پاکستان میں کینو کے کاشتکاروں کو ’بدترین نقصان‘: ’کینو نہیں بکے گا تو ہم حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرسکتے بھلے وہ ہمیں جیلوں میں ڈال دیں‘

بی بی سی اردو  |  Jan 28, 2024

Getty Images

’میں نے کینو کی اتنی زیادہپیدوار اور اتنی زیادہ مندی نہیں دیکھی۔ اکثریت باغوں میں دس فیصد سے بھی کمباغ بکے ہیں باقی اسی طرح پھل لگے ہوئے ہیں۔‘

یہ کہنا ہے صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کے علاقے للیانی کے زمیندار غلام مرتضیٰ بھٹی کا۔ تقریباً 65 سال کے غلام مرتضیٰ بھٹی 25 ایکڑ کینو کے باغوں کے مالک ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہر تین چار سال بعد کوئی نہ کوئی بحران ضرور آتا ہے مگر ایسا بحران کبھی بھی نہیں دیکھا۔ ہم لوگوں کے کپڑے، کرایہ، ملازمین کی تنخواہیں، ڈیرے کی رونقیں، شادی بیاہ سب کچھ کینو سے وابستہ ہیں۔‘

’کینو نہیں بکے گا تو ہم حکومت کو ٹیکس اور مالیہ ادا نہیں کرسکتے بھلے وہ ہمیں جیلوں میں ڈال دیں۔‘

غلام مرتضیٰ بھٹی ہی نہیں بلکہ کینو کے کاروبار سے جڑے تقریباً تمام ہی شعبوں اور لوگوں کی بھی یہ رائے ہے کہ باوجود اس کے کہ اس سال کینو کی جتنی پیدوار ہوئی ہے اس سے پہلے کم ہی دیکھی گئی ہے مگر کینو کے کاروبار کرنے والوں کو اپنی تاریخ کے بدترین نقصان کا سامنا ہے۔

بیس سال سے سٹرس سرچ سینٹر سرگودھا سے منسلک ماہر اور ڈائریکٹر ملک عبدالرحمان بھی سمجھتے ہیں کہ اس سال تاریخی پیدوار ہوئی ہے۔

’پاکستان میں اوسط پیدوار 20 لاکھ ٹن سے 25 لاکھ ٹن ہے۔ مگر اس سال ہمارے اندازوں کے مطابق پیداوار دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ پیداوار تاریخی ہونے کے باوجود کئی وجوہات کی بنا پر مارکیٹ میں مندی ہے۔‘

پچھلے دس سال سے کینو کے سب سے بڑے ایکسپورٹر نیشنل فوڈ کمپنی کے مالک شعیب احمد بسرا کہتے ہیں کہ ’اب نقصان برداشت نہیں ہو رہا، سوچ رہے ہیں کہ کاروبار کو تبدیل کر دیں۔‘

BBC

گذشتہ سال 35 لاکھ ڈالر کے کینو ایکسپورٹ کرنے والی کمپنی اکبر کینو پراسس کے محمد عمران خان کہتے ہیں کہ اس سال ہم کاروبار نہیں کر رہے۔

’ہماری فیکڑی بند ہے جس پر افسوس ہونا چاہیے مگر مارکیٹ میں جو نقصان ہو رہا ہے اس سے بچ جانے کی خوشی ہے کہ کاروبار نہیں کیا تو ٹھیک کیا۔‘

ملک عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ عموماً پاکستان میں پیدا ہونے والے کینو کا دس فیصد ایکسپورٹ ہو جاتا ہے۔ گذشتہ سال یہ ایکسپورٹ ساڑھے چار لاکھ ٹن تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سال اب تک یہ ایکسپورٹ مختلف وجوہات کی بنا پر بہت کم رہی ہے۔ اس کے باوجود امید کرتے ہیں کہ ابھی سیزن میں کافی وقت ہے اور ان وجوہات کے خاتمے پر یہ ایکسپورٹ تیزی سے شروع ہو گی اگر یہ ایکسپورٹ پچھلے سال ساڑھے چار لاکھ ٹن تک نہ بھی پہنچ سکی تو ساڑھے تین لاکھ ٹن تک پہنچ جائے گی۔‘

