پاکستان میں پرندوں کی افزائش نسل کا کاروبار جس میں ’منافع بھی لاکھوں میں ہے اور زیادہ سرمائے کی ضرورت بھی نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Oct 27, 2023

BBC

اس کا حجم صرف اتنا ہے کہ با آسانی مٹھی میں آ جاتا ہے لیکن قیمت 30 لاکھ روپے یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ آپ سوچتے ہیں اتنا چھوٹا سا پرندہ اتنا مہنگا کیوں ہے؟ اور شاید یہ بھی سوچتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی جاندار چیز جو مر بھی سکتی ہے اس کے لیے اتنے زیادہ پیسے کون خرچ کرے گا؟

اس جواب سے پہلے ذرا اس پرندے پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ براعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے چھوٹے طوطے کی ایک قسم ہے جسے ’لو برڈ‘ کہتے ہیں۔

ان کو لو برڈ کا نام اس لیے بھی دیا گیا یہ طوطے ایک ہی جیون ساتھی کے ساتھ لمبے عرصے تک رہتے ہیں۔ ان کا جوڑا اکثر آپ کو گھنٹوں تک اکٹھے بیٹھا ملے گا۔ جنگل میں اس کی بہت سی قسمیں پائی جاتی ہیں لیکن پالتو لو برڈز میں فشرز زیادہ مقبول ہے۔

اس کی بڑی وجہ ہے ان کی رنگت ہے۔ جنگل میں پائے جانے والے فشرز لو برڈ کا بنیادی رنگ سبز ہوتا ہے لیکن اس کے اوپری حصے میں مزید رنگ ہوتے ہیں۔ اس کی آنکھ کے گرد سفید دائرہ بھی ہوتا ہے جو اس کی پہچان ہے۔

پالتو طوطے کے طور پر اس لو برڈ میں کئی دہائیوں کی تبدیلی تغیر یعنی جینیاتی تبدیلیوں کے باعث اتنے زیادہ رنگ آ چکے ہیں کہ ان کی گنتی مشکل ہے۔ رنگوں میں تبدیلیوں کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

یہی پروں اور سر کے رنگوں کی انفرادیت، آنکھوں کی سرخی اور اعلٰی شجرہ نسب ایک چھوٹے سے لو برڈ کی قیمت ہزاروں سے لاکھوں میں لے جاتا ہے۔ پاکستان ہی میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس قدر پیسہ خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

BBC

ہزاروں روپے مالیت کے اس پرندے کے بھی ہزاروں خریدار موجود ہیں اور ان کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے پرندوں کی افزائش نسل کرانے والے بریڈرز بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے رحیم علی ڈھلوں بھی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ گذشتہ دس برسوں سے لو برڈز کی بریڈنگ کر رہے ہیں۔ ان کے لو برڈز کی پیڈگری یا شجرہ نسب مقامی منڈی میں مقبول ہے۔ وہ نئی میوٹیشنز یا رنگوں والے پرندوں کو بیرون ملک سے منگوا کر اپنے پاس بریڈ کرواتے رہتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رحیم علی ڈھلوں نے بتایا کہ لو برڈز یا پرندوں کا کاروبار ایسا کاروبار ہے جس میں منافع بھی ہے اور اسے کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔

’ایک گھریلو خاتون یا ایک طالب علم سے لے کر ایک سرمایہ دار تک سب کے لیے اس کاروبار میں کمائی کے مواقع موجود ہیں۔‘

محض 20 ہزار یا اس سے کم میں ایک طالبعلم گھر پر ایک دو جوڑے پرندوں کے رکھ سکتا ہے یا اگر کوئی سرمایہ دار لاکھوں خرچ کرنا چاہے تو وہ بھی کر سکتا ہے۔ اور وہ دونوں ہزاروں اور لاکھوں کما سکتے ہیں۔

اس میں لاکھوں کا کیا ہے؟BBC

رحیم علی ڈھلوں کہتے ہیں یہ قیمت اس لو برڈ کے نایاب ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک طرح سے نایاب نسل کے لو برڈز کی اتنی زیادہ قیمت اس کاروبار کو زندہ رکھنے کا سبب بھی بنتی ہے۔

رحیم علی ڈھلوں جو لو برڈ سوسائٹی آف پاکستان کے سینیئر نائب صدر بھی ہیں بتاتے ہیں کہ جب کوئی میوٹیشن نئی آتی ہے تو وہ نایاب ہوتی ہے۔ تو اس کی مانگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی قیمت لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔

’لیکن جیسے جیسے یہ میوٹیشن بریڈ ہوتی ہے تو اس کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور ایک موقعے پر آ کر اس کی سپلائی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی قیمت گر جاتی ہے۔‘

