شناسا چہرے بھولنے کی کیفیت: ’جب مجھے کوئی جاننے والا نظر آتا تو میں یہ سوچتی رہتی کہ یہ کون ہے؟‘

بی بی سی اردو  |  Jan 26, 2024

Getty Images

’چند ماہ پہلے ایک شخص میرے سامنے آیا جو میرے لیے اجنبی سا تھا لیکن وہ مجھے دیکھ کر ایسے مسکرایا جیسے مجھے جانتا ہو۔ میں گھبرا گئی اور میں نے سوچا کہ مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیے۔‘

’اس کی مسکراہٹ نے میری اس کیفیت کو بڑھاوا دیا جو روزانہ مجھے تنگ کرتی ہے۔ یعنی میں لوگوں کے چہرے یاد نہیں رکھ پاتی۔‘

بی بی سی کی صحافی نتالیا گوریرو نے ایک ایسی کیفیت کو بیان کیا ہے جس میں لوگ اجنبی لگتے ہیں اور چہروں کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔

’میرے ساتھ کئی برسوں تک ایسا ہوتا رہا کہ جب مجھے کوئی نظر آتا تو میں سوچتی یہ کون ہے؟ کیا میں اسے جانتی ہوں؟ کیا یہ میرے ساتھ کام کرتے ہیں؟ میں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتی اور مجھے حیرت ہوتی کہ اگر یہ میرے ساتھ کام کرتے ہیں تو میں ان کو پہچان کیوں نہیں پاتی۔‘

’پروسوپاگنوسیا‘ کیا ہے؟Getty Images

اگر آپ بھی کسی کے چہرے کو یاد نہیں رکھ پاتے تو جان لیں کہ اس کیفیت کو نفسیات کی زبان میں ’پروسوپاگنوسیا‘ کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں ایسا بھی ممکن ہے کہ چہرہ تو یاد رہے لیکن شناخت کرنا مشکل ہو۔

ڈاکٹر سونیا لال گپتا انڈیا میں نوئیڈا کے میٹرو ہسپتال میں نیورالوجسٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کیفیت موروثی بھی ہو سکتی ہے۔‘

’دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر کسی دماغی چوٹ کے نتیجے میں یہ کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر روپالی شیوالکر دلی کے سینٹ سٹیفن ہسپتال میں شعبہ نفسیات کی سربراہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ کیفیت تب پیدا ہوتی ہے جب دماغ کے دائیں طرف کے حصے کو خون کی فراہمی میں کمی ہو کیونکہ دماغ کا یہی حصہ چہروں کو یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘

ڈاکٹر روپالی کے مطابق ایم آر آئی سکین کے ذریعے دماغ کے اس حصے میں تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے جس سے اس کیفیت کا تعین کیا جاتا ہے۔

تاہم ان کے مطابق موروثی پروسوپاگنوسیا میں یہ تبدیلی نہیں ہوتی کیوں کہ بچوں میں دماغ کا یہ حصہ وقت کے ساتھ بن ہی نہیں پاتا۔

ہاورڈ میڈیکل سکول کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر 33 میں سے ایک فرد اس کیفیت سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہے۔ یعنی دنیا کے تقریبا 3.8 فیصد لوگ اس مسئلے کا سامنا کرتے ہیں۔

ماہر حیاتیات جین گوڈال، ہالی وڈ اداکار بریڈ پٹ، انڈین اداکارہ شہناز ٹریژروالا اس کیفیت سے متاثر ہیں اور ماضی میں اس بارے میں کُھل کر بات بھی کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر روپالی کے مطابق انڈیا میں یہ کیفیت دو سے تین فیصد لوگوں میں پائی جاتی ہے۔

Getty Imagesپروسوپاگنوسیا کے مراحل

بی بی سی صحافی نتالیا اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میری کیفیت اتنی زیادہ سنجیدہ نہیں کہ میں لوگوں کے چہرے ہی نہ پہچان پاؤں۔ میں اپنے خاندان، زیادہ تر دوستوں اور دفتر کے ساتھیوں کو پہچان لیتی ہوں۔‘

ڈاکٹروں کے مطابق اس کیفیت کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر روپالی کا کہنا ہے کہ ’پہلے یہ خیال تھا کہ بچوں میں موروثی پروسوپاگنوسیا کا تعلق آٹزم سے ہے۔ تاہم تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دو مختلف کیفیات ہیں۔‘

