Getty Images
آٹھ فروری کے عام انتخابات میں بس چند دن باقی ہیں اور امیدوار اپنی اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ مگر گذشتہ الیکشنز کے برعکس اس بار ڈیجیٹل مہم پر خصوصی زور دیا جا رہا ہے جس میں امیدواروں اور انتخابی نشانات کو آن لائن شائع کرنا اور یوٹیوب پر اشتہارات چلانا شامل ہے۔
امیدوار اپنے ووٹرز تک پہچنے کے لیے سوشل میڈیا کا پہلے سے بھی زیادہ سہارا لے رہے ہیں، جیسے فیس بک پیجز اور واٹس ایپ چینلز کے ذریعے ووٹرز کو مائل کیا جا رہا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیلز چلانے والے افراد ایکس پر خصوصی ٹرینڈز چلاتے ہیں اور پارٹی قیادت کا پیغام عوام تک پہنچاتے ہیں۔ جبکہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ پارٹی کا منشور ٹک ٹاک پر بھی بتایا جا رہا ہے۔
بی بی سی نے چند امیدواروں سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس سال ڈیجیٹل کیمپین کیسے چلا رہے ہیں اور ماضی کی روایتی مہمات سے یہ کتنا مختلف ہے۔
BBC’اگر وہ پسند نہیں کرتے تو بھی اُن کو یہ پیغام سننا پڑے گا‘
ایسی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھی ڈیجیٹل میڈیا کا طرف رُخ کر رہے ہیں جو ماضی میں ایسا کرنے سے ہچکچاتے تھے۔
پیپلز پارٹی کے لاہور کے حلقہ این اے 161 پر امیدوار فیصل میر کا کہنا ہے کہ اس بار اُن کی انتخابی مہم سوشل میڈیا پر بھی جاری ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ’ہم گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس بار ڈیجیٹل کیمپین پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں (کیونکہ) ووٹ دینے والوں میں 60 فیصد نوجوان ہیں۔‘
اپنی اس ڈیجیٹل کیمپین کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ اس میں وہ واٹس ایپ، فیس بک اور ایکس کا سہارا لے کر نوجوان ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں۔
’ہماری پارٹی نے ایک ایپ بنائی ہے جس کے اندر تمام ووٹرز کی لسٹ ڈالی گئی ہے۔ یہ ایپ میرے حلقے کے تمام ووٹرز کو ایک میسج بھیجے گی کہ کس کا پولنگ سٹیشن کہاں ہے اور اُن کو کہاں جا کر ووٹ ڈالنا ہے۔‘
بات صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ اس ایپ کی مدد سے پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو ذرداری کا پیغام بھی گھر گھر لوگوں تک پہنچایا جائے گا۔
آج کل اگر آپ کسی کو فون کرتے ہیں، تو آپ کو اکثر ریکارڈڈ میسج سننے کو ملتے ہیں، نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو وہ پیغام سننا پڑتا ہے۔ اسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فیصل میر نے بھی اپنے حلقے کے لوگوں کے لیے ایک پیغام ریکارڈ کروایا ہے۔
مسکراتے ہوئے فیصل میر نے کہا کہ ’مجھے اگر وہ پسند نہیں کرتے تو بھی اُن کو یہ پیغام سننا پڑے گا کیونکہ فون تو اُنھوں نے کرنا ہے۔‘
یہ ضرور ہے کہ ڈیجیٹل مہم کے علاوہ روایتی ڈور ٹو ڈور کیمپین بھی جاری ہے لیکن اس پر قدرے کم انحصار ہے۔
گذشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے گلیوں میں جگہ جگہ بینرز لگائے گئے تھے مگر اس بار ویسا ماحول نہیں اور اس بات سے فیصل میر نے بھی اتفاق کیا۔
’ہم نے اس بار روایتی کیمپین میں پمفلٹس اور سٹکرز روایتی نہیں بنوائے بلکہ سادہ رکھے ہیں جس میں پارٹی کے چیئرمین کا 10 نکاتی منشور شامل کیا گیا ہے۔‘
BBCموبائل ایپس اور واٹس ایپ چینلز کا سہارا
صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ دیگر جماعتیں بھی اس بار ڈیجیٹل کیمپین پر بہت زور دے رہی ہیں۔ جیسے مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں عمران جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بھی اس سال سوشل میڈیا پر اپنی مہم چلا رہے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں اُن کو شکست ہوئی تھی۔
بی بی سی کی ٹیم جب میاں عمران جاوید کے حلقے میں اُن کے ہمراہ کارنر میٹینگ میں پہنچی تو روایتی ملاقاتیں جاری تھی، مگر اس کارنر میٹینگ کو عوام تک براہِ راست پہنچانے کے لیے فیس بک لائیو بھی جاری تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے حلقے کے بلدیاتی نمائندے نہ صرف گھر گھر لوگوں تک نواز شریف کا پیغام پہنچا رہے ہیں، بلکہ سوشل میڈیا کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘ میاں عمران بھی اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ سوشل میڈیا اور موبائل ایپ کی مدد سے جڑے ہوئے ہیں۔
’ہمارے ووٹرز کو ہر ہفتے ہماری پارٹی کی تمام تر سرگرمیوں کے بارے میں ان ایپس کی مدد سے آگاہ کیا جاتا ہے۔‘
میاں عمران جاوید پُرامید ہیں کہ اس بار نئی طرز کی مہم کی بدولت انھیں فتح حاصل ہوسکے گی۔
اگر پاکستان تحریکِ انصاف کی بات کی جائے تو اُس وقت شاید باقی پارٹیوں کے مقابلے میں وہ زیادہ زور ڈیجیٹل کیمپین پر دے رہی ہے۔
