ایسی خارش جو انسان کا سکھ چین چھین لیتی ہے اور رات کو سونے تک نہیں دیتی

بی بی سی اردو  |  Jan 27, 2024

Getty Images

خارش یا کھجلی کا شمار عام طور سنگین بیماریوں میں نہیں ہوتا۔ آپ کو اپنے آس پڑوس میں شاید ہی کوئی ایسا ملے جو اسے ایک سنگین بیماری سمجھتا ہو۔ لیکن اگر خارش کی بیماری طول پکڑ لے اور دائمی ہو جائے تو یہ کسی متاثرہ شخص کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

خارش یا کھجلی کی ایک خاص قسم بھی ہوتی ہے جسے آپ محض خارش نہیں کہہ سکتے، اس قسم کی خارش انسان کا چین و سکون چھین سکتی ہے۔

اس پر یقین کرنا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن خارش کی ایک شکل ایسی ہوتی ہے جس میں انسان کو مسلسل خارش ہوتی رہتی ہے اور بار بار کھجانے کے باوجود وہ کم نہیں ہوتی۔ باربار اور زور زور سے کھجانے کی وجہ سے اس شخص کا کھجلی سے متاثرہ حصہ خون آلود بھی ہو جاتا ہے لیکن اسے سکون نہیں ملتا ہے۔

اس بیماری کا ذکر کرتے ہوئے میکس ہاسپٹل گروپ کے ڈرماٹولوجسٹ (ماہر جلد) ڈاکٹر سوربھ جندل کہتے ہیں: ’اگرچہ اس کے کیسز کم ہیں، لیکن ایسا ہر کیس اپنے آپ میں سنگین ہے۔‘

’ہمارے پاس آنے والے مریضوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خارش کو کم کرنے کے لیے جسم کے اس حصے کو موم بتی سے جلا بھی دیتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صورت حال کتنی سنگین ہو سکتی ہے۔‘

طبی اصطلاح میں اسے پروریگو نودولائرس (پی این) کہا جاتا ہے۔ یہ شدید خارش کی حالت ہے جو عام طور پر چھ ہفتوں تک رہتی ہے۔

خارش کے ساتھ جسم پر دانے دار گانٹھیں بھی نمودار ہوتی ہیں جنھیں نوڈول کہتے ہیں۔ ان گانٹھوں میں بافتے بنتے ہیں جو خارش کی خواہش کو بڑھاتے رہتے ہیں۔

کئی بار مریض کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ کوئی اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتا، نہ آرام سے بیٹھ سکتا ہے اور نہ ہی سکون سے سو سکتا ہے۔

مسلسل کھجانے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی جلد پر زخم پڑ جاتے ہیں اور خون بھی بہنے لگتا ہے لیکن آرام نہیں آتا ہے۔ خارش اتنی شدید ہوتی ہے کہ مریض کو سوزش اور چبھن محسوس ہوتی ہے۔

Getty Imagesمتعدی بیماری نہیں

پی این کی بیماری میں خارش کا سامنا کرنے والے شخص کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سی چیونٹیوں نے انھیں بیک وقت کاٹنا شروع کر دیا ہو۔ یہ اچانک شدید خارش سے مختلف حالت ہے کیونکہ اس میں خارش مسلسل محسوس ہوتی ہے۔

تاہم، یہ راحت کی بات ہے کہ یہ متعدی بیماری نہیں ہے، یعنی یہ کسی کے چھونے یا قریب آنے سے نہیں پھیلتی۔ شاید اس لیے بھی اسے نایاب بیماری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

امریکن نیشنل آرگنائزیشن آف ریئر ڈس آرڈرز (نورڈ) کے اعداد و شمار کے مطابق یہ بیماری دنیا کے مختلف حصوں میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے 22 سے 72 افراد میں پائی جاتی ہے۔

اس سے متاثر ہونے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 40 سے 69 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔

یہی نہیں خواتین بھی اس قسم کی خارش کا شکار ہوجاتی ہیں۔ نورڈ کے مطابق اس بیماری کے ہر 100 کیسز میں سے تقریباً 54 خواتین ہیں۔

پی این کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اس کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ یہ متعدی نہیں ہے۔

Getty Imagesدائمی خارش

بہر حال یہ جلد کی دوسری بیماریوں جیسے ایگزیما اور سیروسس تھوڑی زیادہ سنگین حالت ہے۔ اس کے علاوہ یہ گردے، جگر اور لمفوما جیسی بیماریوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

