کیا ’فطرت کے مظہر‘ اِس برف پوش براعظم پر سیاحت کی غرض سے جانا ’اخلاقی‘ طور درست نہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jan 19, 2024

Getty Images

انٹارٹیکا کی برف پوش سرزمین پر کھڑا بوئنگ 787 ڈریم لائنر اور اس کے سامنے تصویر کھنچوانے کے لیے قطار میں کھڑا جہاز کا سٹاف، یہ ایک خوابناک منظر جیسا تھا۔ یہ گذشتہ سال کے اواخر میں برفیلے رن وے پر دنیا کے سب سے بڑے طیاروں میں سے ایک کی پہلی لینڈنگ کے موقع پر لی گئی تصویر تھی۔ یہ تصویر شاید انٹارکٹک کی سیاحت کے لیے ایک نئے سنگِ میل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

خوش قسمتی سے یہ فلائٹ سیاحوں کے بجائے انٹارٹیکا میں تحقیق کی غرض سے آنے والے ہونے والے ریسرچرز اور ان کے سازوسامان کو لے کر آئی تھی۔ اس سے پہلے سنہ 2021 میں ایئربس A340 کی ایک فلائیٹ یہاں اُتری تھی جو ایک ایڈونچر کیمپ کے لیے سامان لے کر آئی تھی۔

مگر دنیا کے سرد ترین براعظم جانے والے سیاحوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

انٹارٹیکا میں ٹورسٹ سیزن اکتوبر سے مارچ کے درمیان ہوتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر 2023 سے مارچ 2024 کے درمیان پہلی بار ایک لاکھ سے زائد افراد انٹارٹیکا جائیں گے۔ یہ گذشتہ سال سے تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے۔

اس سے یہ سوال مزید شدت اختیار کر گیا ہے کہ آیا سیاحوں کو انٹارٹیکا جانے کی اجازت ہونے چاہیے کہ نہیں۔

انٹارٹیک اینڈ ستھرن اوشن کولیشن نامی این جی او کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کلیئر کرسچنپچھلے 40 سال سے انٹارٹیکا کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اتنی تعداد میں سیاحوں کے آنے پر کافی لوگ تحفظات کا شکار ہیں۔

کرسچن کا ماننا ہے کہ اب نہ صرف سیاحت کی اس صنعت کو مناسب طریقے سے منظم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے انٹارٹیک کے تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول پر پڑنے والے اثرات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

انترنیشنل ایسوسی ایشن آف انٹارٹیک ٹورزم آپریٹرز کی فہرست پر اب تقریباً 95 جہاز ہیں جو امیر سیاحوں کو ’دنیا کے ہر ہر کوںے‘ سے لے کر یہاں پہنچتے ہیں۔

ان سے کئی جہاز ایک وقت میں 400 تک سیاحوں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انٹارٹیک آنے کے لیے یہ طیارے اکثر جنوبی امریکہ سے پرواز بھرتے ہیں۔

Getty Images

سیاحوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ٹور آپریٹرز کے درمیان زیادہ سے زیادہ بزنس حاصل کے مقابلے میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ اور اب انٹاٹیکا میں رویتی سیاحتی سرگرمیوں جیسا کہ پینگوئن اور سیل کی کالونیوں کا دورہ، آئس برگس، ہمپ بیکس وہیل اور آرکاس کے قریب سے نظاروں کے ساتھ ساتھ نئی سیاحتی سرگرمیاںبھی متعارف کروائی جا رہی ہیں۔

الزبتھ لین تسمانیہ یونیورسٹی میں انٹارٹیک سٹڈیزکی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہاں سیاحت کا شعبہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کشتی رانی، غوطہ خوری اور ہیلی کاپٹر کی سواری جیسی سرگرمیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں۔

