پاکستان کی وفاقی حکومت نے سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر کو بڑھانے کے لیے ابتدائی طور پر 30 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ کے ذریعے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی باقاعدہ منظوری اقتصادی رابطہ کمیٹی نے دے دی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان نے وزارتِ خزانہ کو واضح ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ ترسیلاتِ زر پر سبسڈی کی بحالی کو فوری یقینی بنائے۔ ان ہدایات کے بعد سٹیٹ بینک کے ساتھ مشاورت کے نتیجے میں وزارتِ خزانہ نے 30 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ منظور کرنے کا فیصلہ کیا۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے بجٹ 2025 میں ترسیلاتِ زر پر سبسڈی کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی تھی، تاہم وزیراعظم کی ہدایات کے بعد اس مقصد کے لیے حکومت کے ہنگامی فنڈ سے 30 ارب روپے لیے جائیں گے، اور بعد میں مزید رقم بھی اس مد میں جاری کی جا سکتی ہے۔سبسڈی سکیم کیسے کام کرتی ہے اور اوورسیز پاکستانیوں کو کیا فائدہ ہو گا؟حکومت نے 30 ارب روپے کی سبسڈی سکیم منظور کی ہے جس کے تحت 200 ڈالر یا اس سے زائد کی ترسیلاتِ زر پر بینک کو فیس کی مد میں ادائیگی کی جائے گی تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو کوئی اضافی چارجز ادا نہ کرنا پڑیں۔ اس اقدام کا مقصد قانونی ذرائع سے ترسیلات کو فروغ دینا اور ہنڈی کو روکنا ہے۔ اس سکیم کے تحت، جب کوئی اوورسیز پاکستانی کم از کم 200 ڈالر پاکستان بھیجے گا، تو حکومت اس رقم کی منتقلی پر آنے والے چارجز بینک کو ادا کرے گی، تاکہ بھیجنے والے پر اضافی مالی بوجھ نہ پڑے۔ 200 ڈالر کی ترسیل پر حکومت بینک کو 20 سعودی ریال تک سبسڈی دے گی، جو اس سے قبل 20 سے 35 ریال کے درمیان تھی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ’اس سکیم کا مقصد لوگوں کو ہنڈی جیسے غیرقانونی طریقوں سے پیسے بھیجنے سے روکنا اور بینکنگ کے محفوظ اور قانونی ذرائع کو فروغ دینا ہے۔‘علاوہ ازیں، حکومت نے وہ سکیم بھی ختم کر دی ہے جس میں ہر ڈالر پر 4 روپے کا اضافی فائدہ دیا جاتا تھا۔حکام کو امید ہے کہ اس نئے نظام سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوں گے، معیشت کو فائدہ پہنچے گا، اور اوورسیز پاکستانی زیادہ اعتماد کے ساتھ بینکوں کے ذریعے پیسے بھیج سکیں گے۔ تاہم دوسری جانب معیشت اور ترسیلاتِ زر کو سمجھنے والے ماہرین اس حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔پاکستان کی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر اکرام الحق کے خیال میں یہ رقم براہِ راست بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں یا ان کے پاکستان میں اس سے مستفید ہونے والے افراد کو نہیں دی جاتی بلکہ یہ بینکوں کو جاتی ہے۔ان کے مطابق، اس اقدام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حکومت بینکوں کو زیادہ منافع دے، نہ کہ اوورسیز پاکستانیوں کو سہولت۔ظفر موتی والا کے خیال میں حکومت کا یہ اقدام قابلِ ستائش ہے، جو کہ ترسیلاتِ زر کے فروغ کا سبب بنے گا (فوٹو: اے ایف پی)اُنہوں نے ترسیلاتِ زر پر اس فیصلے کے اثرات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان میں مہنگائی اور روزمرہ اخراجات میں مسلسل اضافے کے باعث ترسیلاتِ زر بڑھتی ہیں۔ یہ رقوم لاکھوں پاکستانی خاندانوں کے لیے سہارا بنی ہوئی ہیں۔ تاہم حکومت نے بینکوں میں بچت اور فنڈز پر جو بھاری ٹیکس عائد کیے ہیں، وہ اضافی ترسیلات کو روکنے کا سبب بنیں گے۔‘ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت جب تک بچتوں پر ٹیکس کا نظام معقول نہیں بناتی، تب تک ترسیلات میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں۔اُنہوں نے آخر میں کہا کہ اوورسیز پاکستانی، خاص طور پر جب بچتوں اور ریئل سٹیٹ کے لین دین پر بہت زیادہ ٹیکس عائد کر دیے گئے ہوں، تو رسمی ذرائع سے رقوم بھیجنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کیونکہ اب سرمایہ کاری پر منافعے کے حصول کا کوئی پرکشش امکان باقی نہیں رہا۔اسی طرح ماہرِ معیشت اور پاکستان کے بینکاری سیکٹر کو سمجھنے والے ظفر موتی والا کے خیال میں حکومت کا یہ اقدام قابلِ ستائش ہے، جو کہ ترسیلاتِ زر کے فروغ کا سبب بنے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت یہ سمجھتی ہے کہ رواں سال پاکستان کو 30 ارب ڈالر ترسیلات کی مد میں حاصل ہوں گے، اس لیے وہ 30 ارب روپے کی سبسڈی دے کر گویا ایک ڈالر پر ایک روپیہ لگانا چاہتی ہے تاکہ ترسیلاتِ زر کے بھیجنے کے عمل کو تیز کیا جا سکے اور دونوں طرف سے پروسیسنگ فیس کو سبسڈائز کیا جا سکے۔‘ظفر موتی والا کا مزید کہنا تھا کہ ’شہریوں کو اگر بروقت ترسیلات زر ملنے لگیں تو وہ قانونی ذرائع کو ہی ترجیح دیں گے اور حوالہ یا دیگر غیر قانونی ذرائع سے رقوم بھیجنے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔‘