العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کس قانون کے تحت معطل کی گئی اور کیا پنجاب کی نگران حکومت کے پاس یہ اختیار تھا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 25, 2023

Getty Images

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی نگران کابینہ کا گذشتہ روز سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کرنے کا فیصلہ اکثر افراد کے لیے حیرت کا باعث تھا۔

نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کا فیصلہ ان کی جانب سے اس معاملے میں دی گئی تازہ درخواست پر اسی قانون کے مطابق کیا گیا ہے جس کے تحت ماضی میں بھی انھیں یہ ریلیف دیا گیا تھا۔

عامر میر کا مزید کہنا تھا کہ ’نواز شریف کی طرف سے پنجاب حکومت کو اس ریفرنس میں سزا کی معطلی کی ایک درخواست موصول ہوئی، جس پر ایک سرکولیشن کے ذریعے منظوری لے کر عملدرآمد کر دیا گیا۔‘

ان کے مطابق ملک کا قانون صوبائی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسا کر سکتی ہے۔

خیال رہے کہ نواز شریف کے خلاف نیب کی طرف سے قائم کردہ العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے سنہ 2018 میں نواز شریف کو جرمانے کے علاوہ سات سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم قید کی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی وہ علاج کی غرض سے نومبر 2019 میں لندن روانہ ہو گئے تھے۔

سزا اب کیوں معطل کی گئی ہے؟

عامر میر کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے اور اس مقدمے میں پہلی بار 29 اکتوبر 2019 کو تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت نے نواز شریف کی سزا معطل کی تھی، جس کے بعد ہی وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے۔

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ’نواز شریف کی جانب سے سزا کی پہلی مرتبہ معطلی کے دو برس بعد پنجاب حکومت کو اس سے متعلق ایک اور درخواست بھی بھیجی گئی مگر اسے مسترد کر دیا گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب نگران کابینہ نے نواز شریف کی تیسری درخواست پر ایک مرتبہ پھر ان کی سزا معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

Getty Imagesسزا کس قانون کے تحت معطل کی گئی ہے؟

عامر میر کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے ضابطہ فوجداری، سی سی پی، کے سیکشن 401 کے تحت نواز شریف کی سزا معطل کی ہے۔

ان کے مطابق نواز شریف کی سزا اسی قانون کے تحت معطل کی گئی ہے جس کے تحت عمران خان کی حکومت نے یہ سب کیا تھا۔

ان کے مطابق ’ایسا سنہ 2019 میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی کیا گیا تھا اور آج بھی اس قانون کے تحت ملک کے تین بار کے سابق وزیراعظم کی سزا کو معطل کیا گیا ہے۔‘

واضح رہے کہ ضابطہ فوجداری کا سیکشن 401 سزاؤں کی معطلی، معافی اور تبدیلی سے متعلق ہے۔

اس میں کہا گیا ہے جب کسی شخص کو کسی جرم کی سزا سنائی گئی ہو تو صوبائی حکومت کسی بھی وقت بغیر کسی شرط کے یا ایسی شرائط پر جنھیں سزا پانے والا شخص تسلیم کرے، اس کی سزا پر عمل درآمد معطل کر سکتی ہے، اور پوری یا سزا کے کچھ حصے کو منسوخ کر سکتی ہے۔

عامر میر نے وضاحت کی کہ اس سزا سے نواز شریف کے مقدمات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اب نواز شریف سے متعلق عدالتوں کا فیصلہ ہی حتمی ہو گا۔

’سزا معطلی پنجاب حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی‘

نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق پنجاب کی صوبائی حکومت کے فیصلے کو درست نہیں سمجھتے۔ ان کے مطابق نواز شریف کو سزا اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے دی تھی، ان کی اپیل میں انھیں اشتہاری اور مفرور اسلام آباد ہائیکورٹ نے قرار دیا تھا۔

عمران شفیق کے مطابق ’پنجاب کے زیرانتظام جیل سے رہائی کے بعد نواز شریف کی سزا معطلی پنجاب حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتی اور اب ان کی سزا معطلی کا مجاز فورم چیف کمشنر اسلام آباد یا اسلام آباد کی عدالتیں ہیں۔‘

