بٹر چکن کس نے ایجاد کیا؟ دہلی کے دو خاندانوں میں قانونی جنگ چھڑ گئی

بی بی سی اردو  |  Feb 02, 2024

Getty Imagesبٹر چکن دنیا میں سب سے مشہور انڈین پکوانوں میں سے ایک ہے

مکھن اور ہلکے مسالے سے بھرپور، ٹماٹر اور دہی کی گریوی میں بنائی گئی مخملی بٹر چکن کس کو پسند نہیں؟

یہ پکوان، جس سے متاثر ہو کر کئی ناولز اور سفرنامے بھی لکھے جا چکے ہیں، اب دو خاندانوں کے درمیان مقدمے کی وجہ بن گیا ہے۔

چند دن پہلے دہلی ہائی کورٹ میں اس بات پر ایک مقدمہ دائر کیا گیا ہے کہ یہ پکوان کس کی ایجاد ہے۔ اس کیس کے فریقین دو مسابقتی ریستوران اور خاندان ہیں۔ دونوں خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ 1947 میں قائم کیے گئے شہر کے معروف موتی محل ریستوران سے ان کا تعلق ہے اور دونوں ہی اپنے آپ کو اس مشہور ڈش کا موجد کہتے ہیں۔

مقدمہ کندن لال گجرال کے خاندان کی طرف سے دائر کیا گیا ہے۔ گجرال موتی محل ریستوران کے اصل بانیوں میں سے ایک ہیں - مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گجرال نے یہ سالن بنایا تھا۔ انھوں نے اپنے حریف دریا گنج ریستوران پر اس کا جھوٹا کریڈٹ لینے کا الزام لگایا ہے۔

گجرال خاندان 240,000 ڈالرز (6 کروڑ 70 لاکھ پاکستانی روپیہ) ہرجانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ وہ یہ بھی الزام لگاتے ہی٘ں کہ دریا گنج کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ دال مکھنی بھی ان کی ایجاد ہے۔ لیکن اس وقت سب کی توجہ کا مرکز بٹر چکن ہے۔

بٹر چکن کیسے ایجاد ہوئی؟Getty Imagesدہلی میں اب موتی محل کی کئی فرنچائزز ہیں۔

بٹر چکن کی ایجاد کیسے ہوئی اس بارے میں کئی روایات ہیں، لیکن ان سب کی شروعات موکھا سنگھ نامی شخص سے ہوتی ہے۔ اس میں ان کے ساتھ ان کے تین ملازمین اور برصغیر کے کم از کم تین مختلف ریستوراں کے نام بھی آتے ہیں۔

شیف اور فوڈ رائٹر صدف حسین کا کہنا ہے کہ یہ کہانی آزادی سے پہلے پشاور (جو اب پاکستان کا حصہ ہے) سے شروع ہوتی ہے جہاں موکھا سنگھ موتی محل نامی ایک مشہور ریستوران چلایا کرتے تھے۔

1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو موکھا سنگھ اور ان کے کئی ہندو ملازمین پشاور سے بھاگ کر انڈین دارالحکومت چلے گئے۔ جلد ہی ان کا ایک دوسرے سے رابطہ ٹوٹ گیا۔

بالآخر ایک دن تک، کندن لال گجرال، اس کے کزن کندن لال جگی، اور ٹھاکر داس ماگو کی دہلی کے ایک عارضی شراب خانے پر موکھا سنگھ سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ان تینوں نے موکھا سنگھ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ انھیں دہلی میں ایک نیا موتی محل ریستوران کھولنے دیں۔

حسین کا کہنا ہے کہ دہلی کے پرانے کوارٹرز کی دریا گنج گلی میں واقع اس چھوٹے سے ریستوران میں ہی پہلی باربٹر چکن بنایا گیا تھا۔

