کولڈ ڈرنگ، چپس، برگر یا بسکٹ: الٹرا پروسیسڈ اشیا ہماری صحت کے لیے کتنی نقصان دہ ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jan 28, 2024

Getty Images

اگر آپ ٹرین یا سڑک پر طویل دورانیے کے سفر پر نکلے ہیں اور دورانِ سفر میں بھوک لگ رہی ہے تو دال، چاول یا روٹی جیسے آپشنز کی بجائے آپ کو چپس، بسکٹ اور کولڈ ڈرنکس جیسے بہت سے آپشنز ملتے ہیں۔

کئی بار ہم انھیں صرف وقت گزارنے کے لیے یا منھ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے بھی کھاتے ہیں اس کے باوجود کہ ہمارا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ روایتی کھانے کی اشیا کی جگہ کھائے جانے والے مزیدار متبادل کو ’الٹرا پروسیسڈ فوڈز‘ کہا جاتا ہے اور ان کا زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

یہی نہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ انھیں اس طرح سے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ کھانے میں لذیذ لگتے ہیں اور ہم ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز (ICRIER) کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 10 سالوں میں انڈیا میں الٹرا پروسیسڈ فوڈ کی مارکیٹ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

Getty Imagesالٹرا پروسیسڈ فوڈ کیا ہے؟

ڈاکٹر ارون گپتا اطفال کے امراض کے ماہر ہیں اور نیوٹریشن ایڈوکیسی فار پبلک انٹرسٹ نامی تھنک ٹینک کے کنوینر ہیں۔

وہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ کا مطلب اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’آسان الفاظ میں کہا جائے تو، الٹرا پروسیسڈ فوڈ کھانے کی وہ چیز ہے جسے آپ عام طور پر اپنے کچن میں نہیں بنا سکتے۔ یہ عام کھانے کی طرح نہیں لگتا ہے۔ جیسے پیک شدہ چپس، چاکلیٹ، بسکٹ اور بڑے پیمانے پر تیار بریڈ اور بن وغیرہ۔‘

وہ کہتے ہیں ’ہر برادری اپنے ذائقے اور پسند کے مطابق کھانا تیار کرتی ہے۔ اسے بھی فوڈ پروسیسنگ کہا جا سکتا ہے۔ اگر ہم دودھ سے دہی بناتے ہیں تو یہ پروسیسنگ ہے۔ لیکن اگر کسی بڑی صنعت میں دودھ سے دہی بنایا جائے اور اسے مزیدار بنانے کے لیے رنگ، ذائقہ، چینی یا کارن سیرپ ڈالا جائے تو یہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ ہن جائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ میں شامل ہونے والی یہ چیزیں ان کی غذائیت میں اضافہ نہیں کرتیں بلکہ ان کو اس لیے شامل کیا جاتا ہے کہ آپ انھیں کھاتے رہیں، وہ انھیں بیچتے رہیں اور زیادہ منافع حاصل کرتے رہیں۔ ایسی صورتحال میں بڑی صنعتیں ہی انھیں تیار کر سکتی ہیں۔

الٹرا پروسیسڈ فوڈ کو کاسمیٹک فوڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق الٹرا پروسیسڈ فوڈز ایسے اجزا سے بنتی ہیں جو صنعتی تکنیک اور عمل کو استعمال کرتے ہوئے تیار کی جاتی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق، الٹرا پروسیسڈ فوڈز کی کچھ مثالیں اس طرح ہیں:

کاربونیٹیڈ کولڈ ڈرنکسمیٹھے، فیٹی، یا نمکین نمک پارے، کینڈیبڑے پیمانے پر تیار شدہ بریڈ، بسکٹ، پیسٹری، کیک، فروٹ دہیگوشت، پنیر، پاستا، پیزا، مچھلی، ساسیج، برگر، ہاٹ ڈاگ کھانے کے لیے تیارانسٹینٹ سوپ، انسٹینٹ نوڈلز، بیبی فارمولا

ماہرین کے مطابق چینی، نمک، چکنائی یا ایملسیفائنگ (دو مختلف قسم کے مادوں کی آمیزش) ان تمام چیزوں میں صنعتی عمل کے ذریعے کیمیکلز اور پریزرویٹو شامل کیے جاتے ہیں، جنھیں ہم عموماً اپنے کچن میں استعمال نہیں کرتے۔