اس طرح وہ لوگ بھی اس کو خرید سکتے ہیں جن کی قوتِ خرید اس سے پہلے اتنی زیادہ نہیں تھی۔

پھر کچھ ہی عرصے بعد ایک نئی میوٹیشن سامنے آ جاتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور ساتھ ہی لو برڈز کی کشش بھی۔ یہی کشش اس کاروبار کو بڑھاتی ہے۔

رحیم علی ڈھلوں کہتے ہیں پاکستان میں کووڈ 19 کے دوران لو برڈز کی بریڈنگ اور عام طور پر غیر ملکی نسل کے پرندوں کے کاروبار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

’یہ کووڈ 19 کا مثبت رخ ہے‘

کووڈ 19 اور اس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاون نے بہت سے لوگوں کی نوکریاں ختم کیں۔ بہت سے افراد کے کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔ جو لوگ اس وقت نئے کاروبار کر رہے تھے انھوں نے کاروبار ہی چھوڑ دیے۔

رحیم علی ڈھلوں بتاتے ہیں کہ اس دور میں بہت سے نئے لوگ پرندوں کے کاروبار میں داخل ہوئے۔ ’بہت سی خواتین تھیں جنھوں نے اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹانے کے لیے یہ کاروبار شروع کیا۔ ان کا کاروبار اتنا اچھا چلا کہ ان کے شوہر بھی اس میں آ گئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ نئے آنے والے افراد اب بہت اچھے حجم کے برڈ فارمز چلا رہے ہیں۔ ’یہ کووڈ 19 کا مثبت رخ ہے۔‘

شمسہ ہاشمی پاکستان وومن کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ہیں اور سرکاری ملازمت کرتی ہیں۔ انھوں نے بھی کووڈ 19 کے ابتدائی دنوں میں چند لو برڈز رکھے۔ چار سال بعد وہ ایک اچھا کاروبار چلا رہی ہیں۔

’ہم نے سوچا تھا کہ یہ ہمارا ریٹائرمنٹ پلان ہو گا۔ ہم دو تین سال لگائیں گے، اس کو سیکھیں گے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد کے لیے یہ ایک بہترین مشغلہ بھی ہے۔‘

اب ان کے پاس ایسے لو برڈز بھی ہیں جن کی قیمت چار لاکھ روپے تک بھی ہے۔

BBC’ایک خاتون کے لیے آدھا گھنٹہ نکالنا مشکل نہیں‘

شمسہ ہاشمی کہتی ہیں ان کے لیے لو برڈز ابتدائی طور پر ان کی بیٹی کی شادی کے بعد تنہائی دور کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ تاہم اس میں آنے کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ یہ ایک بہترین کاروبار بھی بن سکتا ہے۔

’اچھی بات یہ ہے کہ یہ کام کرنے کے لیے آپ کو کوئی زیادہ جگہ نہیں چاہیے۔ آپ آٹھ جوڑے رکھ کر اس کا آغاز کر سکتے ہیں اور آٹھ جوڑوں کے لیے آپ کو صرف پانچ فٹ ضرب ڈھائی فٹ کی جگہ چاہیے۔‘

اور ان کو دانہ پانی اور ادویات یا سپلیمنٹس وغیرہ دینے میں وہ سمجھتی ہیں کہ روزانہ آدھے گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں لگتا۔ اور ایک خاتون کے لیے روزانہ آدھا گھنٹہ وقت نکالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔‘

طوطوں کا ایک جوڑا ایک بار میں چار سے پانچ انڈے دیتا ہے اور ہر سال بریڈنگ کے موسم میں وہ کم از کم دو یا تین مرتبہ انڈے دیتا ہے۔

اس طرح ایک جوڑے سے کئی پرندے مل جاتے ہیں۔ یوں جتنے زیادہ پرندے آپ کو ملیں گے اور وہ جتنی اچھی نسل کے ہوں گے اتنے ہی پیسے آپ گھر بیٹھے کما سکتے ہیں۔

شمسہ ہاشمی کہتی ہیں کہ اسی طرح اس کاروبار نے لوگوں کی کووڈ 19 میں بہت مدد کی۔

’اس میں نقصان صد فیصد، لیکن منافع پانچ سو فیصد ہے‘

لو برڈ وہ واحد پرندوں کی قسم نہیں جس کا پاکستان میں کاروبار ہو رہا ہے یا جس میں منافع ہے۔ لاہور کے رہائشی وقاص ملک گذشتہ کئی برسوں سے لو برڈز کے علاوہ آسٹریلوی نسل کی انتہائی خوبصورت چھوٹی چڑیا کو بریڈ کروا رہے ہیں۔