اس کی تخلیق کے پیچھے کفایت شعاری کا ہاتھ ہے۔ بٹر چکن کو بچ جانے والے ٹِکّوں کا استعمال کرتے ہوئے، ٹماٹر کی گریوی اور مکھن کی گڑیوں میں ملا کربنایا گیا۔ لیکن اس نے کمال کر دیا۔

ایک سال کے اندر ہی، انڈیا کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو سمیت کئی وزراء اور سربراہان مملکت موتی محل کے باقاعدہ گاہک بن گئے۔

1984 میں نیویارک ٹائمز نے موتی محل کے بارے میں لکھا، ’امن معاہدے اس کی بالکونی میں طے کیے جاتے تھے۔ اور مولانا آزاد نے مبینہ طور پر ایران کے شاہ سے کہا تھا کہ وہ انڈیا جب بھی آئیں، انہیں دو جگہ ضرور جانا چاہیے ایک تاج محل اور دوسرا موتی محل۔‘

ایک عرصے تک، کندن لال گجرال اس کامیابی کی وجہ مانے جاتے رہے۔

لیکن ان کی موت کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ 1960 میں گجرال خاندان کو مالی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد موتی محل کو لیز پر دینا پڑا۔ (یہ ریستوران اب ایک دوسرا خاندان چلا رہا ہے)

کچھ سالوں بعد، گجرال خاندان نے دوبارہ کاروبار شروع کیا اور اس بار ریستوران کا نام موتی محل ڈیلکس- انھوں نے شہر بھر میں اس کی فرنچائزز کھولیں۔

لیکن 2019 میں انھیں ایک بار پھر دھچکا اس وقت لگا جب گجرال کے دوسرے پارٹنر کندن لال جگی کے پوتے نے دریا گنج کے نام سے ریستورانوں کی ایک حریف چین کھولی۔ انھوں نے اپنے ریستورانوں کے ساتھ لکھوایا ’بٹر چکن اور دال مکھنی کے موجدوں کی جانب سے‘ اور اسے ٹریڈ مارک کروا لیا۔

دریا گنج کے مالکان نے دلیل دی کہ گجرال صرف ریستوران کا چہرہ تھے جبکہ جگی کچن کو سنبھالتے تھے اور اس ہی لیے بٹر چکن سمیت تمام پکوان ان کی تخلیق تھیں۔

تاہم گجرال خاندان نے اسے مسترد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ جگی ایک ’جونیئر پارٹنر‘ تھے جنہوں نے مینو بنانے میں اہم کردار ادا نہیں کیا تھا۔ بٹر چکن درحقیقت گجرال نے اس وقت بنایا تھا جب وہ پشاور میں تھے۔

یہ وہ جنگ ہے جو فی الحال عدالت میں لڑی جا رہی ہے: گجرال خاندان کا مطالبہ ہے کہ دریا گنج کے مالکان کو خود کو بٹر چکن کا موجد کہنے سے روکا جائے۔ مقدمہ دائر کرنے والے کندن لال گجرال کے پوتے نے حال ہی میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’آپ کسی کی میراث نہیں چھین سکتے۔‘

یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی ڈش کی ملکیت کا دعویٰ عدالت تک چلا گیا ہو۔

انڈیا کی مشرقی ریاستوں اڈیشہ (سابقہ اڑیسہ) اور مغربی بنگال کے درمیان ایک تلخ جھگڑا اس بات پر ہوا کہ رس گلہ ان میں سے کس ریاست میں ایجاد ہوئی۔

اس کا اختتام اس وقت ہوا جب بالآخر 2018 میں جغرافیائی اشارے کے حکام نے بنگال کے حق میں فیصلہ دیا۔

حالیہ برسوں میں، کئی شیفس نے بھی اپنے ریستورانوں اور پکوانوں کے دفاع کے لیے املاک دانش کے حقوق کا مطالبہ کیا ہے تاہم، اب بھی شاذونادر ہی ایسے کوئی مقدمے عدالت تک پہنچتا ہے۔

فوڈ رائٹر ویر سنگھوی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے تنازعات عام طور پر تجارتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کا گاہکوں سے بہت کم تعلق ہوتا ہے۔