اس بیماری کے بارے میں نیویارک کے ماؤنٹ سینائی کے آئیکن سکول آف میڈیسن کے نیورو امیونولوجسٹ برائن کم نے بی بی سی فیوچر کو بتایا: ’لوگ شدید اور دائمی خارش کو شدید درد سمجھتے ہیں، لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’شدید درد کی صورت میں بھی دس میں سے چھ لوگ سو جاتے ہیں لیکن پی این کی صورت میں ایک لمحے کو بھی آرام نہیں آتا۔ لوگ ساری رات جلد پر کھجلی کرتے رہتے ہیں۔‘

خارش کو طبی طور پر سب سے پہلے 360 سال قبل ایک بیماری کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔ لیکن ان تمام سالوں میں اس کے علاج کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ماہرین بھی شدید خارش اور شدید درد میں فرق نہیں کر سکے۔

Getty Imagesخارش کے اساب کیا ہیں؟

سنہ 1920 کی دہائی میں پہلی بار دنیا کو دو حالتوں کے درمیان فرق کے بارے میں معلوم ہوا - شدید خارش اور شدید درد۔

آسٹرین۔ جرمن ماہر فزیالوجسٹ میکس وون فرائی نے جسم میں ایک چھوٹا عضو دریافت کیا جس کی وجہ سے خارش کے کچھ دیر بعد درد محسوس ہوتا ہے۔

ایک طویل وقفے کے بعد سنہ 2007 میں واشنگٹن یونیورسٹی میں سکول آف میڈیسن کے زیو فینگ شین کی قیادت میں ایک ٹیم نے انسانی ریڑھ کی ہڈی میں موجود اعصابی خلیات دریافت کیے جو جسم میں خارش کا باعث بنتے ہیں۔

چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ جب ان خاص خلیات کو نکالا گیا تو انھوں نے اپنے جسم کو کسی بھی طرح سے نہیں کھجایا، حالانکہ انھیں درد محسوس ہوا تھا۔

درحقیقت اس تجربے کی وجہ سے سائنسدانوں نے ایسے نیورونز دریافت کیے جن کے ذریعے خارش کا احساس دماغ تک پہنچتا ہے۔

اس کے بعد سنہ 2017 میں واشنگٹن یونیورسٹی کے سینٹر فار دی سٹڈی آف ایچ اینڈ سینسری ڈس آرڈرز میں کام کرنے والے ڈاکٹر برائن کم اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ جلد میں سوزش کی وجہ سے مدافعتی خلیات میں آئی ایل-4 اور آئی ایل-13 نامی کیمائی اجزا خارج ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کھجلی یا خارش کا احساس ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبہ ڈرمیٹولوجی کے پروفیسر مارلیس فوسیٹ نے بی بی سی فیوچر کو بتایا کہ ڈاکٹر برائن کم کی تحقیق میں ایسے مالیکیولز بھی دریافت ہوئے ہیں جو ان نیورونز کی سرگرمی کو کم کرتے ہیں۔

ان مسائل پر تحقیق کرتے ہوئے فوسیٹ نے سنہ 2023 میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق آئی ایل-31 ایک ایسا کیمیکل ہے جس کی سرگرمی کو کم کر کے خارش کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ان کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جسم میں اس کیمیکل کو کم کرکے خارش کے احساس کو کم کیا جاسکتا ہے۔

فوسیٹ اپنی نئی تحقیق کے بارے میں بتاتی ہیں: ’آئی ایل-31 کیمیکل کو کنٹرول کرنے والی دوا کا ایک اثر یہ ہو سکتا ہے کہ یہ مدافعتی نظام کو تباہ کر سکتی ہے اور اگرچہ اس سے خارش محسوس نہیں ہوتی لیکن سوزش بے قابو ہو سکتی ہے۔‘

Getty Imagesایسی خارش کا علاج کیا ہے؟

دراصل سائنسدان اس قسم کی خارش پر قابو پانے کے لیے دوائیں تیار کرنے کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نیمولیزوماب کے فیز دوم اور سوم کے ٹرائلز حال ہی میں مکمل ہوئے ہیں۔

اس طرح کی خارش میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے ڈوپیلوماب کا استعمال امریکہ جیسے ممالک میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ اسے حال ہی میں آئی ایل-4 اور آئی ایل-13 دونوں کیمیکلز کو کنٹرول کرنے کا لائسنس ملا ہے۔

اس کے علاوہ ای پی 262، ایبروسٹینب اور اباڈاسیٹنب کے ذریعے خارش کے علاج کے لیے بھی ٹرائلز جاری ہیں۔