شعیب احمد بسرا کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر ہماری کینو کی ایکسپورٹ ہر سال نییچے جا رہی ہے۔

نجی کمپنی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 میں پاکستان سے چودہ ہزار کنٹینر تقریباً دو سو بیس ملین ڈالر کے ایکسپورٹ ہوئے تھے۔ سال 2022 میں یہ تعداد کم ہو کر ساڑھے چار ہزار کنٹینر تک پہنچ گئی تھی جس کی مالیت تقریباً سو ملین ڈالر تھی۔

محمد عمران خان کہتے ہیں کہ ’بظاہر ایسے لگتا ہے کہ کینو اب اپنی زندگی پوری کر چکے ہیں۔ ریکارڈ پیدوار کے باوجود فروخت کیوں نہیں ہو رہا اس کی کئی وجوہات ہیں اور مسائل ہیں جس کا ہم نے بروقت حل دریافت نہیں کیا تھا۔‘

Getty Images’اچھی کوالٹی کم دستیاب ہے‘

شعیب احمد بسرا کہتے ہیں کہ کینو تو بہت زیادہ پیدا ہوا ہے مگر ایکسپورٹ کوالٹی کینو کم ہے۔ جس وجہ سے زیادہ کینو ایکسپورٹ بھی نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ اے کوالٹی کینو بھی تعداد میں کم ہے۔

شعیب احمد بسرا کا کہنا تھا کہ ’اگر میں سال دو ہزار دو، تین اور چار کی بات کروں تو اس وقت مجموعی پیدوار میں ہمارے پاس ایکسپورٹ کوالٹی کا کینو ساٹھ سے ستر فیصد ہوتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں وہی پھل یا چیز بکتی ہے جو دیکھنے میں اچھی لگتی ہو۔ اس وقت کینو کا سائز کم ہے جبکہ فنگس کی بنا پر اس کی جلد پر نشانات بھی موجود ہے جس کے باعث اس وقت ہمیں ایکسپورٹ کے لیے کم تعداد میں کینو دستیاب ہیں۔

’اس وقت ہم بیس فیصد کینو ایکسپورٹ کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں۔ ایسا ہم معیار پر سمجھوتہ کر کے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے پاس پیدوار کے دس فیصد میں بھی میعاری کینو دستیاب نہیں ہے۔‘

محمد عمران خان کہتے ہیں کہ ’کینو قیام پاکستان جتنی پرانی ورائٹی ہو چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا نے نئی ورائٹی اور معیار متعارف کروا دیا ہے۔ اس وقت چین 15، 16 قسم کی ورائٹی کو ایکسپورٹ کر رہا ہے ان کے پاس تُرشا پھل کی ایکسپورٹ کا سیزن قریباً آٹھ ماہ چلتا ہے ہمارے پاس اب کم ہو کر بمشکل دو، تین ماہ بھی نہیں رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں اس وقت بغیر بیج کے تُرشا پھل پسند کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے پاس ابھی بھی کینو ہی چل رہا ہے۔ جس کی ڈیمانڈ وقت کے ساتھ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔‘

ملک عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ ’اس سال پھل زیادہ ہونے کی وجوہات موسمی تبدیلی ہے۔ اس دفعہ اگست تک کافی زیادہ بارشیں ہوئی ہیں زیادہ بارشوں سے کینو کی کوالٹی پر اثر پڑتا ہے تاہم پھل زیادہ پیدا ہوتا ہے۔

’سرگودھا میں بھی کینو کے ساتھ ایسے ہی ہوا ہے۔ زیادہ بارشوں کی وجہ سےپھل تو زیادہ ہوا ہے مگر زیادہ تر پھل کی جلد پر مختلف نشانات پیدا ہو گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ جس درخت پر عموماً چار سے پانچ سو پھل لگتا ہو وہاں پر اگر دو، تین ہزار پھل لگے تو اس کا سائز بھی کم رہ جائے گا۔ کوالٹی پر کچھ نہ کچھ اثر پڑے گا تاہم اس کا ذائقہ ابھی بھی ویسا ہی ہے۔‘