اس فنچ یا چڑیا کو گولڈین کہتے ہے۔ اس کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے یوں لگتا ہے کہ کسی نے ہاتھ سے اس پر پینٹنگ کی ہے۔ گولڈین اپنے رنگوں کی وجہ سے ایوی کلچر میں بہت مقبول ہے۔

’لو برڈ کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ گولڈین ہی کی مانگ ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کووڈ 19 کے دنوں میں گولڈین کے کاروبار میں ایک مرتبہ آئے اور وہ اتنا اچھا چلا کہ انھوں نے اپنے چلتے ہوئے کاروبار چھوڑ دیے اور فل ٹائم اسی کاروبار میں لگ گئے۔‘

وقاص ملک کہتے ہیں کہ کیونکہ دوسرے پرندوں کی طرح گولڈین میں بھی ایک سے سولہ اور سولہ سے 256 ہونے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے تو یہ اچھا منافع دیتی ہے۔

’مجھ سے کوئی پوچھتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ اس میں نقصان کا خدشہ 100 فیصد ہے لیکن اس میں منافع 500 فیصد ہے۔‘

وہ خود یورپ کے معروف بریڈرز سے پرندے درآمد کرتے ہیں اور اپنے پاس اپنے گھر میں بنے ایک کمرے میں پنجرے رکھ کر اس کی افزائشِ نسل کرتے ہیں۔

وقاص کے خیال میں ان کے پاس ’اب ورلڈ کلاس گولڈین فنچ تیار ہو چکی ہیں جو بذاتِ خود نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں بھی نایاب ہیں۔‘

اپنی ایک گولڈین کو دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس کے سر کا کلیجی رنگ، سرخ آنکھیں، پروں کا پیلا رنگ اور چھاتی کے رنگوں کا امتزاج اسے منفرد اور نایاب بنا دیتا ہے۔

’اس سر کے رنگ کے ساتھ یہ گولڈین صرف پاکستان ہی میں نہیں، دنیا میں بھی نایاب ہے۔ اس کے نر کی قیمت لگ بھگ تین لاکھ روپے ہو گی۔‘

وقاص ملک کہتے ہیں پاکستان میں گولڈین اور دیگر غیر ملکی فنچز کو پالنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔

BBC’پہلے میں نے سیکھا، اب میں مہنگے پرندوں کی طرف آ رہا ہوں‘

فنچز اور چھوٹے طوطوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بڑے طوطوں کی بریڈنگ بھی اچھے خاصے بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے۔

لاہور سے عدیل چوہدری نے اپنی ایک آئیوری بنا رکھی ہے جس میں انھوں نے غیر ملکی نسل کے میکاؤ طوطے، کیکاٹوز، گرے پیرٹس، ایمازون، گرے نیک اور کونیور نسل کے طوطوں کی بہت سے میوٹیشنز پال رکھی ہیں۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے طوطوں کے کاروبار جن طوطوں کی قیمت سب سے زیادہ ہے وہ بنیادی طور پر جنوبی ایشیائی خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ مقامی سطح پر اسے را طوطا کہا جاتا ہے جو الیگزینڈرین کے نام سے دنیا میں جانا جاتا ہے۔

’الیگزینڈرین میں جتنی بھی میوٹیشنز یا رنگ ہیں وہ سب سے زیادہ مہنگی ہیں۔ مثال کے طور پر الیگزینڈرین کی ایک نایاب میوٹیشن کا ایک طوطا چالیس سے پچاس لاکھ روپے تک جا سکتا ہے۔‘

عدیل چوہدری کی بریڈنگ ایوری جو انھوں نے خصوصی طور پر خود ڈیزائن کر کے آؤٹ ڈور بنائی ہے الیگزینڈرین کی کئی میوٹیشنز موجود ہیں۔

’میں نے پہلے عام طوطے رکھ کر اس کام کو سیکھا اور اب میں مہنگے طوطوں کی طرف آ رہا ہوں۔ اب یہ ایک صنعت ہے اور اس کے ساتھ بھی صنعتیں بن چکی ہیں۔‘

محمد جنید خان اسلام آباد میں گزشتہ 15 سالوں سے آسٹریلوی نسل کی چڑیا ’کنیری‘ پال رہے ہیں۔ کنیری خاص طور پر اپنی سنگنگ یا گانے کے لیے مشہور ہے۔ کنیری کے نر بہت دلفریب دھنیں گاتے ہیں۔

جنید خان کہتے ہیں کہ انھوں نے بھی ابتدائی طور پر کنیریز باہر ملک سے منگوائیں اور ان کی اپنے پاس افزائشِ نسل کی۔ ساتھ ہی وہ پرندوں کا سامان بیچنے کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔

