سائنسدان پہلی بار آئی وی ایف کی مدد سے گینڈے کو حاملہ کرنے میں کامیاب

بی بی سی اردو  |  Jan 25, 2024

Jan Zwilling

فرٹیلیٹی (بچے پیدا کرنے کی صلاحیت) کی ایک پیشرفت نے معدومیت کے شکار شمالی سفید گینڈے کی نسل کو بچانے کی اُمید پیدا کی ہے۔ اس وقت زمین پر یہ اپنی قسم کے صرف دو جانور باقی رہ گئے ہیں۔

سائنسدانوں نے آئی وی ایف ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کے پہلے گینڈے کو حاملہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، اس طریقہ کار کی مدد سے گینڈے کے لیبارٹری میں تیار کردہ جنین کو سروگیٹ ماں میں کامیابی سے منتقل کر دیا گیا ہے۔

یہ عمل جنوبی سفید گینڈوں کے ساتھ کیا گیا تھا، جو شمالی سفید گینڈوں کی ایک ذیلی قسم ہے۔

اگلا مرحلہ شمالی سفید ایمبریو کے ساتھ اس کو دہرانا ہے۔

جرمنی کے لیبنیز انسٹیٹیوٹ فار زو اینڈ وائلڈ لائف ریسرچ کی سائنسدان سوزین ہولٹزی کا کہنا ہے کہ ’گینڈے میں جنین کی پہلی کامیاب منتقلی ایک بہت بڑا قدم ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ اس کامیابی کے ساتھ، ہم بہت پراعتماد ہیں کہ ہم اسی طرح شمالی سفید گینڈے کی نسل کی افزائش میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہم ان کی نسل کو بچانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔‘

Jan Zwilling

شمالی سفید گینڈے کسی زمانے میں وسطی افریقہ میں پائے جاتے تھے لیکن گینڈوں کے سینگ کی مانگ کی وجہ سے غیر قانونی شکار نے ان کا صفایا کر دیا۔

اب صرف دو گینڈے باقی رہ گئے ہیں: دو مادہ، نجن اور اس کی بیٹی فتو۔ چڑیا گھر کے ان دونوں سابق جانوروں کو کینیا کے اول پیجیٹا کنزروینسی میں سخت سکیورٹی میں رکھا گیا ہے۔

افزائشِ نسل کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے یہ نسل تکنیکی طور پر معدوم ہو چکی ہے لیکن اب بائیو ریسکیو ٹیم نے ان جانوروں کو تباہی کے دہانے سے واپس لانے کے لئے ریڈیکل فرٹیلٹی سائنس کی مدد حاصل کی ہے۔

انھوں نے جنوبی سفید گینڈوں کی مدد سے اپنا کام شروع کیا۔ شمالی سفید گینڈوں کے اس قریبی کزن کی آبادی ہزاروں میں ہے۔

اس منصوبے میں کئی سال لگے ہیں اور اسے بہت سے چیلنجز پر قابو پانا پڑا۔ دو ٹن کے جانوروں سے انڈے کیسے جمع کیے جائیں، لیبارٹری میں پہلی بار گینڈے کے ایمبریو بنانا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کہ انھیں کیسے اور کب استعمال کیا جائے گا۔

Jan Zwilling

جنوبی سفید گینڈوں کی مدد سے پہلا قابل عمل آئی وی ایف حمل حاصل کرنے کے لیے 13 کوششیں کی گئیں۔

سوزین ہولٹزی نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’اتنے بڑے جانور میں تولیدی نالی کے اندر جنین رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، جو جانور کے اندر تقریباً 2 میٹر تک ہوتی ہے۔‘

بیلجیئم کے چڑیا گھر سے تعلق رکھنے والی جنوبی سفید مادہ کے انڈے کا استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے اس جنین کو آسٹریا کے ایک نر گینڈے کے نطفے سے فرٹیلائز کیا گیا تھا اور اسے کینیا کی ایک جنوبی سفید سروگیٹ مادہ میں منتقل کیا گیا تھا جو حاملہ ہو گئی تھی۔