Getty Imagesپریزرویشن یعنی زیادہ مدت تک قابل استعمال رکھنے کی ابتدا

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن کے سابق سینیئر سائنسداں ڈاکٹر وی سدرشن راؤ کا کہنا ہے کہ تہذیب کے آغاز سے ہی چیزوں کو محفوظ رکھنے کا استعمال شروع ہو گیا تھا۔

اس کا بنیادی کام کھانے کو طویل مدتی استعمال کے لیے بیکٹیریا اور فنگس وغیرہ کے ذریعے خراب ہونے سے بچانا تھا۔

وہ بتاتے ہیں: ’ہمارے آباؤ اجداد نے سیکھا تھا کہ اگر کھانے سے نمی کو ہٹا دیا جائے تو اسے دیر تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے سب سے پہلے کھانے پینے کی اشیاء کو دھوپ میں خشک کرنا شروع کیا، کیونکہ انھیں احساس تھا کہ خشک کھانے کی اشیا کو طویل عرصے تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ، حیدرآباد کے سائنسدان ڈاکٹر وی سدرشن راؤ کہتے ہیں کہ نمک اور چینی کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا، جنھیں پرزرویٹیو کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اب نئی ٹیکنالوجی کی آمد کی وجہ سے تحفظ کے عمل میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے ریاست گجرات کے راجکوٹ میں میونسپل کارپوریشن کے محکمہ صحت میں ڈاکٹر جیش وکانی بتاتے ہیں: ’مثال کے طور پر اچار کو ہی لیں۔ اس میں نمک، چینی، سرکہ اور سائٹرک ایسڈ کا زیادہ استعمال ہوتا ہے، جو کہ قدرتی پریزرویٹو کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اگر مصنوعی پریزرویٹو کا استعمال کرنا ہے، تو انھیں فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا (FSSI) کے معیارات کے مطابق استعمال کرنا ہوگا۔‘

Getty Imagesکاسمیٹکس میں بھی پریزرویٹوز استعمال ہوتے ہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کی اشیاء میں موجود پریزرویٹوز جن میں کئی قسم کے اینٹی مائیکروبیئلز، اینٹی آکسیڈنٹس، سوربک ایسڈ وغیرہ شامل ہیں، ہر کھانے کی اشیاء میں استعمال نہیں کیے جا سکتے۔

کھانے کی اشیاء میں بیکٹیریا کو روکنے کے لیے بیکٹریا کش یا مخالف پریزرویٹو کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ تیل میں اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں، سوربک ایسڈ اسے فنگس سے بچانے کے لیے بطور پریزرویٹو استعمال کیا جاتا ہے۔

پریزرویٹوز نہ صرف کھانے پینے کی اشیا میں استعمال ہوتے ہیں بلکہ کریم، شیمپو، سن سکرین جیسی کاسمیٹکس میں بھی استعمال ہوتے ہیں تاکہ انھیں طویل عرصے تک استعمال کیا جا سکے۔

لیکن کیا وہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر جیش واکانی کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی شے یا کھانے کی چیز میں حفاظتی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے پرزرویٹوز کا استعمال کیا جاتا ہے اور صرف اتنی ہی مقدار درکار ہوتی ہے جس سے نقصان نہ ہو کیونکہ زیادہ استعمال نقصان دہ اثرات کا باعث بنتا ہے۔‘

ڈاکٹر وی سدرشن راؤ کا کہنا ہے کہ ایف ایس ایس آئی کھانے پینے کی اشیاء میں استعمال ہونے والے پرزرویٹیو کی جانچ کرتی ہے اور یہ پتہ چلا ہے کہ اگر 60-70 سال تک بھی انھیں لیا جائے تو بھی یہ جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔

Getty Imagesپرزرویٹوز اور الٹرا پروسیسڈ فوڈز

صارفین کی آگاہی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’کنزیومر وائس‘ کے سی ای او آشم سانیال کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا کو طویل عرصے تک خراب ہونے سے بچانے کے علاوہ ذائقہ بڑھانے اور رنگوں کو شامل کر کے انھیں پرکشش بنانے کے لیے پرزرویٹیو بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ پریزرویٹو مصنوعی ہیں اور صرف محدود مقدار میں شامل کیے جاتے ہیں۔ لیکن الٹرا پروسیسڈ فوڈ کو خراب ہونے سے روکنے کے لیے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں وہ اسے انتہائی نقصان دہ بنا دیتے ہیں۔

ڈاکٹر آشم سانیال بتاتے ہیں کہ کھانوں میں پریزرویٹوز کے استعمال کو منفرد روپ میں نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ اسے الٹرا پروسیسڈ فوڈز کے ساتھ ملا کر دیکھا جانا چاہیے۔