ملک عبدالرحمان کا دعویٰ تھا کہ سرگودھا میں نئی اور مختلف اقسام کو متعارف کروا دیا گیا ہے۔

’اس سال ایک زمیندار نے بغیر بیج کے ورائٹی ایکسپورٹ کے لیے فراہم کی ہے۔ مختلف فارمز اور باغات میں اس کے کامیاب تجربے ہو چکے ہیں۔ اب دو، چار سال میں نئی اور بغیربیج کے ورائٹی دستیاب ہو گی جبکہ ایکسپورٹ کے مسائل بالخصوص افغانستان ایکسپورٹ کے حوالے سے آنے والے مسائل دونوں میں اہم پیش رفت ہو جائے گی۔‘

Getty Images’افغانستان نے ترشا پھل پر ٹیکس دو سو گنا بڑھا دیا‘

شعیب احمد بسرا کہتے ہیں کہ پاکستانی کینو اور ترشا پھل کی ایک بڑی منڈی افغانستان ہے جہاں پر گذشتہ سال افغان حکومت کی جانب سے ٹیکس میں اضافے کے باوجود ڈیڑھ لاکھ ٹن کینو فروخت ہوا تھا۔

’مگر اس سال افغاستان حکومت نے پاکستانی کینو پر فی کنٹینر ٹیکس دس لاکھ سے بڑھا کر تقریباً تیس لاکھ روپے کر دیا ہے۔ دو سال پہلے یہ ٹیکس صرف ڈیڑھ لاکھ تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹیکس میں اتنے بڑے اضافے کے بعد اب پاکستان سے کوئی بھی ترشا پھل افغانستان بہت کم جا رہا ہے۔ میں نے اس وقت ایک آدھ کنینٹر بھیجا ہے مگر وہ انتہائی ناکافی ہے جبکہ باقی ایکسپورٹرز بالکل بھی مال افغانستان نہیں بھیج سکے ہیں۔‘

شعیب احمد بسرا کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں موجود ہمارے کاروباری دوستوں کے علاوہ ہمیں جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق جب انگور وغیرہ کا سیزن تھا تو اس وقت طورخم بارڈر مختلف وجوہات کی بنا پر بند ہو گیا تھا۔

’جس کی وجہ سے افغانستان کے انگور کی وہ فروخت ممکن نہیں ہو سکی تھی اور اس انگور کو مناسب طور پر ٹرانزٹ بھی نہیں ملا تھا جس بنا پر اب افغانستان حکومت نے ترشا پھل اور کینو پر اتنا ٹیکس عائد کر دیا ہے جو وہاں کے کاروباری افراد اور عوام کی خرید سے باہر ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کی اسوسی ایشن اور حکومت مل کر افغان حکومت سے بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس پر ٹیکس کو کم کریں۔

ملک عبدالرحمان کا دعویٰ تھا کہ اس حوالے سے مثبت پیشرفت ہو چکی ہے اور آنے والے دونوں میں بہتری کی توقع ہے۔

Getty Images’راستے بند، کوٹہ نہیں ملا‘

شعیب احمد بسرا کہتے ہیں کہ ’سال 2021 میں ہماریکمپنی نے پندرہ سو، سال 2022 میں چھ سو پچاس کنٹینر ایکسپورٹ کیے تھے۔