’یہ اب ایک مکمل صنعت بن چکی ہے بلکہ اس کے ساتھ دوسرے پرندوں کا سامان بنانے کی صنعت بھی قائم ہو چکی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سامان بنا کر برآمد بھی کر رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں گزشتہ چار سے پانچ برسوں میں بہت اچھی نسل کے ایگزوٹیک پرندوں کی افزائشِ نسل ہوئی ہے اور یہ صنعت مزید بڑھ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے لوگ پرندے باہر بھی بھیجنا چاہتے ہیں لیکن کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

پرندے برآمد کرنے میں رکاوٹ کیا ہے؟

بڑے طوطوں کا کاروبار کرنے والے عدیل چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان سے پرندوں کی برآمد بہت ضروری ہے اور ان کے خیال میں اس کی وجہ کیا ہے اس کو لو برڈز کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ لو برڈز کیونکہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں بریڈ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اس لیے ان کی نسل بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔ جب کسی خاص میوٹیشن کی زیادہ افزائش ہوتی ہے تو اس کی سپلائی بڑھ جاتی ہے۔

’برآمد نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مانگ میں کمی آ جاتی ہے اور اس کی قیمت بہت نیچے گر جاتی ہے۔ اس لیے قیمت کو متوازن رکھنے کےلیے برآمد بہت ضروری ہے۔‘

لو برڈ سوسائٹی آف پاکستان کے نائب صدر رحیم علی ڈھلوں کہتے ہیں کہ پاکستان سے پہلے بھی پرندے برآمد ہو رہے ہیں جو کئی ملین روپے کی صنعت ہے۔ تاہم برآمد کرنے کے لیے لوگوں کے پاس سہولیات موجود نہیں ہیں۔

’کوالٹی میں اگر ہم یورپ کو دیکھتے ہیں تو پاکستان میں اب یورپ کے برابر یا ان سے بہتر کوالٹی کے پرندوں کی افزائش ہو رہی ہے۔ اور یورپی بریڈرز جب پاکستان آتے ہیں تو وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔‘

رحیم علی ڈھلوں کہتے ہیں کہ اب بہت سے بریڈرز پاکستان میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ پرندوں کی برآمدات کی راہ ہموار کی جائے۔ انھوں نے اور ان کے کچھ ساتھیوں نے حال ہی میں لاہور چیمبر آف کامرس کے عہدیداران سے اس ضمن میں بات چیت کا آغاز کیا ہے۔

’ہم نے ان سے کہا ہے کہ ایک تو ہمیں وائلڈ لائف میں سے نکال کر لائیو سٹاک میں شامل کیا جائے اور دوسرا ہمیں برآمدات کرنے کے لیے لائسنس دینے میں آسانی پیدا کی جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پرندوں کا کاروبار کرنے والے پاکستان میں زرِ مبادلہ لا سکتے ہیں۔

BBC’آگے بڑھنے سے پہلے، پہلا قدم جما لیں‘

پرندوں کے کاروبار میں منافع اور کمائی کے مواقع بہت ہیں تاہم تجربہ کار بریڈرز خبردار کرتے ہیں کہ اس کاروبار سے بھی ’شارٹ کٹ‘ کے ذریعے پیسے کمانے میں نقصان کے امکانات بھی موجود ہیں۔

گولڈین بریڈر وقاص ملک کہتے ہیں ’اس کاروبار میں اگلا قدم تب اٹھائیں جب آپ کا پہلا قدم اوکے ہو جائے۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کاروبار کرنے کے لیے پہلے کچھ عرصہ یہ سمجھنے میں لگائیں کہ آپ کے پرندوں کو بیماریاں کیا ہو سکتی ہیں، ان کی خوراک کی ضروریات کیا ہیں، وہ کب اور کیسے بریڈ کرتی ہیں وغیرہ۔

’جب آپ کا پہلا قدم مستحکم ہو جائے گا تو اس کے بعد آپ کے لیے کامیابی ہی کامیابی ہے۔ پھر آپ مہنگے پرندے بھی آرام سے رکھ سکتے ہیں۔‘

سشمسہ ہاشمی کہتی ہیں کہ نئے آنے والوں اور خاص طور پر خواتین کو چاہیے کہ وہ پہلے ایک دو سال اس کاروبار کو سمجھنے میں لگائیں اور اس کے بعد سب سے مہنگی میوٹِشنز کی طرف جائیں۔

ان دنوں سوشل میڈیا پر اتنا مواد موجود ہے کہ آپ باآسانی یہ کام سیکھ سکتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ آپ مرد ہیں یا عورت۔

جب بات پرندے پال لینے کے بعد بیچنے کی آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے بہت سے پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ تاہم وہی چیز اچھی بکے گی جو اچھی کوالٹی کی ہو گی۔ ساتھ ہی جتنی دیانت داری سے آپ کام کریں گے، اتنا اچھا آپ کا نام ہو گا اور آپ کے پرندے اچھے بکیں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More