عمران خان سے نواز شریف تک: پاکستانی سیاست میں ’لاڈلے‘ کی اصطلاح کیوں مشہور ہوئی؟

بی بی سی اردو  |  Oct 26, 2023

Getty Images

’سیاست ممکنات کا کھیل ہے‘ اور ’سیاست میں کچھ دائمی نہیں ہوتا۔‘ یہ مثل پاکستان کی سیاسی تاریخ پر پوری اترتی ہیں۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں کئی ادوار آئے اور گزر گئے مگر ان تمام میں کچھ چیزیں مشترک دکھائی دیتی ہیں۔

چاہے وہ کسی فوجی ڈکٹیٹر کا دور ہو یا منتخب حکومت کا۔۔۔ ملکی سیاست میں نظریہ ضرورت اور اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ غالب نظر آتا ہے۔

کبھی عدلیہ نے کسی منتخب حکومت کو چلتا کیا تو کبھی کوئی فوجی سربراہ وزیر اعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگتا ہوا اندر چلا آیا۔ اسی دوران گذشتہ ایک دہائی کے دوران ملکی سیاست میں ایک نئی اصطلاح ’لاڈلے‘ نے جنم لیا۔

یہ اصطلاح اُس جماعت یا سیاسی لیڈر کے لیے استعمال کی جاتی جسے، سیاسی جماعتوں کی رائے میں، ملکی اسٹیبلشمنٹ کا آشیر باد حاصل ہوتا۔ مگر سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1950 سے ہی پاکستانی سیاست میں کوئی نہ کوئی ’لاڈلہ‘ رہا ہے۔

اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک میں سیاسی رہنما اپنی طرز حکمرانی سے عوام کے ’لاڈلے‘ ہوتے ہیں لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں یہ اختیار اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔

اگر حالیہ سیاسی تاریخ کی بات کی جائے تو سنہ 2013 میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لیے سیاسی جماعتوں نے ’لاڈلہ‘ کی اصطلاح استعمال کی مگر آج مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو مقدمات میں ملنے والے عدالتی ’ریلیف‘ کے بعد یہی خطاب ان کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں ان کی سزا معطل کیے جانے کے بعد سیاسی حلقوں میں اس بحث نے زور پکڑ کیا ہے کہ کیا ’اب لاڈلہ بدل‘ گیا ہے۔

Getty Images

چند برس قبل نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن ’زیر عتاب‘ تھی۔ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے حکم پر ستمبر 2017 میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں تین ریفرنسز دائر کیے گئے اور نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ساتھ پیشی کے لیے آتے تھے۔

میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر عدالت کا وقت شروع ہونے سے 15، 20 منٹ قبل ہی کمرۂ عدالت میں پہنچ جاتے اور جج کی آمد کا انتظار کرتے کیونکہ ان کے وکلا کے بقول خدشہ یہ ہوتا تھا کہ اگر وہ دیر سے عدالت پہنچے تو اسی بنیاد پر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نہ جاری کر دیے جائیں۔

نواز شریف اس وقت تک عدالت میں بیٹھے رہتے جب تک اس دن کی سماعت مکمل نہیں ہو جاتی تھی۔ عدالتی سماعت کے بعد نواز شریف میڈیا سے گفتگو کرتے اور اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ پر کُھل کر تنقید کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے۔

ان ریفرنسز کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکوٹرز نواز شریف کی مبینہ کرپشن سے متعلقدلائل دیتے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ سابق وزیر اعظم سے بڑا ’بدعنوان سیاست دان‘ پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتا اور انھی دلائل کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو تین میں سے دو ریفرنسز میں سزائیں سنائی گئیں۔

مگر تقریباً چھ برس بعد وطن واپسی پر جب نواز شریف احتساب عدالت کے اُسی جج محمد بشیر کی عدالت میں بطور ملزم پیش ہوئے جنھوں نے سنہ 2018 میں انھیں ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی تو اس مرتبہ وہ وقت سے قبل عدالت آ کر جج کا انتظار نہیں کر رہے تھے بلکہ جج اُن کی آمد کے منتظر تھے۔ اور جیسے ہی وہ پارٹی رہنماؤں کے ساتھ کمرۂ عدالت پہنچے تو انھیں فی الفور حاضری لگوا کر جانے کی اجازت دے دی گئی اور باقی کارروائی ان کی عدم موجودگی میں پوری ہوئی۔

اس کے بعد جب میاں نواز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے تو وہاں پر بھی ان کے استقبال کے لیے پولیس کے اعلیٰ افسران موجود تھے جنھوں نے نواز شریف، جو اب بھی ایک عدالتی مجرم ہیں، کو ناصرف سیلوٹ کیا بلکہ ہائیکورٹ کی انتظامیہ کی طرف سے انھیں کمرۂ عدالت میں لے کر جانے کے لیے ایک لفٹ مختص کر دی گئی۔

یہاں بھی ججز اپنے چیمبرز میں اس انتظار میں تھے کہ نواز شریف کے پہنچنے پر عدالتی کارروائی شروع کی جائے۔

نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں اس دروازے سے لایا گیا جو کبھی بھی سائلین اور ملزمان کے لیے نہیں کھولا جاتا۔ عدالت نے بھی ان کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی اور وہ نیب جو ماضی میں ان کی بار بار گرفتاری کی درخواستیں کرتی تھی، اس کے پراسیکیوٹر کو اب یہ گرفتاری مطلوب نہیں تھی۔

اس سماعت میں ایسے محسوس ہوا جیسے نیب یعنی استغاثہ کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا بلکہ تمام وکلا نواز شریف کی طرف سے تھے۔ نیب کی جانب سے نواز شریف کی گرفتاری مطلوب نہ ہونے کا کہے جانے پر عدالت کو بھی سوال کرنا پڑا کہ ’چیئرمین نیب سے دو دن میں پوچھ کر بتائیں کہ کیا وہ ان ریفرنسز پر کارروائی جاری رکھنا چاہتے ہیں یا پھر یہ ریفرنس واپس لینا چاہتے ہیں۔‘

AFP

اب ملکی سیاست کا ایک اور ورق پلٹتے ہیں جہاں حالات ماضی جیسے ہی ہیں مگر کردار تبدیل ہو چکے ہیں۔

کل جنھیں سیاسی جماعتیں ’لاڈلہ‘ قرار دیتی تھیں وہ آج ’زیر عتاب‘ ہیں۔ آج پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان ناصرف قید میں ہیں بلکہ پے در پے مقدمات کی دلدل میں پھنسے ہیں۔

ان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس ہو، سائفر گمشدگی کیس ہو یا دہشت گردی کے مقدمات، عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے وقت عدالت کے احاطے میں پولیس کے علاوہ رینجرز بھی تعینات کی گئی۔

کمرۂ عدالت جانے کے لیے کوئی لفٹ مخصوص نہیں کی گئی اور وہ عدالت اسی دروازے سے داخل ہوتے جہاں سے عام سائلین چیف جسٹس کی عدالت میں داخل ہوتے ہیں۔

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا دلوانے کے لیے الیکشن کمیشن نے امجد پرویز ایڈووکیٹ کی خدمات حاصل کیں ہیں جبکہ ان کے خلاف سائفر گمشدگی کے مقدمے میں تین سپیشل پراسیکوٹرز مقرر کیے گئے ہیں۔

ماضی میں جس طرح نواز شریف عدالتی پیشی پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے دل کی بھڑاس نکالتے تھے ویسے ہی عمران خان نے مقدمات میں پیشیوں کے موقع پر ناصرف عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق پر بھی ’کہیں اور سے ہدایات لینے‘ کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

اب اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی طرف سے یا ان کے خلاف دائر کی گئی متعدد درخواستوں پر فیصلہ محفوظ ہے جو ابھی تک نہیں سنایا گیا۔ ٹیریان وائٹ کی ولدیت سے متعلق کیس کی درخواست بھی انھی مقدمات میں شامل ہے۔

عمران خان کے وکلا بھی مختلف عدالتوں میں یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جیل میں انھیں سابق وزیر اعظم کے سٹیٹس کی سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہیں۔

Getty Images

لیکن اگر ماضی قریب کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو عمران خان کے لیے صورتحال پہلے ایسی نہیں تھی۔

عمران خان سنہ 2014 کے دھرنے کی وجہ سے خود بھی مختلف مقدمات میں اشتہاری تھے اور عدالت نے پولیس حکام کو ملزم کو فوری طور پر گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے رکھا تھا لیکن پولیس حکام نے انھیں گرفتار نہ کرتے ہوئے متعقلہ عدالت میں یہ رپورٹ جمع کروائی تھی کہ عمران خان شہر میں موجود نہیں ہیں حالانکہ عمران خان روزانہ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے خلاف درخواست کی پیروی کے لیے پیش ہوتے تھے۔

اسی طرح سنہ 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے سے قبل عمران خان کو اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے پیشی پر اشتہاری قرار دیا تو انھوں نے اپنے وکیل بابر اعوان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ تو کہتے تھے کہ عدالت دوبارہ نہیں بلائے گی، اب عدالت پھر بلا رہی ہے‘ جس پر ان کے وکیل نے یقین دہانی کروائی کہ انھیں عدالت مقدمات میں دوبارہ نہیں بلائے گی اور پھر وہی ہوا کہ عمران خان کو ایک ہی دن میں کئی مقدمات میں عدالتی ریلیف ملا اور وہ چند ہفتوں میں تمام مقدمات میں بری کر دیے گئے۔

رواں برس ہی نو مئی کو ان کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتاری اور ملک میں پرتشدد مظاہروں کے بعد انھیں سپریم کورٹ اس خاص دروازے سے لایا گیا تھا جو صرف جج صاحبان کے لیے کھلتا تھا اور عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے انھیں عدالت میں ’گڈ ٹو سی یو‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔

آج عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور عدالت سے جیل سیل تنگ ہونے کی شکایت اور ورزش کے لیے سائیکل مانگے کی درخواست کر چکے ہیں۔