گذشتہ سال یونیورسٹی آف ملر سکول آف میڈیسن میں ڈرمیٹولوجی کے پروفیسر اور ڈاکٹر گل یوسیپووچ نے ڈاکٹر برائن کم کی ٹیم کے ساتھ پی این کے علاج کے لیے ڈوپیلومیب کے استعمال کے دو مراحل میں تین ٹرائلز مکمل کیے۔

24 ہفتوں تک جاری رہنے والے ایک تجربے میں دیکھا گیا کہ ڈوپیلومیب کے استعمال سے 60 فیصد مریضوں میں خارش کم ہوئی۔ اس تجربے کے بعد ہی ٹرائل کے شرکاء میں خارش میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔

اس کے بعد اب یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن نے ڈوپیلومیب کو پی این خارش کے مریضوں کے علاج کے لیے منظور کر لیا ہے۔

ڈاکٹر یوسیپووچ کہتے ہیں: ’پروریگو نوڈولرس سب سے زیادہ خارش والی حالتوں میں سے ایک ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس کا کوئی موثر علاج نہیں تھا، اس لیے مریضوں کو بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ لیکن اب انھیں امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔‘

ایکان سکول آف میڈیسن میں کام کرنے والے ڈاکٹر برائن کم کی نئی لیب نوٹالجیا پیرستھیٹیکا کے علاج کے لیے ڈیفیکیلیفالن نامی دوا کی جانچ کر رہی ہے۔ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن نے بھی اس کی منظوری دے دی ہے۔

ظاہر ہے یہ دوائیں امید افزا ہیں۔ لیکن یہ سب ابھی تک تجربات کے مرحلے میں ہیں۔ جیسا کہ یوسیپووچ کہتے ہیں کہ ان ادویات کو عام لوگوں تک پہنچنے میں کم از کم پانچ سال لگیں گے۔

ڈاکٹر سوربھ جندل کہتے ہیں کہ ’امریکہ میں ان ادویات کو عام لوگوں تک پہنچنے میں پانچ سال لگیں گے، جب کہ انڈیا جیسے ممالک میں کم از کم دس سال لگیں گے۔ لیکن میڈیکل سائنس کے نقطہ نظر سے یہ تجربات بہت اہم ہیں۔‘

Getty Imagesخارش کرنے میں کبھی مزہ بھی آتا ہےکن چیزوں کا خاص خیال رکھا ہے؟

اس کے جواب میں کہ ڈاکٹر سوربھ جندل پی این کی خارش کے مریضوں کے علاج کے متعلق کہا کہ کہ جلد کی دیکھ بھال کی ضروری ہے۔ انھوں نے مندرجہ ذیل باتوں کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے:

1۔ پہلے وہ چیک کرتے ہیں کہ آیا مریض کو خون، جگر اور گردے سے متعلق کوئی مسئلہ تو نہیں۔ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مریض کو کن چیزوں سے الرجی ہے۔

2۔ کھجلی کو کم کرنے کے لیے دوائیں دستیاب ہیں، لیکن وہ پی این کے مریضوں میں زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں خارش بڑھ جاتی ہے اور ایک قسم کا سلسلہ بن جاتا ہے۔ وہ مریضوں کو سمجھاتے ہیں کہ وہ خارش سے حتی الامکان بچیں۔

3۔ پی این کے بارے میں ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف وہاں ہوتا ہے جہاں ہاتھ پہنچ سکتا ہے، یعنی خارش کھجانے سے شروع ہوتی ہے۔ اگر ہاتھ کمر کے اوپری حصے تک نہ پہنچتا ہے تو وہ وہاں نہیں ہوتی۔ وہ مریضوں کو سمجھاتے ہیں کہ وہ اپنے ناخن چھوٹے رکھیں اور مٹھی بند رکھیں۔

4۔ وہ خارش والی جگہ پر اچھے معیار کا موئسچرائزر لگاتے رہنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ خشک جلد میں یہ مسئلہ بڑھ سکتا ہے۔

5۔ اس بیماری کا ابھی تک کوئی روایتی علاج نہیں ہے، اس لیے طویل مدتی علاج احتیاط کے ساتھ کرنا ہوگا۔ بعض اوقات یہ مریضوں کے لیے تکلیف دہ بھی ہو سکتا ہے، وہ ڈپریشن میں جا سکتے ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ کی بھی کونسلنگ کی جاتی ہے۔

6۔ درمیانی عمر کی خواتین کو مردوں کے مقابلے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جسمانی سطح سے لے کر جذباتی سطح تک ان کے جسم کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بیماری سے صحت یاب ہونے کے طویل عمل کے پیش نظر خواتین اس کے علاج سے گریز کرتی ہیں جبکہ انھیں طبی مشورہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More