نیب کے سابق پراسیکیوٹر کے مطابق ’سیکشن401 ض، ف کے تحت سزا معطلی سے قبل متعلقہ احتساب عدالت کی رائے طلب کرنا بھی ضروری ہوتا ہے جو کہ اس معاملے میں نہیں کیا گیا۔‘

ان کی رائے میں اگر ایک بار سزا معطلی کا حکم کالعدم ہو جائے تو متعلقہ حکومت دوبارہ سے ایسا حکم جاری نہیں کر سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’قانون میں پنجاب حکومت کے لیے سزا معطلی کی گنجائش نہیں تھی۔‘

عمران شفیق کے مطابق جب پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کی رو سے پنجاب حکومت نے نواز شریف کی سزا معطل کی تھی تو اس وقت وہ پنجاب کے زیرانتظام کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔

نیب پراسیکیوٹر کے مطابق نواز شریف کی وہ درخواست بعد ازاں خارج ہونے کی وجہ سے ختم ہو گئی۔ اب نئی درخواست کے وقت وہ پنجاب کی جیل میں نہیں ہیں، اس لیے پنجاب حکومت کا کوئی دائرہ اختیار نہیں بنتا۔

عمران شفیق کی رائے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا وہ فیصلہ بھی عبوری نوعیت کا تھا جو اپیل کی سماعت کے دوران ہی مؤثر تھا، ’جب اپیلخارج ہوئی تو وہ حکم بھی ختم ہو گیا اور تاحال اپیل بحال ہی نہیں ہوئی۔‘

بیرسٹر گوہر خان بھی اس رائے سے متفق ہیں کہ یہ معاملہ صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا تھا کیونکہ نیب وفاقی ادارہ ہے اور اس کے مقدمے میں جو سزا سنائی جاتی اسے صوبائی حکومت معطل نہیں کر سکتی۔

جیل سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی قیدی کسی صوبے کی جیل میں اور کوئی طوفان آ جائے یا کوئی اور ہنگامی صورتحال پیدا ہو جائے تو پھر ایسی صورت میں وہ متعلقہ صوبائی حکومت کسی کو مشروط کچھ وقت کے لیے پیرول پر رہا کر سکتی ہے مگر سزا معطل پھر بھی نہیں کی جا سکتی۔‘

ماضی میں تحریک انصاف کے دور میں نواز شریف کی سزا معطلی کی نظیر سے متعلق بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ ’وہ معاملہ عدالتی حکم کی روشنی میں ہوا تھا اور وہ رہائی اور سزا معطلی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں تھی۔‘

ان کی رائے میں ’اگر صوبائی حکومت کا اقدام درست ہوتا تو پھر منگل کو نواز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے بھی پیش نہ ہوتے اور یہ کہتے کہ بس اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔‘

https://twitter.com/aliijazbuttar/status/1714694860840858043?s=20

سوشل میڈیا پر ردعمل: ’نواز شریف کی درخواستیں منظور اور عمران خان کی مسترد، اب بتائیں کہ لاڈلہ کون ہے؟‘

مقدس بابر نامی صارف نے پنجاب حکومت کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اگر نواز شریف کا تعلق تحریک انصاف سے ہوتا اور آج وہ نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے، عمران کے خلاف بیان دیتے تو انھیں کوئی اور درخواست دینے یا کسی اور عدالت میں پیش ہونے کا بھی تردد نہ کرنا پڑتا۔ بس اس مقصد کے لیے وہ ایک پریس کانفرنس یا انٹرویو دیتے اور سب معاف ہو جاتا۔‘

علی اعجاز بٹر نامی ایک وکیل نے لکھا کہ ’عمران خان کے نیب کیسز میں ضمانت کی درخواستیں سماعت کے لیے فکس تھیں مگر سماعت کینسل کردی گئی جبکہ سزا یافتہ نواز شریف کی نیب کیسز میں ضمانت کی درخواستوں کو بغیراعتراضات لگائے فکس کر دیا گیا ہے۔ اب بتائیں کہ بوسیدہ و فرسودہ نظام کا لاڈلہ کون ہے؟‘

https://twitter.com/AsadQaiserPTI/status/1716759595824091497

یونس نامی صارف نے نواز شریف کے عدالت میں پیش ہونے کو قانون کی بالادستی سے تعبیر کیا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’لگتا ہے کہ قانون اور آئین کی پاسداری نواز شریف کے خون میں دوڑتی ہے۔ پہلے بیٹی کا ہاتھ تھامے قانون کے آگے سرینڈر کیا اب دوبارہ پھر قانون کے آگے خود کو سرینڈر کر دیا۔