تو کیا واقعی ملکی سیاست میں ’لاڈلے بدلتے‘ ہیں؟Getty Images

صحافی اور تجزیہ نگار نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ ’لاڈلے‘ ہر دور میں بدلتے رہے ہیں اور جو اس وقت کا’لاڈلہ‘ ہو اس کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں چاہے اس نے جتنا بھی بڑا ظلم سرزد کیا ہو۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ’بدلتے لاڈلے‘ کا رجحان اب سے نہیں بلکہ یہ ٹرینڈ سنہ 1950 سے چلا آرہا ہے۔ ’سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا تھا جو آج تک برقرار ہے۔‘

انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سوشل میڈیا کی وجہ سے اب لوگوں کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد لاڈلے کیوں تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘

نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جس میں ججز کو ’مینج‘ کر کے اپنی مرضی کے فیصلے لیے گئے جس میں ایک ملٹری ڈکٹیٹر کو آئین میں ترمیم کرنے جبکہ دوسرے فوجی آمر کو وردی میں صدارتی انتحابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔

نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ جب عمران خان ’لاڈلے‘ تھے تو ان کو بھی عدالت سے ایسے ریلیف ملتے رہے ہیں جن کی انھوں استدعا بھی نہیں کی تھی۔

’ان واقعات کو گزرے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب لاہور ہائیکورٹ کے جج صاحبان رات گئے تک بیٹھے عمران خان کے کمرۂ عدالت میں پہنچنے کا انتظار کرتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جمہوری ملکوں میں سیاست دانوں کے لاڈلے ہونے کا معاملہ تو عوام کے سپرد ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے اور یہاں پر سیاست دانوں کو لاڈلہ قرار دینے کا اختیار اداروں نے عوام سے لے کر اپنے پاس رکھ لیا ہے اور یہ اختیار شاید ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔‘

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی بھی ملکی سیاست میں مقتدر حلقوں کی مداخلت کی وجہ عدلیہ کے فیصلوں کو قرار دیتے ہیں۔

’ملک کا عدالتی نظام مولوی تمیز الدین کیس، جس میں نظریہ ضرورت ایجاد کیا گیا، سے ہی جس تباہی کی ڈگر پر چل نکلا تھا آج بھی اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ’ملک کا قانون صرف طاقتوروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور جس طرح طاقتور چاہے گا اس قانون کو اور عدالتوں کو اپنے حق میں کر لے گا۔‘

’جب کوئی طاقتور حلقوں کی خوشنودی یا سرپرستی سے محروم ہو جاتا ہے تو اس کے خلاف ایسے ایسے مقدمات بن جاتے ہیں جس کا اس نے کھبی سوچا بھی نہیں ہوتا اور ان مقدمات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے بڑا دہشت گرد یا بدعنوان پوری دنیا میں نہیں ہے لیکن جب سرپرستی دوبارہ مل جاتی ہے تو وہی وکیل عدالتوں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان جیسا مظلوم پوری دنیا میں نہیں ہے۔‘

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ ’عام مجرم کی سزا تو کبھی بھی کسی صوبائی حکومت نے معطل نہیں کی لیکن نواز شریف کی العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سزا کو معطل کر کے اس تاثر کو مزید تقویت فراہم کی ہے کہ پاکستان کے قانون میں رعایت صرف طاقتور کو ہی مل سکتی ہے۔‘

مسلم لیگ ن کا کیا موقف ہے؟Getty Images

پاکستان مسلم لیگ ن اپنے قائد کو پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ملکی اسٹیبشلمنٹ کا نیا’لاڈلہ‘ قرار دینے پر کیا موقف رکھتی ہے کے سوال پر مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ’سنہ 2017 میں میاں نواز شریف کو ایک سازش کے تحت نااہل کر کے سزائیں دلوائی گئیں اور اب اگر اس سازش کے مرکزی کردار جن میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس صاحبان جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس عمر عطا بندیال شامل تھے، اب اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور عدالتیں ان زیادتیوں کا ازالہ کر کے نواز شریف کو ریلیف فراہم کر رہی ہیں تو اس کو لاڈلہ پن نہیں کہا جا سکتا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’نواز شریف کے خلاف سازش میں اس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کچھ افسران بھی شامل تھے جو اب گھروں کو جا چکے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت نیب بھی سازشیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا۔ اب اگر نیب کے حکام آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں تو اس سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ نیب نواز شریف کو کوئی رعایت دے رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کو معطل کر چکی تھی جبکہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں نواز شریف کو سزا سنانے والے جج مرحوم ارشد ملک کا بیان بھی سب کے سامنے ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان پر کس طرح نواز شریف کو سزا دلوانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی درخواستوں میں استدعا کی ہے کہ سزا کے خلاف ان کی اپیلوں کو بحال کیا جائے اور میرٹ پر ان اپیلوں پر فیصلہ کیا جائے۔‘

انھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ نواز شریف کسی ڈیل کے نتیجے میں وطن واپس آئے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More