امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز کہا ہے کہ وہ انڈیا کی جانب سے روس سے تیل خریدنے کے باعث اگلے 24 گھنٹوں کے اندر انڈیا پر عائد ٹیرف میں ’نمایاں اضافہ‘ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق صدر ٹرمپ نے سی این بی سی ٹیلی وژن کو دیے گئے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ’انڈیا ہمارے لیے اچھا تجارتی شراکت دار نہیں رہا کیونکہ وہ ہم سے بہت کاروبار کرتا ہے، لیکن ہم ان کے ساتھ زیادہ کاروبار نہیں کرتے۔ اس لیے ہم نے 25 فیصد محصول پر اتفاق کیا تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ میں اسے اگلے 24 گھنٹوں میں نمایاں طور پر بڑھا دوں گا کیونکہ وہ روسی تیل خرید رہے ہیں۔‘
خیال رہے پیر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ انڈیا پر عائد ٹیرف میں ’نمایاں اضافہ‘ کریں گے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل' پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ’انڈیا نہ صرف روسی تیل کی بڑی مقدار خرید رہا ہے، بلکہ اس میں سے زیادہ تر تیل کو کھلی منڈی میں منافع کے لیے دوبارہ فروخت کر رہا ہے۔ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ یوکرین میں کتنے لوگ روسی جنگی مشین کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔‘یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انڈیا نے حالیہ مہینوں میں روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل کی خریداری بڑھائی ہے جو یوکرین جنگ کے بعد عالمی سطح پر ایک سفارتی اور اقتصادی موضوع بن چکا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ انڈیا پر عائد کیے جانے والے نئے محصولات کی شرح کیا ہوگی۔گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ انڈیا سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر 25 فیصد ٹیرف عائد کریں گے اور مزید یہ کہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کو ایک غیرمتعین ’سزا‘ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی مزید تفصیل نہیں دی تھی۔ٹرمپ کے بیان پر انڈیا وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انڈیا کو نشانہ بنانا غیرمنصفانہ اور غیرمعقول ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)دوسری جانب انڈیا کی وزارت خارجہ نے امریکی صدر کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرین تنازع کے آغاز کے بعد انڈیا کو روس سے تیل درآمد کرنے پر امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے پیر کی شام جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ انڈیا نے روس سے درآمدات اس وقت شروع کیں جب روایتی سپلائیز یورپ کی طرف منتقل ہو گئیں۔ اُس وقت امریکہ نے انڈیا کو ایسی درآمدات کی حوصلہ افزائی کی تاکہ عالمی توانائی منڈیوں میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔‘بیان کے مطابق ’انڈیا کی درآمدات کا مقصد انڈین صارفین کے لیے توانائی کی قیمتوں کو قابلِ پیش گوئی اور قابلِ برداشت بنانا ہے۔ یہ عالمی منڈی کی صورتحال کی وجہ سے ضروری اقدام ہے۔ تاہم یہ بات قابلِ غور ہے کہ وہی ممالک جو انڈیا پر تنقید کر رہے ہیں، وہ خود روس کے ساتھ تجارت میں مصروف ہیں۔‘بیان میں یورپی یونین کی یورپ سے درآمدات کے حجم سے متعلق اعداد و شمار کے ذکر کے ساتھ ساتھ کہا گیا ہے کہ ’امریکہ روس سے اپنی نیوکلیئر انڈسٹری کے لیے یورینیم ہیکسا فلورائیڈ، الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کے لیے پیلاڈیم، کھاد اور کیمیکلز درآمد کرتا ہے۔‘’اس تناظر میں انڈیا کو نشانہ بنانا غیرمنصفانہ اور غیرمعقول ہے۔ ہر بڑی معیشت کی طرح انڈیا بھی اپنے قومی مفادات اور اقتصادی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