انترنیشنل ایسوسی ایشن آف انٹارٹیک ٹورزم آپریٹرز کے ممبران دعویٰ کرتے ہیں کہ انٹارٹیک کا تحفظ اُن کے مشن کا حصہ ہے۔

ہیلی پیکوک گوور ’اورورا ایکسپیدیشن‘ کے چیف مارکیٹنگ آفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اینٹارٹک جیسی جگہوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے لوگوں کو ان جگہوں کے بارے میں آگاه کیا جائے۔

ان کا ماننا ہے کہ ان مہمات کا درست اور محفوظ طریقہ چھوٹی کشتیوں کے استعمال میں ہے جن کی سربراہی ایکسپرٹ یعنی ماہر کریں اور اس دوران ماحول کا خاص خیال رکھا جائے۔

Getty Images

کئی کمپنیوں نے ایسے جہاز متعارف کروائے ہیں جو عام جہازوں کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کم اخراج کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی مہمات کا ہر زاویے سے جائزہ لیتے ہیں۔

ڈیمین پیری ہرٹیگروٹین ایشیا پیسیفک کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم اس بات کا بھی خیال رکھتی ہے کہ وہ اپنے ٹریک کے نشانات مٹا دیں تاکہ پینگوئنز اس میں پھنس نہ جائیں۔

انٹارٹیکا میں کام کرنے والے تمام ٹور آپریٹرز ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی سخت قواعد کی پابندی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ فضلات کو بھی ہٹایا جاتا ہے۔ مگر ان سب اقدامات کے باوجود وہاں کی جانے والی کئی بائیو سکیورٹی سٹڈیز میں وہاں کئی غیر مقامی پرجاتیوں کی موجودگی سامنے آئی ہے۔

انٹارکٹک کے ماہر ماحولیات ڈانا برگسٹروم ان محققین میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس تحقیق میں مدد کی تھی۔ یہ اب وولونگونگ یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر ہیں۔ ان کے لیے یہ نتائج بالکل بھی حیران کن نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ وہی تھا جس کی ہم نے توقع کی تھی۔‘

گھاس کی ایک قسم نے انٹارکٹیکا کے جنوبی شیٹ لینڈ جزائر میں سے ایک پر اپنے قدم جما لیے ہیں، جبکہ ایویئن فلو حال ہی میں سب انٹارکٹک جزائر تک پہنچ گیا ہے جہاں اس نے سیلوں کی آبادی پر تباہ کن اثر ڈالا ہے۔

لین کا ماننا ہے کہ یہ وائرس اس سال پرندوں کے ذریعے انٹارٹیکا تک پہنچ جائے گا جو کافی تباہ کن ہو سکتا ہے۔

ابھی یہ نہیں پتا کہ اس سے پینگوئینز کی آبادی اس سے کتنی متاثر ہوگی۔

Getty Images

ان سب چیزوں کے باوجودبرگسٹروم کے خیال میں سب سے بڑا خطرہ کاربن امپیکٹ ہے۔

ایک سیاح کے انٹارٹیک پہنچنے پر اوسطاً 3.76 ٹن کاربن کا اخراج ہوتا ہے، کاربن کی اتنی مقدار ایک فرد عام طور پر پورے سال میں پیدا کرتا ہے۔

مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ انٹارٹیک جزیرہ نما پر برف میں جہاز سے خارج ہونے والے سیاہ کاربن کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ گرمی زیادہ جذب کرتا ہے اور اس کی وجہ سے برف کے پگھلنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2016 اور سنہ 2020 کے درمیان ہر سیاح کی آمد کی وجہ سے تقریباً 83 ٹن برف پگھلی اور اس کی بڑی وجہ کروز بحری جہازوں سے ہونے والا کاربن کا اخراج تھا۔

