افغانستان میں آثار قدیمہ کو لوٹنے کے لیے ’بلڈوزرز کا استعمال‘، 1000 سال قبل مسیح کی بستیاں بھی نشانے پر

بی بی سی اردو  |  Jan 26, 2024

Getty Imagesافغانستان کے صوبہ بلخ میں آثار قدیمہ کے متعدد مقامات ہیں

شکاگو یونیورسٹی کے محققین کے مطابق افغانستان کے درجنوں آثار قدیمہ کے مقامات کو مسلسل لوٹنے کے لیے ’بلڈوز‘ کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل کی جانے والی تصاویر میں واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دورِ حکومت سے شروعہونے والا لوٹ مار کا یہ سلسلہ سنہ 2021 میں آنے والی طالبان کی حکومت کے بعد بھی جاری ہے۔

ان میں سے کچھ بستیاں 1000 سال قبل مسیح کے زمانے کی ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی بلڈوز ہونے والی عمارتوں میں شامل ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر مقامات شمالی افغانستان کے بلخ کے علاقے میں ہیں۔ یہ علاقہ دو ہزار سال قبل باختر کا مرکز تھا۔

یہ چھٹی صدی قبل مسیح میں ہخامنشی سلطنت کے تحت قدیم افغانستان کے امیر ترین اور سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں سے ایک تھا۔

327 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے ہخامنشی سلطان کو شکست دے کر اس علاقے کو فتح کر لیا تھا اور باختری خاتون رخسانہ سے شادی کر لی تھی۔

BBC

اس خطے کا مرکزی شہر باخترا زرتشت اور بدھ مت مذاہب کا مرکز رہ چکا ہے۔ باخترا کا نام اب بلخ ہے۔

شکاگو یونیورسٹی کے ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے سینٹر کے محققین نے سیٹلائٹ کی تصویروں اور دیگر آلات کی مدد سے پورے افغانستان میں 29,000 سے زیادہ آثار قدیمہ کی جگہوں کی نشاندہی کی ہے۔

لیکن انھوں نے سنہ 2018 کے بعد سے بلخ کے علاقے میں ایک نیا رجحان دیکھا۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے تصاویر پر ایسے دھبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے بارے میں انھیں یقین ہے کہ وہ بلڈوزر ہیں، کیونکہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتے اور غائب ہو جاتے ہیں اور ان کے پیچھے چھوڑے جانے والے پٹریوں کے نشان بھی نظر آتے ہیں۔

مرکز کے ڈائریکٹر پروفیسر گل سٹائن وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان تازہ بلڈوز کیے گئے علاقے میں لٹیروں کے ہاتھوں کھودے گئے گڑھے نظر آتے ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا ’بنیادی طور پر، یہ لوگ منظم طریقے سے سائٹ کو لوٹنا آسان بنانے کے لیے وسیع علاقوں کو صاف کر رہے تھے۔‘

BBC

ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ سنہ 2018 اور سنہ 2021 کے درمیان 162 قدیم بستیوں اور اہم ثقافتی اہمیت کے مقامات کو ’ایک ہفتے میں ایک حیران کن شرح سے تباہ اور نقصان‘ پہنچایا گیا اور اس کے بعد طالبان کے دور میں 37 مقامات پر تباہی کا یہ افسوس ناک عمل جاری رہا۔

ممکنہ لٹیروں کو معلومات نہ دینے کے لیے محققین صحیح مقامات کی تفصیلات کو شائع نہیں کر رہے۔

جبکہ بہت سارے مقامات کی تفصیلات کو دستاویز میں درج کرنے کا عمل ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ محققین کو اس بارے میں معلومات نہیں ہیں کہ ان مقامات میں کیا دفن ہے اور کون سے نوادرات پوشیدہ ہیں، جو کہ بنیادی طور پر ٹیلے، قلعے، سڑک کے کنارے والے ابتدائی سرائے ہیں۔

لیکن صرف 97 کلومیٹر دور طلا تپه کا مقام ہے جہاں سنہ 1978 میں دو ہزار سال پرانے بختری سونے کا ذخیرہ دریافت ہوا تھا۔

’سونے کی پہاڑی‘ میں 20,000 نایاب چیزیں تھیں جن میں سونے کے زیورات، ایک تاج اور سکے شامل تھے۔ جنھیں اب افغانستان کے کھوئے ہوئے خزانے کے نام سے جانا جاتا ہے۔

Getty Imagesطلاتپه سے ملنے والے 2000 سال پرانے بختیری سونے کے ذخیرے میں شامل ایک تاج

کیمبرج یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو سید رضا حسینی کا کہنا ہے کہ ’آپ ہر ٹیلے میں تہذیب کی تہوں کا پتہ لگا سکتے ہیں، آپ جس بھی ٹیلے کو ہاتھ لگائیں وہ آپ کو تاریخ اور ثقافت کے ایک اور منفرد اور شاندار دور میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔‘

رضا حسینی بلخ میں پیدا ہوئے، انھوں نے اپنی جوانی کا کچھ حصہ ایک رضاکار کے طور پر شمالی افغانستان میں آثار قدیمہ کے مقامات کا سروے کرنے میں گزارا۔ جن مقامات کا انھوں نے سروے کیا تھا ان میں سے کچھ محققین کے بقول بلڈوز کر دیے گئے ہیں۔ شکاگو یونیورسٹی کی تصاویر دیکھ کر رضا چونک گئے۔

