پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کی رہائی اور پھر گرفتاری: ’وہ صرف دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم کتنے سخت ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Oct 28, 2023

نو مئی کے واقعات کے تناظر میں سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی لگ بھگ اٹھارہ خواتین اور درجنوں کارکنان گذشتہ پانچ ماہ سے مختلف جیلوں میں بند ہیں۔ اِن میں چند سیاسی رہنماؤں اور کچھ کارکنان کو گذشتہ کچھ عرصے کے دوران عدالتوں سے ضمانت پر رہائی بھی ملی تاہم انھیں رہائی کے فوراً بعد دوبارہ کسی نہ کسی مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کی خاتون کارکن صنم جاوید کو عدالت نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تاہم وہ جیسے ہی لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے باہر نکلیں تو پولیس اُن کے انتظار میں تھی۔ پولیس نے انھیں ایک دوسرے مقدمے میں گرفتار کر کے دوبارہ جیل بھیج دیا۔

صنم جاوید کی وکیل خدیجہ صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے جب صنم جاوید کو رہائی ملنے کے بعد دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ اور صنم جاوید وہ اکیلی خاتون کارکن نہیں جن کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔

خدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ ’صنم جاوید کو پہلے بھی کم از کم تین مرتبہ عدالت سے ضمانت ملنے کے باوجود دوبارہ کسی نہ کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ ان کے علاوہ خدیجہ شاہ کو بھی عدالت سے ضمانت ملی تاہم ان کو رہا ہی نہیں کیا گیا بلکہ ایک دوسرے مقدمے میں تحقیقات شروع کر دی گئیں۔‘

گذشتہ ماہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان صنم جاوید، اشمیا شجاع، شاہ بانو اور افشاں طارق کو لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملے کے مقدمے میں ضمانت پر رہا کیا تھا۔تاہم ان چاروں خواتین کو پولیس نے رہا ہونے کے فوراً بعد جیل کے باہر ہی سے دوبارہ گرفتار کر لیا۔

فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کو بھی لاہور ہائیکورٹ نے حال ہی میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے ساتھ پی ٹی آئی کے چھ مرد کارکنان کو ضمانت دی گئی تھی۔ تاہم اس فیصلے کے باوجود خدیجہ شاہ اور دیگر کو تاحال رہا نہیں کیا گیا اور عدالت نے پولیس سے اس کی وجوہات بتانے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔

خیال رہے کہ 9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد میں گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف شہروں خاص طور پر لاہور میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ ہوا تھا۔

پولیس کے مطابق لاہور میں 'پی ٹی آئی کے کارکنان' نے ان مظاہروں میں فوجی یا فوج کے نام سے منسلک املاک پر ’حملہ کیا اور نقصان پہنچایا۔‘ ان میں لاہور کے کور کمانڈر کی رہائش گاہ اور مین بلیورڈ گلبرگ پر واقع عسکری ٹاور بھی شامل ہیں۔ جن مظاہرین کو ان کیسز میں نامزد کیا گیا ان میں بڑی تعداد خواتین کارکنان کی بھی شامل تھی۔

تاہم پی ٹی آئی کی قیادت اس بات کی تردید کرتی رہی ہے کہ ان کے کارکنان ’پرتشدد واقعات یا آرمی کی املاک پر حملے‘ جیسے معاملات میں ملوث تھے۔ ان کا موقف ہے کہ ان کے کارکنان نے صرف پرامن مظاہرے کیے۔

رہا ہو کر دوبارہ گرفتار ہونے والی خواتین کون ہیں؟

9 مئی کے مظاہروں کے بعد لاہور سےگرفتار ہونے والے افراد میں جو خواتین شامل تھیں ان میں سے 18 خواتین ایسی ہیں جن کا تعلق پی ٹی آئی سے بتایا جاتا ہے۔

تاہم ان میں سابق صوبائی وزیر یاسمین راشد اور دیگر چند سابق ممبران اسمبلی کے علاوہ زیادہ تر خواتین ایسی ہیں جو پاکستان تحریکِ انصاف میں کوئی عہدہ نہیں رکھتیں یا ان کا تعلق جماعت میں درمیانے درجے کی قیادت سے ہے۔

زیادہ تر گرفتار خواتین وہ ہیں جو پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان کی حمایت میں بات کرتی تھیں۔ ان میں کچھ سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی شامل ہیں۔

خدیجہ شاہ امریکی شہریت رکھنے والی فیشن ڈیزائنر ہیں۔ وہ خود پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی نواسی ہیں جبکہ اُن کے والد سلمان شاہ پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ رہ چکے ہیں۔

صنم جاوید خان بنیادی طور پر سوشل میڈیا انفلوئنسر اور پی ٹی آئی اور عمران خان کی حمایتی ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ان کے فالوورز کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ عمران خان کی گرفتاری سے قبل کے دنوں میں وہ اکثر زمان پارک کے باہر دیگر خواتین کارکنان کے ساتھ موجود ہوتی تھیں۔