’لوگ اپنے من پسند پکوان کھانے ریستوران جاتے ہیں اور انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اسے دہائیاں پہلے کس نے ایجاد کیا تھا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ بعض اوقات پکوان اتنے مشہور ہو جاتے ہیں کہ لوگ ان کے موجد کو بھول جاتے ہیں۔ ’پہلا مسالہ ڈوسا کس نے بنایا؟ کچھ روایات اس کا سہرا ووڈ لینڈز ریستوران کے سر بانھتے ہیں، دوسرے اس پر اختلاف کرتے ہیں لیکن کسی کو اس کی گہرائی سے جانچ کرنے کی فکر نہیں ہے۔‘

حسین اس بات سے متّفق دکھائی دیتے ہیں۔ ایک جگہ کھایا جانے والا پکوان دوسری علاقے تک کیسے پہنچتا ہے، یہ بہت دلچسپ سفر ہے۔ اس کے کئی متوازی ذرائع ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ ’لوگ ہجرت کرتے ہیں، وہ اپنی ترکیبیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، راستے میں اسے مقامی ذائقوں کے حساب سے ایڈجسٹ کرتے ہیں۔‘

اس کے لیے وہ برطانیہ کی مثال دیتے ہیں، جہاں گلاسگو سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی نژاد ریستوران کو چکن تکّہ مسالہ کی ایجاد کا سہرا دیا جاتا ہے۔

لیکن بہت سے باورچی، خاص طور پر وہ جو بنگلہ دیشی ریستورانوں میں کام کرتے ہیں، دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کا نسخہ وہ لے کر آئے ہیں۔ جبکہ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ یہ مسالہ برطانیہ میں ایجاد ہی نہیں ہوا بلکہ پنجاب سے آیا ہے۔

حسین کا کہنا ہے کہ اس ہی لیے بٹر چکن کی لڑائی بھی بےمعنی ہے کیونکہ یہ ڈش ایک ریستوران تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ پائی جاتی ہے۔

Getty Imagesبٹر چکن کی ایجاد کیسے ہوئی، اس بارے میں کئی روایات ہیں

’آپ کو شاید اس کی ایجاد کا کریڈٹ مل جائے مگر اہم بات یہ ہے کہ اسے کون بہتر طریقے سے پیش کررہا ہے۔‘

لیکن موتی محل کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ یہاں تنازع اس بات پر نہیں کہ آیا اس ریستوران نے بٹر چکن بنایا تھا یا نہیں۔ یہان مدعا یہ ہے کہ اس کے مالکان میں سے کس کا اس ڈش کی ایجاد میں زیادہ ہاتھ ہے۔

سنگھوی کہتے ہیں کہ ’یہ دو آدمیوں کی کہانی ہے جو اپنے دادا کی وراثت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور ان تنازعات کو حل کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔‘

وکلا کے مطابق، عدالت کو ’واقعاتی شواہد‘ اور ان لوگوں کی شہادتوں پر انحصار کرنا پڑے گا جنھوں نے دہائیوں پہلے یہ ڈش کھائی تھی لیکن پھر بھی، جج یہ کیسے طے کریں گے کہ پہلا بار کس نے بنایا؟

سنگھوی کا کہنا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ شراکت داروں میں سے کسی کے پاس ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ تھا تو وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ’ابھی تک یہ بات سامنے تو نہیں آئی ہے۔‘

دریا گنج کے مالکان جانتے ہیں کہ اگر وہ ڈش ایجاد کرنے کے اپنے دعوے سے مکر جائیں تو بھی ان کے کاروبار پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سنگھوی مزید کہتے ہیں کہ دریا گنج کی کامیابی کے باوجود، موتی محل بھی پھلتا پھولتا رہے گا۔

’اتنی دہائیوں بعد کسی بھی طرح سے یہ بتانا مشکل ہو گا اس باورچی خانے میں ہوا کیا تھا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More