انڈیا میں پراسیسڈ فوڈ بزنس سیکٹر کی مالیت اب 500 ارب ڈالر ہے۔

آشم سانیال بتاتے ہیں کہ سبزیوں، دالوں وغیرہ کے پکانے کو بھی پراسیسڈ فوڈ کہا جاتا ہے، لیکن الٹرا پروسیسڈ فوڈ وہ ہے جسے تکنیکی اختراع کے ذریعے لیبارٹری میں ایک نئی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔ چینی، سیچوریٹڈ فیٹس وغیرہ کے علاوہ اس میں پرزرویٹوز کی بھی بڑی مقدار ہوتی ہے۔

ان کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈز پریزرویٹوز اور کیمیکلز سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان میں پرزرویٹوز ڈالے جاتے ہیں تاکہ انھیں طویل عرصے تک استعمال کیا جا سکے۔ ان کا عادی بنانے کے لیے ان میں کچھ نشہ آور چیزیں بھی شامل کی جاتی ہیں۔

آشم سانیال کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر چپس، کولڈ ڈرنکس یا دیگر کھانے پینے کی اشیا بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب کی عادت بن جاتی ہیں اور اس عادت کو پیدا کرنے کے لیے اس طرح کی چیزیں شامل کی جاتی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’یہ بات سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ بہت سی بیماریوں کی جڑ بن چکا ہے۔ جب بھی ہم نے تحقیق کی، ہم نے پایا کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ میں بہت زیادہ مقدار میں پرزرویٹوز اور دیگر کیمیکلز ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر آشیم سانیال کہتے ہیں: ’الٹرا پروسیسنگ میں غذائیت والے اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کھانے میں کوئی معیار باقی نہیں رہتا۔ جس طرح تمباکو یا سگریٹ نشہ آور ہو جاتا ہے، اسی طرح ایسا کھانا بھی اپنی لت کی وجہ سے نشہ آور ہو جاتا ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈز کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس کا کتنا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر ارون گپتا کہتے ہیں: ’کھانا کھاتے وقت ہمارا دماغ ہمیں یہ اشارہ دیتا ہے کہ ہمارا پیٹ اب بھر گیا ہے۔ لیکن الٹرا پروسیسڈ فوڈز اس طرح تیار کیے جاتے ہیں کہ آپ انھیں کھانے سے لطف اندوز ہوں۔ جب آپ اسے کھاتے ہیں تو دماغ سے کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ آپ کا پیٹ بھر گیا ہے اور آپ اسے کھاتے رہتے ہیں۔‘

Getty Imagesپرزرویٹوز اور الٹرا پروسیسڈ فوڈز کے نقصانات

ڈاکٹر جیش واکانی کا کہنا ہے کہ اگر مصنوعی پریزرویٹو اشیا کا معیار سے زیادہ مقدار میں اور زیادہ عرصے تک استعمال کیا جائے تو یہ جسم میں کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

ڈاکٹر ارون گپتا کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض اوقات کھانے پینے کی اشیا کی شیلف لائف بڑھانے کے لیے ایسے پرزرویٹوز ڈالے جاتے ہیں جو نقصان دہ ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان میں پریزرویٹوز اور کلرنگ ایجنٹس جیسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو جسم میں الرجی کا باعث بن سکتے ہیں یا جسم کی قوت مدافعت کو کمزور کر سکتے ہیں۔ اگر فوری طور پر اس کا پتہ نہ لگایا جائے تو یہ طویل مدت میں خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔‘

سنہ 2023 کی گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ کے مطابق انڈیا 125 ممالک میں بھوک کے معاملے میں 111 ویں نمبر پر ہے اور وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ آبادی بھوک کا شکار ہے۔

جہاں ایک طرف ملک کو غذائیت کی کمی کے چیلنجز کا سامنا ہے وہیں دوسری طرف موٹاپے کے بڑھتے ہوئے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ الٹرا پروسیسڈ فوڈز موٹاپے کو بڑھانے میں بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر ارون گپتا کہتے ہیں: ’انھیں کبھی کبھار کھایا جا سکتا ہے، لیکن جب ہم اپنی خوراک کے دس فیصد سے زیادہ میں ان کا استعمال شروع کر دیتے ہیں، یعنی اگر 2000 کیلوریز میں سے 200 سے زیادہ کیلوریز الٹرا پروسیسڈ فوڈ سے آتی ہیں، تو پھرنقصان شروع ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو وزن بڑھنے لگتا ہے جو کہ خود کئی بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔ اس سے ذیابیطس، بلڈ پریشر، دل اور گردے سے متعلق امراض حتیٰ کہ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ڈاکٹر ارون گپتا کے مطابق، ’حالیہ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ کا استعمال ڈپریشن اور پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔‘ تحقیق ابھی جاری ہے کہ ایسا کیوں ہے۔