طیبہ راجہ بھی سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل کانٹینٹ کریئٹر ہیں۔ ان کے بھی انسٹاگرام پر فالوورز کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے۔ طیبہ راجہ اس وقت خبروں میں آئیں جب 9 مئی کے مظاہروں سے ایک ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے طیبہ راجہ اپنے سر سے کالی چادر اتار کر پولیس کے ایک اہلکار کی طرف پھینکتی ہیں اور پولیس کی طرف بڑھتی ہیں۔ پولیس اہلکار ان کو بالوں سے دبوچ کر کھینچتا ہوا دوسری طرف لے جاتا ہے۔

اس ویڈیو اور تصاویر کے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر طیبہ راجہ کافی زیادہ زیرِ بحث رہیں۔ عالیہ حمزہ سابق ممبر اسمبلی ہیں۔ ان کو بھی پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔

Getty Imagesنو مئی کے واقعات کے تناظر میں تحریک انصاف کی بہت سے خواتین رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھاکون سی خواتین کتنے عرصے سے قید ہیں؟

ڈیزائنر خدیجہ شاہ جو خود لگ بھگ پانچ ماہ سے جیل میں قید ہیں انھوں نے جیل سے گذشتہ ماہ ایک خط تحریر کیا جسے حال ہی میں ان کے شوہر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شائع کیا ہے۔ ان کی وکلا کی ٹیم کی ممبر خدیجہ صدیقی نے بھی اپنے سوشل میڈیا پر اس خط کو پڑھ کر سنایا ہے۔

کوٹ لکھپت جیل لاہور سے لکھے اس خط میں خدیجہ شاہ نے بار بار ضمانت ملنے کے باوجود رہائی نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے تاہم اس میں انھوں نے اپنے ساتھ قید 10 خواتین میں چھ کی حالت کے بارے میں بھی لکھا ہے۔

اس خط میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’افشاں طارق ایک گھریلو خاتون ہیں جن کا ایک ہی بیٹا ہے۔ ان کا چھوٹا سا خاندان ہے جس کے وسائل محدود ہیں۔ افشاں طارق گزشتہ دو ماہ سے جیل میں ہیں اور اس دوران ان کے بیٹے نے گھر کی روٹی نہیں کھائی۔ ان کی آنکھوں میں ہر وقت آنسو رہتے ہیں۔‘

ایک اور خاتون فرزانہ خان کے بارے میں انھوں نے لکھا کہ وہ ایک کیفے کی مالک اور پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ انھوں نے تمام زندگی کام کرکے اپنے خاندان کو پالا ہے اور انھیں جیل میں ڈھائی ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔

’ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے تاہم وہ ثابت قدم ہیں اور نہ صرف پی ٹی آئی کی خواتین بلکہ جیل کے دوسرے قیدیوں کے لیے بھی ایک مثال ہیں۔‘ خدیجہ شاہ چار اور خواتین کے بارے میں بھی اس خط میں بتاتی ہیں۔

’ہر پیر کو ان کی تین سالہ بیٹی جیل میں ان سے ملتی ہے‘

روہینہ خان کے بارے میں خدیجہ شاہ نے اس خط میں لکھا کہ ان کے چار بچے ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی تین سال جبکہ سب سے بڑی بیٹی ساڑھے 12 سال کی ہے۔ ان کا پاکستان میں کوئی خاندان نہیں اس لیے ان کے بچوں کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں۔

ان کی بڑی بیٹی ان کے بچوں کا خیال رکھ رہی ہیں۔ خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’اُن کی تین سالہ بیٹی ہر پیر کو جیل میں ان سے ملاقات کے لیے آتی ہیں۔ وہ دونوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے ایک دوسرے کی انگلیاں چھوتے ہیں۔ ہم اب اس طرح اپنے پیاروں سے ملتے ہیں: سلاخوں کے پیچھے سے۔‘

ایک اور ساتھی قیدی شاہ بانو کے بارے میں خدیجہ شاہ نے لکھا کہ ان کے تین بچے ہیں۔ ’میری طرح ان کی بھی سب سے چھوٹی بیٹی پانچ برس کی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں پولیس نے شاہ بانو کو ان کی بیٹی کی پانچویں سالگرہ سے ایک روز پہلے ان کے گھر سے گرفتار کیا۔ ان کی بیٹی نے اس کے بعد سے چپ سادھ رکھی ہے اور ’اپنی گڑیا کو سینے سے لگائے ماں سے دوبارہ ملنے کا انتظار کر رہی ہے۔‘

گرفتاری، رہائی، پھر گرفتاری اور پریس کانفرنس

9 مئی کے واقعات کے بعد پولیس نے پورے ملک سے سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی تقریباً تمام قیادت کو گرفتار کیا۔ اُن میں سے بہت سے رہنماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ وہ جب بھی عدالت سے ضمانت ملنے پر رہا ہوتے پولیس ان کو دوبارہ گرفتار کر لیتی۔ اس کے بعد وہ رہنما رہا ہو کر ایک پریس کانفرنس کرتے جس میں وہ سیاست سے کنارہ کشی اور پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتے۔

