سپریم جوڈیشل کونسل نے تین دو کی اکثریت سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کو ناجائز اثاثہ جات کیس میں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے 10 نومبر تک جواب طلب کر لیا ہے۔
یہ شوکاز نوٹس پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلز اور وکیلمیاں داؤد ایڈووکیٹ کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کروائی گئی 10 شکایات کی روشنی میں جاری کیا گیا۔ یہ شکایات جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور ذاتی مفاد کے لیے اپنے اختیارت استعمال کرنے کے الزامات کے بارے میں تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے جمعے کے روز اپنے اجلاس میں ان شکایات کا جائزہ لیا جس کی روشنی میں جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت کنندہ آمنہ ملک نے درخواست دی تھی جس پر غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ آمنہ ملک کو کونسل کے اگلے اجلاس میں طلب کیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ وہ اپنی شکایت کے حوالے سے مزید مواد فراہم کریں جو کہ جسٹس سردار طارق مسعود کو فراہم کیا جائے گا تاکہ اگر وہ چاہییں تو اس پر اپنا جواب دے سکیں۔
جسٹس مظاہر اکبر نقوی پر الزام کیا ہے؟
سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف جمع کروائی گئی شکایات میں ان جائیدادوں کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جو انھوں نے مبینہ طور پر اپنی سروس کے دوران بنائی ہیں۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کروائی گئی درخواست کے ساتھ جسٹس مظاہر اکبر نقوی، ان کے بیٹوں کے نام ’مشکوک انداز میں‘ خریدی گئی جائیدادوں کی دستاویزات منسلک ہیں۔
اس شکایت میں جسٹسمظاہر اکبر نقوی کی بیٹی کو برطانوی بینک اکاؤنٹ میں بھیجے گئے پاؤنڈز کی رسید بھی منسلک ہے۔
شکایت کے ساتھ منسلک دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے 2021 میں گلبرگ لاہور میں 2 کنال 4 مرلے کا پلاٹ 4 کروڑ 44 لاکھ میں خریدا جبکہ اسے 7 کروڑ 20 لاکھ کا ڈکلیئر کیا گیا۔
ان دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے یہ پلاٹ 2022 میں 13 کروڑ میں اپنے مبینہ فرنٹ مین محمد صفدر کو فروخت کر دیا اور بعد ازاں اسے 4 کروڑ 96 لاکھ روپے کا ڈکلیئر کیا۔
ان دستاویزات میں مزید کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے سینٹ جونز پارک کینٹ میں 65 کروڑ مارکیٹ ویلیو والا 4 کنال کا پلاٹ 10 کروڑ 70 لاکھ روپے میں خریدا۔ ان دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذکورہ جج نے اپنے مبینہ فرنٹ مین کی مدد سے ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ صرف پانچ لاکھ روپے میں دلوایا جبکہ مارکیٹ میں اس پلاٹ کی قیمت اس وقت بیس لاکھ روپے سے زیادہ تھی۔
ان دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے دو بیٹوں کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں کمرشل پلاٹ محض نو لاکھ روپے میں دیے گئے جبکہ مارکیٹ میں ان پلاٹ کی ویلیو تین کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔
ان دستاویزات میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ مذکورہ جج کی بیٹی کے فارن کرنسی اکاؤنٹ میں دس ہزار برطانوی پاؤنڈز دبئی سے ٹراسنفر کیے گئے۔
تاحال جسٹس نقوی نے اپنے اوپر عائد کردہ ان الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔
آگے کیا ہوگا؟
آئینی امور کے ماہر حامد خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جج، جس پر الزام ہے، کو شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد شکایات کا جواب دینا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جج کی طرف سے اس کا جواب دینے کی صورت میں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جاتا ہے جس میں جس جج کو نوٹس جاری کیا گیا ہو اس کے جواب کا تفصیلی غور کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل جج کے جواب سے مطمئن ہو تو ریفرنس یا شکایت اسی وقت ہی فارغ کر دی جاتی ہے لیکن اگر کونسل جج کے جواب سے مطمئن نہ ہو تو پھر جس جج کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا ہوتا ہے اس کے خلاف انکوائری شروع ہو جاتی ہے۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کوڈیشل کونسل کی کارروائی اِن کیمرا ہوتی ہے تاہم اگر متاثرہ جج چاہے تو وہ درخواست دے سکتا ہے کہ ان کی خلاف کی جانے والی کارروائی اوپن کورٹ میں کی جائے۔
انھوں نے کہا کہ متاثرہ جج کے خلاف تحقیقات کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی ادارے کی خدمات حاصل کر سکتی ہے۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ اگر تحققیات میں جس جج کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہو وہ قصوروار پایا گیا تو سپریم جوڈیشل کونسل اس بارے میں رپورٹ صدر مملکت کو بجھواتی ہے اور صدر مملکت سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے بجھوائی گئی رپورٹ پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کی روشنی میں ہی صدر مملکت نے نوکری سے برطرف کر دیا تھا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کس طرح کام کرتی ہے؟
سپریم جوڈیشل کونسل پانچ ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس کونسل کے سربراہ ہوتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے دو سینیئر جج اس کے رکن ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی پانچوں ہائی کورٹس کے دو سینیئر چیف جسٹس صاحبان بھی اس کے رکن ہوتے ہیں۔
یہ کونسل سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی یا مبینہ طور پر بدعنوانی میں ملوث ہونے سے متعلق شکایات کا جائزہ لیتی ہے اور شکایت درست ہونے کی صورت میں اس جج کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کا آخری اجلاس سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سنہ 2021 میں ہوا تھا۔
اس کے بعد سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم جوڈیشل کونسل کا کوئی اجلاس طلب نہیں کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جمعے کے روز ہونے والے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں 29 شکایات کا جائزہ لیا گیا جن میں سے 19 شکایات مسترد کر دی گئیں۔
ان میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن کے خلاف دائر شکایات بھی شامل ہیں۔