امریکی حکومت کی نیورولاجیکل ڈس آرڈر سے متعلقہ ویب سائٹ کے مطابق پروسوپاگنوسیا کی ایک اہم علامت چہروں کو پہچاننے میں مشکل ہوتی ہے۔ متاثرہ افراد کو مختلف چہروں میں تفریق کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔

اس کیفیت کی بہت سی اور علامات بھی ہو سکتی ہیں جیسا کہ:

چند لوگوں کو مانوس چہرے پہچاننے میں مشکل ہوتی ہےکچھ افراد کو غیر مانوس چہروں میں تفریق کرنے میں مشکل ہوتی ہےکچھ لوگ کسی شخص کے چہرے اور کسی شے کے درمیان تفریق نہیں کر پاتےچند لوگ خود اپنی شکل ہی نہیں پہچان پاتےاس کے علاوہ اس بیماری سے متاثرہ چند افراد چہروں کے تاثرات نہیں پہچان پاتے یا انھیں فلموں یا ٹی وی پر اداکاروں کو پہچاننے میں مشکل ہوتی ہےزندگی پر اثرGetty Images

نتالیا کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ اس کیفیت کے شکار افراد کو انجانے میں ’مغرور‘ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بطور صحافی ان کو لوگوں سے ملنا ہوتا ہے لیکن انھیں اس کیفیت کی وجہ سے مشکل ہوتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ایک بار وہ امریکہ کے شہر نیو یارک میں ایک منشیات سمگلر کے بارے میں خبر پر کام کر رہی تھیں لیکن ’میں عدالت میں اپنے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کے چہرے ہی نہیں پہچان پا رہی تھی۔‘

’ایک دن تین لوگ ایک ساتھ بیٹھے تھے اور تینوں تیس سال سے زیادہ عمر کے تھے اور ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ تینوں نے مختلف قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھے لیکن مجھے وہ تینوں ایک جیسے لگ رہے تھے۔ میں فوری طور پر وہاں سے نکل گئی۔‘

ڈاکٹر روپالی شیوالکر کہتی ہیں کہ ’یہ کیفیت متاثرہ فرد کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اس سے ذہنی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر سونیا لال گپتا کہتی ہیں کہ ’اس کیفیت کا کوئی باقاعدہ علاج نہیں۔ ایسے میں طبی طور پر کوشش کی جاتی ہے کہ متاثرہ فرد دوسروں کو پہچاننے کا منفرد طریقہ اپنا سکے۔‘

’اگر یہ کیفیت کسی چوٹ یا زخم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے تو پھر اس بنیادی مسئلے کی تشخیص کی جاتی ہے اور دوائی دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر دماغ میں سوزش ہے تو دوا کے ذریعے سوزش کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘

متاثرہ فرد کو کیا کرنا چاہیے؟

یاد رہے کہ ایسی کیفیت سے متاثرہ افراد چند ایسی عادات اپنا سکتے ہیں جن سے ان کی زندگیآسان ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر روپالی مشورہ دیتی ہیں کہ ’کسی سے ملاقات سے پہلے انھیں اپنی کیفیت کے بارے میں آگاہ کریں، دوستوں کو بتائیں کہ جب بھی وہ آپ سے ملیں تو وہ اپنا تعارف کروائیں، کسی سے ملاقات کریں تو اُن سے کہیں کہ وہ اپنے بارے میں آپ کو آگاہ کریں کہ وہ کون ہیں اور لوگوں کو ان کے چہرے کے بجائے ان کی آواز اور حرکات کی مدد سے پہچاننے کی کوشش کریں۔‘

نتالیا کہتی ہیں کہ ’لوگوں کو نظر انداز کرنا بہت بُرا لگتا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ لوگ مجھ سے مل کر ایسا محسوس کریں کہ میں انھیں نظر انداز کر رہی ہوں۔ لیکن میں بتانا چاہتی ہوں کہ ہم جیسے لوگوں کو غلط سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ہماری زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔ میں سب سے دوستانہ رویہ رکھنا چاہتی ہوں اور کسی سے یہ پوچھتے ہوئے ہچکچانا نہیں چاہتی کہ وہ کون ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More