انھوں نے کہا کہ ’جب میں اس کے بارے میں سنتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میری روح مر رہی ہے۔‘

اس بات کا جواب واضح نہیں ہے کہ اس تباہی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔

پروفیسر سٹائن کا کہنا ہے کہ ’یہ بات اہم ہے کہ یہ سلسلہ سابق صدر اشرف غنی کے دورِ حکومت میں شروع ہوا اور طالبان کے دور میں بھی جاری رہا۔‘

اشرف غنی کی حکومت کمزور تھی اور ملک کے کچھ حصوں پر اس کا مکمل کنٹرول نہیں تھا۔

سنہ 2021 میں دارالحکومت کابل پر قبضے سے پہلے شمالی افغانستان کے سب سے بڑے شہر مزار شریف سمیت بلخ ان پہلے علاقوں میں سے تھا جو طالبان کے کنٹرول میں آ گئے۔

BBC

پروفیسر سٹائن کا ماننا ہے کہ امیر اور طاقتور لوگ ہی ایسا کام کر سکتے ہیں جن کے پاس اس قسم کے آلات خریدنے یا کرائے پر لینے کے وسائل ہیں اور وہ بغیر کسی کی ’مداخلت‘ کے انھیں دیہی علاقوں میں لے کر جا سکتے ہیں۔

رضا حسینی کا کہنا ہے کہ ’کچھ آثار قدیمہ کے مقامات کو سنہ 2009 میں ان کے ملک سے نکلنے سے پہلے لوٹا جا رہا تھا۔‘

انھوں نے بتایا ’کوئی بھی مقامی طاقتور لوگوں اور ملیشیا کی اجازت کے بغیر کھدائی نہیں کر سکتا۔‘

’ان کے لیے تاریخی اہمیت اہم نہیں ہے، وہ کھودتے ہیں اور جو ملتا ہے وہ تباہ کر دیتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ چیزوں کو ڈھونڈنے کے لیے چھلنی کا بھی استعمال کرتے ہیں۔‘ (’چھلنی‘ جس کی مدد سے آٹے میں سے کنکر نکالے جاتے ہیں)

ان کا کہنا ہے کہ وہ کبھی ایک قدیم مقام تک آثار قدیمہ کی رسائی کو محفوظ بنانے کی کوششوں کا حصہ تھے جہاں ایک ملیشیا کمانڈر افیون لگا رہا تھا۔

سنہ 2001 میں طالبان نے دنیا کو حیران کر دیا جب انھوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں 1500 سال پرانے بامیان میں موجودہ دنیا کے سب سے بڑے بدھا کے بتوں کو تباہ کر دیا تھا۔

دو دہائیوں بعد جب وہ ایک بار پھر اقتدار میں آئے تو انھوں نے کہا کہ وہ ملک کے قدیمی ورثے کا احترام کریں گے۔

قائم مقائم نائب وزیر اطلاعات عتیق اللہ عزیزی آثار قدیمہ کو لوٹے جانے کے دعوے کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں 800 لوگوں پر مشتمل ایک یونٹ کو تاریخی مقامات کی دیکھ بھال کر تعینات کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کچھ تنظیموں نے وزارت کو ’بلڈوزر کی حرکت اور مٹی کو منتقل کرنے والے افراد‘ کے حوالے سے تصاویریں بھیجی ہیں، لیکن انھوں نے کہا کہ ’ہم نے ان مقامات کی جانچ پڑتال کے لیے مختلف ٹیمیں بھیجی ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان مقامات میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا ہے۔‘

اس کے علاوہ طالبان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ گذشتہ ستمبر میں تین ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن پر مجسمے، ممیوں، ایک سنہری تاج، ایک کتاب اور تلواروں سمیت تقریباً 27 ملین ڈالر مالیت کے نوادرات کو سمگل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام تھا۔

اس کا کہنا ہے کہ ان اشیا کو قومی عجائب گھر کے حوالے کر دیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔

میں نے عتیق اللہ عزیزی کا مؤقف پروفیسر سٹائن تک پہنچایا۔ جس پر انھوں نے جواب دیا ’میں قیاس نہیں کر سکتا کہ لوگ اس سے انکار کیوں کریں گے، سوائے اس کے کہ ثبوت کا سامنا کرنے سے شرمندگی ہوتی ہے۔‘

’ہم دکھا سکتے ہیں کہ دو بالکل مختلف سیاسی حکومتوں میں بھی تسلسل موجود تھا۔‘

پروفیسر سٹائن کا خیال ہے کہ لوٹے گئے نوادرات افغانستان سے ایران، پاکستان اور دیگر ممالک کے راستے سمگل کیے جاتے ہیں اور پھر یورپ، شمالی امریکہ اور مشرق بعید میں پہنچ جاتے ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ بغیر نام اور عنوان ان میں سے کچھ چیزوں کی دنیا بھر میں نیلامی اور عجائب گھروں میں نمائش کی جا سکتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اگر ان کا کبھی کیٹلاگ نہیں کیا گیا ہے تو ان کا پتا لگانا مشکل ہے، لیکن ان کا خیال ہے کہ کوشش کرنا اور ان مقامات کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔ ان مقامات سے اور بھی بہت کچھ مل سکتا ہے۔

پروفیسر سٹائن کہتے ہیں ’افغانستان کا ورثہ درحقیقت دنیا کا ورثہ ہے جو ہم سب کا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More