’اس سال تو نہیں لگتا کہ ہم یہ دو کا ہندسہ بھی پار کر پائیں گے۔ اپنے پرانے رابطوں کی بنا پر فلپائن میں کچھ کنیٹر بھجوا رہے ہیں مگر ایسا ہر جگہ اور وقت ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چھوٹے کینو کی ایک اور بڑی مارکیٹ روس، بیلا روس، یوکرائن کے ساتھ ملحقہ ریاستیں ہیں۔ اگر پیدوار زیادہ ہوئی ہے تو یہ کینو روس اور اس سے ملحقہ ریاستوں میں فروخت ہو سکتا ہے مگر روس اور ملحقہ ریاستوں کو جانے کا قابل بھروسہ اور سستا راستہ حوثیوں کی جہازوں پر حملے کی وجہ سے بند ہو چکا ہے۔ اس وقت سوئز کنال روٹ سے ایشیا اور یورپ کا کاروبار تقریباً بند پڑا ہے۔‘

شعیب احمد بسرا کا کہنا تھا کہ ’اس روٹ سے ہمارا کینو روس سمیت مختلف پورٹس پر 25 سے 35 دونوں میں پہنچ جاتا تھا۔ مگر اب راستہ بند ہونے کی وجہ مال نہیں جا رہا ہے۔ ہمارے کئی کنیٹر متاثر ہوئے ہیں۔‘

’میرے اور کم از کم تیس اور دیگر ایکسپوٹرز کا کینو شپنگ کمپنیوں نے مختلف پورٹس پر اتار دیا ہے۔ اب بظاہر یہ ہی لگ رہا ہے کہ یہ سارا کینو ان ہی پورٹس پر گل سڑ جائے گا اور یہ نقصان اربوں روپیہ ہو گا اور پاکستان قیمتی زرمبادلہ سے بھی محروم رہ جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’روس تک دوسرا بحری راستہ افریقہ سے گزر کر جاتا ہے۔ اس پر کم از کم ساٹھ دن لگتے ہیں۔ اس کا کرایہ کم از کم دوگنا سے زیادہ ہے۔ روایتی راستے کا کرایہ بھی ایک سال میں دوگنا سے زیادہ ہوا ہے۔‘

شعیب احمد بسرا کا کہنا تھا کہ ’انڈونیشا بھی پاکستانی کینو کا ایک کاہگ ہے۔ اس سال انڈونیشا نے دسمبر میں بیس ہزار ٹن کی جگہ پر صرف چار ہزار ٹن کوٹہ دیا ہے۔ پچھلے سال میں نے صرف انڈونیشا میں 55 کنیٹر ایکسپورٹ کیے تھے اب اس سال صرف آٹھ کیے ہیں۔ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ انڈونیشیا کی حکومت پاکستان کو جنوری، فروری کا کوٹہ دے مگر ابھی تک اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔‘

’75 فیصد کاروبار کم ہو چکا ہے‘

شعیب بسرا کہتے ہیں کہ ’پاکستان کا جن ممالک کے ساتھ مقابلہ ہے انھوں نے بہت ترقی کر لی ہے۔ یہ بچی کچی مارکیٹیں ایکسپورٹرز نے اپنے بازو پر بچا کر رکھی تھیں۔‘

’اب اس سال وہ مارکیٹیں بھی ہاتھ سے جاتے دیکھ رہے ہیں۔ گذشتہ سالوں میں صرف میری فیکڑی میں دو شفٹوں میں کام ہوتا تھا اب اس سال ہم نے کام ایک شفٹ آٹھ گھنٹے تک محدود رکھا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت کوئی ساڑھے تین سو میں سے اڑھائی سو فیکڑیاں بند پڑی ہیں۔ ہر ایک فیکڑی میں کم از کم ایک ہزار سٹاف کام کرتا تھا۔ میں نے بھی گذشتہ سالوں کے مقابلے میں اپنے سٹاف میں پچھتر فیصد کمی کر لی ہے۔‘

’میرے کاروباری حجم میں بھی پچھتر فیصد کمی ہو چکی ہے۔ گذشتہ دس سال میں ہمارے ساتھ جو کینو کے ٹاپ پانچ ایکسپورٹرز تھے ہمارے علاوہ ان چاروں نے کاروبار تبدیل کر لیے ہیں۔ اس سال کی صورتحال دیکھ کر ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ کاروبار کو بدل لیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More