انٹارٹیک نہ صرف اپنے حساس ماحول کی وجہ سے خطرے کا شکار ہے بلکہ کوئی مرکزی گورننگ باڈی نہ ہونا بھی یہاں کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ انٹارٹیک معاہدہ 1961 میں براعظم کی گورننس کے لیے قائم کیا گیا تھا اور یہ مشاورتی بنیادوں پر کام کرتا ہے۔ یعنی کوئی فیصلہ لاگو کرنے سے پہلے تمام 56 فریقوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔

کرسچن کے مطابق انٹارٹیکا میں سیاحت سے متعلق آخری بڑا فیصلہ سنہ 2009 میں منظور کیا گیا تھا جس کے تحت 500 سے زائد مسافروں کو لے جانے والے کروز جہازوں پر پابندی لگائی گئی تھی۔

اس فیصلے کو باضابطہ طور پر ابھی تک نافذ نہیں کیا جا سکا ہے کیونکہ ہر سنہ 1960 کے معاہدہ پر دستخط کنندہ تمام ممالک نے مقامی طور پر اس کی توثیق نہیں کی ہے۔

تاہم IAATO نے رضاکارانہ طور پر اس کو اپنا لیا ہے اور اس بات پر بھی پابندی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کتنے جہاز کسی بھی جگہ کا دورہ کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی ایک وقت پر کسی بھی ساحل پر جانے والے زیادہ سے زیادہ سیاحوں کی تعداد بھی مختص کی گئی ہے۔

برگسٹروم کا کہنا ہے کہ IAATO اس معاملے میں کافی متحرک ہے تاہم آپ اس بات کی توقع نہیں کر سکتے کہ وہ وہاں جانے والے سیاحوں کی تعداد پر روک لگائے۔

اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے لیکن تبدیلیاں کیا ہونی چاہییں اس پر کوئی اتفاق نہیں ہے۔ مثال کے لینڈنگ زیادہ جگہوں پر ہونی چاہیے، یا انسانی مداخلت جتنی کم ہو سکے کی جائے۔

لین کہتی ہیں پہلے ہی ایڈونچر طرز کی سیاحت پھیل گئی ہے۔ 'شاید ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ جزیرہ نما انٹارٹیکا کا وہ حصہ ہے جس پر انسانی مداخلت سب سے زیادہ ہو چکی ہے، اور ہم باقی برِاعظم کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔'

کرسچن کا خیال ہے کہ سائٹس کی تعداد یا آنے والے جہازوں کی تعداد محدود کرنا ایک متنازع عمل ہو گا، اس سے بہتر ہو گا کہ انٹارٹیکا کو ایک نیشنل پارک کی حیثیت دے دی جائے اور داخلے کی فیس وصول کی جائے۔

محققین کی تجویز ہے کہ جو بھی انٹارٹیکا کا دورہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے وہ اپنے محرکات اور ان کے وہاں جانے کی صورت میں پڑنے والے اثرات پر ایک بار نظرِ ثانی ضرور کر لیں۔

لین کا کہنا ہے کہ اگر آپ صرف اس وجہ سے جانا چاہتے ہیں کہ آپ پہلے ہی چھ براعظموں پر قدم رکھ چکے ہیں اور اب ساتویں پر قدم رکھنا چاہتے ہیں، تو ذاتی طور پر انھیں لگتا ہے کہ یہ کافی غیر سنجیدہ وجہ ہے۔

برگسٹروم تجویز کرتی ہیں کہ سیاح انٹارٹیکا کا سفر کرنے سے پہلے دو بار سوچیں۔ 'اگر آپ واقعی صرف برف دیکھنا چاہتے ہیں تو کیا آپ یہاں آنے کے بجائے ٹرین پکڑ کر قریب ترین برفانی علاقے نہیں جا سکتے'؟ 'یا اگر آپ واقعی یہ سفر کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے اثرات پر غور کریں۔ دیکھیں کہ آپ کتنا کاربن کے اخراج کا سبب بنیں گے اور آپ [اپنی زندگی میں] کیسے کاربن کے اخراج کو کم کر سکتے ہیں۔'

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More