کراچی سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور واقع اندرونِ سندھ کے شہر کوٹڑی کی ایک عدالت میں اس وقت غیر معمولی صورتحال پیش آئی جب کمرۂ عدالت میں ایک تیندوے کی لاش پیش کی گئی۔
دو روز قبل اس تیندوے کو کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ عدالت نے محکمہ جنگلی حیات کو ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے 14 روز کی مہلت دے دی ہے۔
محکمۂ جنگلی حیات کے انسپیکٹر غفار خان جمالی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں فون پر بتایا گیا کہ بچل سونھیرو گاؤں میں کچھ لوگوں نے تیندوے کو مار دیا ہے۔
یہ گاؤں کابھو پہاڑ کے قریب واقع ہے اور ایم نائن موٹروے سے 70 کلومیٹر دور ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جب وہاں پہنچے تو ایک دکان کے باہر تیندوا مردہ حالات میں موجود تھا اور لوگ تصاویر اور سیلفیاں بنا رہے تھے۔‘
غفار جمالی بتاتے ہیں کہ گاؤں کے رہائشیوں نے ان سے شکایت کی کہ تیندوے نے ان کی بکریاں ماری ہیں لیکن جب انھوں نے اس کا ثبوت مانگا تو مقامی لوگ وہ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔
مردہ تیندوے کی عدالت میں حاضری
محکمۂ جنگلی حیات نے تحفظ جنگلی حیات ایکٹ 2020 کے تحت تیندوے کے غیر قانونی شکار کا مقدمہ قادر بخش اور غلام حسین نامی مقامی لوگوں سمیت پانچ افراد کے خلاف دائر کیا ہے۔
مقدمے میں مدعی ’گیم واچر‘ نے بتایا ہے کہ مذکورہ ملزمان نے ایک نر چیتے کا شکار کیا اور جب ان کی ٹیم موقع پر پہنچی تو ملزمان مجمعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔‘
مردہ تیندوا کوٹڑی میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں محکمۂ جنگلی حیات کے حکام نے عدالت کو واقعے کے بارے تفصیلات بتائیں۔ عدالت نے 14 روز کے اندر ملزمان کی گرفتاری اور واقعے کی وجوہات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس کے بعد تیندوے کو کراچی میں محکمہ جنگلی حیات کے دفتر لایا گیا جہاں اس کا ابتدائی پوسٹ مارٹم کیا گیا۔
محکمے کے مطابق مزید تحقیق کے لیے وفاقی محکمہ کلائیمٹ چینج ڈویزن کے ماہرین کی ٹیم جمعرات کو اسلام آباد سے کراچی پہنچے گی اور اس کا جائزہ لے گی۔
کیرتھر میں تیندوا کہاں سے آیا؟
کیرتھر نیشنل پارک کراچی، جام شورو، دادو اور بلوچستان کے حب کے پہاڑی علاقوں پر پھیلا ہوا کیرتھر پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے جو 3,087 مربع کلومیٹروں پر پھیلا ہوا ہے۔
اس کو 1974 میں محفوظ مقام یا ’پروٹیکٹو ایریا‘ قرار دیا گیا تھا۔ ہنگول نیشنل پارک کے بعد یہ پاکستان کا دوسرا بڑا قومی پارک ہے۔
کیرتھر کے بیس لائن سروے کے مطابق یہاںہرن، جنگلی بکروں، پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کی 200 اقسام پائی جاتی ہیں، اس علاقے میں انسانی آبادی محدود ہے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جبکہ روڈ نیٹ ورک بھی دستیاب نہیں۔
’پاکستان کے ممالیہ ‘ کے مصنف ڈاکٹر تھامس جونز رابرٹس نے اپنی کتاب جو 1977 میں شائع ہوئی تھی، میں کیرتھر میں تیندوؤں کی موجودگی کا ذکر کیا تھا۔
اس بارے میں انھوں نے 1968 کے واقعے کا ذکر کیا ہے جس میں ڈاکٹر رضوی نامی شخص نے حب پہاڑی میں تیندوے کا شکار کیا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’کیرتھر کی کرچات پہاڑیوں میں اور قلات و مکران (بلوچستان) کے پہاڑی سلسلوں میں یہ تیندوے پائے جاتے ہیں۔‘
محکمۂ جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر رضوی کے بعد کیرتھر میں تیندوے کے شکار کا یہ دوسرا واقعہ ہے جبکہ پچھلے برسوں میں ریکارڈ پر ایسا کوئی اور واقعہ نہیں۔‘
انسپیکٹر جمالی 2012 سے محکمہ جنگلی حیات کے ملازم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سروے کے دوران انھوں نے پہاڑوں میں تیندوے کے قدموں کے نشان دیکھے تھے تاہم ان کے ساتھیوں کا موقف تھا کہ یہ لگڑ بگھے کے پیروں کے نشان ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ تیندوے کے پنجوں کے ہی نشان تھے۔‘
ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کنسلٹنٹ معظم خان کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران تیندوے کو بلوچستان میں دیکھا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’بلوچستان کا جو دہریجی اور کنراچ کا علاقہ ہے وہاں سے لے کر مکران کے ساحلی علاقے تک تیندوا پایا جاتا تھا اور وہاں سے یہ سفر کرتا کرتا نکل جاتا ہے کیونکہ یہ جانور بہت سفر کرتا ہے۔‘
محکمۂ جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر کہتے ہیں کہ ’کیرتھر میں تیندوے کی موجودگی کے تاریخی شواہد موجود ہیں۔ یہ مقامی جانور ہے اور مذکورہ تیندوا بھی صحت مند ہے یعنی یہ بھٹکا ہوا نہیں اگر ایسا ہوتا تو یہ کمزور نظر آتا۔ یہ اگر یہ بھٹکتا تو یہ مقامی طور پر کئی مقامات پر نظر آتا۔‘
محکمۂ جنگلی حیات کے حکام کا ماننا ہے کہ گذشتہ چند سال سے کیرتھر پر اچھی بارشیں ہوئی ہیں جس سے وافر مقدار میں شکار دستیاب ہے اس لیے تیندوے جیسے جانور سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں تیندوؤں کی چار اقسام پائی جاتی ہیں جن میں ہمالین اور پرشیئن نسل کے تیندوے شامل ہیں۔ ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے آئی یو سی این کی معدوم ہونے والے چرند پرند کی فہرست میں یہ تیندوے بھی شامل ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق تیندوے ہمارے ماحولیاتی نظام کے سب سے بڑے شکاری ہیں اور وہ ماحول کی صحت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سبزی خور جانوروں کی آبادی پر کنٹرول رکھتے ہیں اور غیر صحت مند جانوروں کو اس کے مسکن سے ہٹا دیتے ہیں۔