ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More