ان میں سے کچھ نے حال ہی میں وجود میں آنے والی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کا اعلان بھی کیا۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کی رہنما عندلیب عباس بھی ان رہنماؤں میں شامل ہو گئیں۔

وکیل خدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ ڈیزائنر خدیجہ شاہ کی طرح عندلیب عباس کے خلاف بھی الزامات کی نوعیت بالکل ایک جیسی ہے۔ ’لیکن ان کو اس لیے رہائی مل گئی کہ انھوں نے پی ٹی آئی کو چھوڑ کر نئی جماعت آئی پی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔‘

خدیجہ صدیقی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب جب انھوں نے ان گرفتار خواتین کی ضمانت کے لیے ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں تو ان درخواستوں پر شنوائی ہی نہیں ہو پا رہی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ضمانت کے کیس کاز لسٹ میں ہوتے ہیں لیکن تاریخ آنے پر عدالت ان کو سنتی ہی نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جج دوسرے اہم نوعیت کے مقدمات میں مصروف ہیں حالانکہ بینچ موجود بھی ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ کئی ماہ کا وقت گزر جانے کے باوجود پولیس نے اب تک کسی مقدمے میں تحقیقات مکمل کر کے چالان عدالت میں پیش نہیں کیا جس کے بعد عدالتی کارروائی شروع ہو سکے۔

قید خواتین کو جیل سے رہائی کیوں نہیں مل رہی؟

وکیل خدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ اس سے قبل وہ یہ سمجھ رہی تھیں کہ شاید ریاست کی طرف سے صرف خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ اب ان کو اپنی سوچ تبدیل کرنا پڑی ہے۔

’9 مئی سے منسلک جتنے بھی افراد کو انھوں نے گرفتار کیا تھا، جن میں زیادہ تر کو جیوفینسنگ کی مدد سے گرفتار کیا گیا ان میں سے کسی کو بھی جیل سے رہا نہیں ہونے دیا جا رہا۔ ان میں مرد بھی شامل ہیں۔ جس کو بھی ضمانت ملتی ہے وہ دوسرے مقدمات میں گرفتار ہو جاتا ہے۔‘

خدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں ’ان افراد کو اندر رکھنا بنیادی مقصد ہے تا کہ ان کو تنگ کیا جائے۔ حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے پھر بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ انھیں کسی طرح بھی ضمانت نہ ملے۔‘

انھوں نے بتایا کہ گرفتار خواتین سمیت تمام گرفتار افراد کے خلاف درج مقدمات میں الزامات ایک جیسےہیں جیسے کہ نعرہ بازی اور توڑ پھوڑ کرنا جس کی بنا پر ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کو بھی ایف آئی آرز کا حصہ بنایا گیا ہے۔

وکیل خدیجہ صدیقی سمجھتی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ان تمام گرفتار افراد کے مقدمات جیل کے اندر چلانا چاہتی ہے۔

Getty Images’وہ صرف دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم کتنے سخت ہیں‘

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کے بار بار ضمانت ملنے کے باوجود دوبارہ گرفتار ہونے کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ ریاست یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ کسی کو آسانی سے جانے نہیں دے گی۔

'میرے خیال میں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس طرح وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ دیکھو ہم کتنے سخت ہیں۔ اور دوسرا جس طرح پی ٹی آئی کو نشانہ بنایا گیا ہے یہ افراد اس کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔'

حنا جیلانی کہتی ہیں کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس کو اس کی سزا ملنی چاہیے تاہم اس کو اس کا قانونی حق بھی ملنا چاہیے اور ضمانت ایک قانونی حق ہے۔

حنا جیلانی کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس نوعیت کے مقدمات میں ان افراد کو ملوث کیا گیا ہے ان میں سے بہت سے مقدمات میں مصدقہ دستاویز بھی فراہم نہیں کی گئیں جبکہ زیادہ تر الزامات ایسے ہیں جو قابلِ ضمانت ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کے باوجود اتنی طویل قید کا جواز نہیں بنتا۔ حنا جیلانی کے خیال میں بہت سے مقدمات میں پولیس نے تاحال تحقیقات مکمل کر کے عدالتوں میں چالان جمع ہی نہیں کروائے اس لیے ان مقدمات کی عدالتی کارروائی ہی شروع نہیں ہو سکی۔

'ہم استثنٰی کے خلاف ہیں کسی کے لیے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جس نے جرم کیا اس کو سزا ملنی چاہیے لیکن ان افراد کی انصاف تک رسائی کے حق سے ان کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے غصہ تو نہیں نکالنا، آپ نے تو قانون کے مطابق چلنا ہے۔'

ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی کہتی ہیں کہ عدالتوں کو ان خواتین اور افراد کے مقدمات کو مختلف زاویوں سے جانچ پڑتال کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ان کی انصاف تک رسائی کو روکا تو نہیں جا رہا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More