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر عمر اور طبقے کے لوگ الٹرا پروسیسڈ فوڈ کھاتے ہیں، لیکن ہندوستان کے نقطہ نظر سے بچوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہے، کیونکہ بچے عام طور پر میٹھی چیزیں پسند کرتے ہیں۔ وہ چپس، کینڈی، چاکلیٹ، پیکڈ جوس اور کولڈ ڈرنکس کھانا پسند کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ارون گپتا کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس حوالے سے زیادہ تر تحقیق بالغوں پر کی گئی ہے لیکن 2017 میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ تقریباً پچاس فیصد بچوں کو الٹرا پروسیسڈ فوڈ سے نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ انھیں موٹاپے کی طرف دھکیل رہا ہے۔

بچنے کا راستہ کیا ہے؟Getty Images

ماہرین کا کہنا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ کھانے کی عادت سے گریز کرنا چاہیے۔

آشم سانیال بتاتے ہیں کہ اگر آپ ہفتے میں چار بار ایسی غذا یا کھانے کی اشیاء کھاتے ہیں تو آہستہ آہستہ اس کی مقدار کم کریں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھانے کے لیبلز کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایسی کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیوں کو اجزاء کے محاذ پر بھی نمایاں معلومات فراہم کرنی چاہئیں۔

انھوں نے کہا: ’ہم پیک نیوٹریشنل لیبلنگ کے فرنٹ پر زور دے رہے ہیں تاکہ لیبل کے فرنٹ پر درج چیزوں کو ظاہر کیا جا سکے کہ آیا اس میں چینی کی مقدار زیادہ ہے، نمک کی زیادہ ہے یا چربی کی زیادہ ہے۔ اگر ان اہم باتوں پر توجہ دی جائے تو 80 فیصد مسائل کو روکا جا سکتا ہے۔ فی الحال یہ تمام معلومات لیبل کی پشت پر تحریر ہوتے ہیں لیکن اتنی چھوٹے حروف میں ہوتے ہیں کہ صارفین اس پر توجہ بھی نہیں دیتے۔‘

آشم سانیال مثال دیتے ہیں کہ لاطینی امریکی ممالک نے فرنٹ لیبلنگ شروع کر دیا ہے جس سے لوگوں کی کھانے کی عادتیں بدل گئی ہیں کیونکہ وہ باشعور ہو چکے ہیں۔

اس بات پر بھی مباحثہ جاری ہے کہ اگر لیبلنگ میں معلومات دی جائیں تو اس سے سیلز متاثر ہوں گی۔ اس کے جواب میں آشم سانیال کا کہنا ہے کہ سگریٹ اور تمباکو پر وارننگ دی گئی ہے، کیا اس سے ایسی مصنوعات کی فروخت بند ہوئی ہے؟

ساتھ ہی ڈاکٹر ارون گپتا کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں سب سے بڑا رول حکومت کا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں ’حکومت کی ذمہ داری سب سے بڑی ہے۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا، معاشرے اور اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ پھر لوگوں کی مرضی کہ وہ کیا کریں۔‘

ڈاکٹر ارون گپتا کا کہنا ہے کہ جس طرح انڈیا میں دو سال تک کے بچوں کے لیے بچوں کے کھانے کی تشہیر پر پابندی لگا دی گئی ہے، اسی طرح اضافی نمک، چینی اور چکنائی والے اجزا کے حوالے سے گمراہ کن تشہیر پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ کیا نقصان دہ ہے۔ شاید لوگ اس کے باوجود کھاتے رہیں، لیکن وہ جان لیں گے کہ انھیں ان چیزوں میں سے کم کھانا چاہیے۔‘

ڈاکٹر ارون گپتا کے مطابق: ’اس طرح کی پالیسیاں انڈسٹری کو یہ پیغام بھی دیتی ہیں کہ اگر وہ پروسیسڈ فوڈ بنا کر منافع کماتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن منافع کمانا اور لوگوں کی صحت سے کھیلنا بھی درست نہیں ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More