اپنے ووٹرز کی آسانی کے لیے پی ٹی آئی نے ایک پورٹل بنایا ہے جس پر ووٹرز پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشانات سمیت تمام معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس پورٹل کے ذریعے وہ اس حلقے کا خصوصی واٹس ایپ چینل بھی جوائن کر سکتے ہیں۔
یہ تمام معلومات نہ صرف ان کی ویب سائٹس پر دستیاب ہے بلکہ ووٹر عمران خان اور دیگر کے سوشل میڈیا پیجز پر میسج بھیج کر بھی جواب حاصل کر سکتے ہیں۔
BBCڈیجیٹل مہم چلتی کیسے ہے؟
ہر سیاسی جماعت نے اب سوشل میڈیا کی مہارت رکھنے والے لوگ رکھے ہوئے ہیں جو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عوام کو آگاہ رکھتے ہیں۔
مختلف سیاسی شخصیات کی ڈیجیٹل کیمپین چلانے والے سید حسین گیلانی نے بتایا کہ ’اس وقت سب سے اہم رول واٹس ایپ کا ہے جہاں پر مختلف ٹیموں کے نمائندوں کی براڈکاسٹ لسٹ ہوتی ہے۔
’براڈ کاسٹ لسٹ کے ذریعے انھیں پیغامات چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ نمائندے اپنے اپنےگروپس میں وہ میسج پہنچا دیتے ہیں۔ واٹس ایپ کی مدد سے بہت آسانی ہوئی ہے۔ بہت جلد پیغام لوگوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔‘
سید حسین نے یہ بھی بتایا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار مختلف طرح سے اپنی کیمپین چلاتے ہیں۔ ’صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے ہم اُن کی مقامی سطح پر کیے گئے کاموں کو فیس بک کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔‘
تاہم قومی اسمبلی کے لیے ایکس کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ سید حسین نے بتایا کہ ایکس پر کیونکہ ٹرینڈز بنتے ہیں اس لیے ’ہم ہر امیدوار کی ڈیمانڈ کے مطابق ٹرینڈ چلاتے ہیں۔ ہر کسی کی مختلف ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ (مگر) ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے ہی عوام میں بہت زیادہ مقبول ہو (تو ایسے میں) اُس کو زیادہ سامنے آنے کی ضرورت نہیں۔‘
سید حسین نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر کیمپین چلانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی ووٹر نے تاحال یہ فیصلہ نہیں کیا کہ انھوں نے کس کو ووٹ دینا ہے تو وہ اس مواد سے کسی امیدوار کی طرف مائل ہوسکتے ہیں۔
BBCانتخابی مہم پر کتنا پیسہ خرچ کرنے کی اجازت؟
ان سب باتوں سے ایک خیال ذہن میں ضرور آتا ہے کہ انتخابی مہم میں عوام تک اپنی بات پہنچانے میں پیسہ خوب لگاتا ہے۔ تو یہ جان لیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 2024 میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو کتنی رقم خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور ان کو مانیٹر کیسے کیا جاتا ہے؟
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے بتایا کہ ’اس سال کمیشن نے قومی اسمبلی کی سیٹ پر لڑنے والے امیدوار کے لیے ایک کروڑ جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر لڑنے والے امیدوار کے لیے 50 لاکھ روپے کی رقم خرچ کرنے کی اجازت دی ہے۔‘
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی امیدواروں کے لیے واضح ہدایت موجود ہیں جہاں پر تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ یہ رقم کہاں اور کیسے خرچ کرنی ہے۔
مثال کے طور پر :
کوئی بھی سیاسی جماعت پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں سرکاری خزانے سے تشہیری مہم نہیں کرے گی اور اس سلسلے میں کوئی سرکاری رقم اخبارات اور دوسرے میڈیا میں اشتہارات کے اجرا کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ انتخابات کے دوران صوبائی اور وفاقی یا مقامی حکومتوں کی جانب سے سرکاری ذرائع ابلاغ کے جانبدارنہ کوریج کی غرض سے غلط استعمال پر مکمل پابندی ہو گی۔ کوئی سیاسی جماعت درجہ ذیل میں دیے گئے الیکشن کمیشن کے منظور شدہ سائز سے بڑے پوسٹر، ہینڈ بل، پمفلٹس، لیفلیٹس، بینرز ز اور پوٹریٹس نہ لگائے گا اور نہ ہی تقسیم کرے گا۔پوسٹرز18 انچ x23 انچ ہینڈ/ پمفلٹس9انچ x6 انچبینرز3 فٹ x9 فٹ پوٹریٹس2 فٹ x3 فٹ
الیکشن کمیشن کے قانون 133 کے تحت تمام امیدواروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ اُن کو انتخابی مہم کے لیے بینک میں ایک الگ اکاونٹ کھولنا پڑتا ہے۔ امیدوار انتخابی مہم کے اخراجات کی ساری ادائیگی چیک کے ذریعے کرتے ہیں، جس کی مدد سے ایک امیدوار کے اخراجات کی مانیٹرنگ ہوتی ہے۔
کنور دلشاد نے بتایا کہ ’ابھی تک ڈیجیٹل کیمپین کے لیے کتنی رقم خرچ کرنی چاہیے اور اس کو کیسے منیٹر کیا جانا چاہیے۔ اس بارے میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ مگر اس پر الیکشن کمیشن کو قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔‘
آٹھ فروری کو یہ دیکھنا ہے کہ امیدواروں کی یہ محنت کتنی رنگ لا آتی ہے اور کیا ڈیجیٹل کیمپین گذشتہ سالوں کے مقابلے میں عوام کو بڑی تعداد میں پولنگ سٹیشن تک لا سکے گی یا نہیں۔