تاہم اس کامیابی کے بعد ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔

Jan Zwilling

’سروگیٹ مدر‘ حاملہ ہونے کے 70 دن بعد کلوسٹریڈیا کے انفیکشن سے ہلاک ہو گئی۔ کلوسٹریڈیا ایک جراثیم ہے جو کہ مٹی میں پایا جاتا ہے اور جانوروں کے لیے اکثر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

یہ موت ٹیم کے لیے ایک بڑا دھچکہ تھی۔ بعد میں پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ موت کے وقت ’سروگیٹ مدر‘ کی کوکھ میں 5۔6 سینٹی میٹر کا بچہ موجود تھا جس کے زندہ پیدا ہونے کے 95 فیصد امکانات تھے۔

لیکن اس سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ مادہ گینڈوں کو آئی وی ایف تکینک کے ذریعے حاملہ کرنا ممکن ہے۔ اب اگلے مرحلے میں یہ عمل سفید شمالی گینڈوں کے جنین پر آزمایا جائے گا۔

اب تک سفید شمالی گینڈوں کے جنین کے 30 محفوظ شدہ نمونے جرمنی اور اٹلی میں موجود ہیں۔ یہ نمونے کینیا میں موجود مادہ گینڈے اور دو شمالی سفید گیندوں کی موت سے قبل حاصل کیے گئے تھے تاہم سفید شمالی گینڈے کی پیدائش کا یہ پہلا سائنسی تجربہ ہوگا۔

BBC/Kevin Church

بچ جانے والے دو آخری سفید شمالی گینڈے بڑھتی ہوئی عمر اور صحت کے دیگر مسائل کے پیشِ نظر حاملہ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس وجہ سے جنین کے نمونے سفید جنوبی مادہ گینڈے کی کوکھ میں رکھے جائیں گے۔

آئی وی ایف کا تجربہ اس سے قبل ایک جانوروں کی دو قسموں پر نہیں کیا گیا لیکن اس پروجیکٹ پر کام کرنے والی ٹیم پرُاعتماد ہے کہ اُن کا تجربہ کامیاب ٹھہرے گا۔

بائیو ریسکیو کی ٹیم کو امید ہے کہ وہ جنین کی منتقلی آنے والے مہینوں میں کر پائیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس گینڈے کی پیدائش اس ہی وقت ہو جائے جب کچھ سفید شمالی گینڈے ابھی زندہ ہیں۔

’ہم ان جانوروں کی زبان کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں اور یہ سفید شمالی گینڈے کے بچے کو زمین پر اُتار کر ہی ہو سکتا ہے تاکہ وہ زندہ بچ جانے والے دو گینڈوں کے ساتھ وقت گزار سکے اور ان سے ان کی زبان سیکھ سکے، وہ کیسے برتاو کرتے ہیں یہ بھی سیکھ سکے۔‘

تحقیق کاروں کو اس بات کا بھی علم ہے کہ نمونوں میں مزید جانوروں کی جنیات شامل کر کے آئی وی ایف کے تجربے سے جانوروں کی دیگر قسموں کو نہیں بچایا جا سکتا۔

وہ ایک ہی ساتھ مزید تکنیکوں پر کام کر رہے ہیں تاکہ گینڈوں کی نسل کو آگے بڑھایا جا سکے اور مزید جنیاتی نمونے جمع کیے جا سکیں لیکن اس سفر میں سائنسی چیلنجز درپیش ہوں گے جن پر قابو پانے کی ضرورت ہوگی۔

Jan Zwilling

جنگلی حیات سے منسلک دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ اور وسائل جانوروں کی ایک ایسی قسم پر خرچ کرنا جو کہ معدومیت کا شکار ہے، کی بجائے دیگر جانوروں کو بچانے پر خرچ کیے جانے چاہییں۔

تاہم چیک ری پبلک میں بائیوریسکیو پروجیکٹ سے منسلک یان سٹیسکال کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ایک چیز سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سفید شمالی گینڈوں کی معدومیت کی وجہ انسان ہی ہیں اور یہ لالچ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تو اس طرح سے ہم بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں اور ہم اس تکینک کے ذریعے ان جانوروں کو بچانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More