اس پر ایک اور صارف نے ان سے یہ استفسارکیا کہ نواز شریف نے سرینڈر کیا ہے یا نظام نے نواز شریف کے سامنے سرینڈر کیا ہے۔

https://twitter.com/SocialDigitally/status/1716780192541118870?s=20

رضا بٹ نامی صارف نے صفائی دیتے ہوئے لکھا کہ ’جو کہتے تھے وہ واپس کیوں نہیں آ رہا، عدالت کا سامنا نہیں کر رہا، ان سب کو خبر ہو نواز شریف واپس آ چکا ہے اور عدالت میں پیش ہو رہا ہے۔‘

کیا نواز شریف سے کوئی ڈیل یا ترجیحی سلوک ہو رہا ہے؟

سوشل میڈیا پر جہاں عام صارفین نواز شریف کی سزا معطلی پر تنقید کر رہے ہیں وہیں سیاسی رہنما بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔

کچھ دن قبل مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد میں رہ کر حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی بھی اب لیول پلئینگ فیلڈ کی بات کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے لے کر کارکن تک اب سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر ن لیگ اور سابق وزیراعظم نواز شریف پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔

اسی طرح پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’پنجاب کی نگران حکومت نے کس قانون کے تحت نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کی۔

پنجاب کی نگران حکومت سے کس طرح صاف شفاف انتخابات کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن فی الفور پنجاب کی نگران حکومت کو معطل کر کے غیر جانب دار نگران حکومت کا قیام عمل میں لائے اور ملکی قانون اور آئین کا مزید تمسخر نہ اڑائے۔‘

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں سے ان کا مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے اس تنقید پر کوئی مؤقف نہیں دیا۔

پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ڈاکٹر آصف کرمانی نے بی بی سی کو بتایا کہ جن حالات میں نواز شریف کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے تھے اب اس کے ازالے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کے مطابق العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہی ایک سینیئر سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے انکشافات ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ کس طرح نواز شریف کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا تھا۔

ڈاکٹر آصف کرمانی کے مطابق ’نواز شریف نے خود کو عدالتوں کے سامنے سرینڈر کر لیا ہے۔‘

ان کے مطابق اس سے قبل بھی ان کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کی تھی۔ تاہم ان کے خیال میں جو بے توقیری نواز شریف اور ان کے خاندان کی گئی ہے اس کا نواز شریف کو ابھی تک انصاف نہیں ملا۔

ان کی رائے میں انھی عدالتوں سے انھیں سزا سنائی گئی تھی اور اب انھی عدالتوں سے انھیں ریلیف بھی مل رہا ہے کیونکہ پانچ برس بعد اب نیب بھی تسلیم کرتی ہے کہ وہ سابق وزیراعظم کو اقتدار سے بے دخل کرانے کے بعد ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں کر سکے ہیں اور یہ انھیں ان مقدمات میں کوئی ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔

ڈاکٹر کرمانی کے مطابق اگر نواز شریف پر جرم ثابت ہو جاتا اور پھر انھیں کسی قسم کی بھی کوئی رعائت دی جاتی تو پھر اسے ڈیل یا ترجیحی سلوک کہا جا سکتا تھا۔

سینیٹر کرمانی کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھیشخص کے ساتھ کوئی ظلم و زیادتی ہوئی ہے تو پھر اس کی تلافی ضرور ہونی چاہیے۔

ان کے مطابق نواز شریف کا ان 440 پاناما پیپرز والوں میں نام تک شامل نہیں تھا مگر پھر بھی انھیں طویل عرصے سے عدالتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب ملک میں سیاسی انتقامی کارروائیاں ختم ہونی چاہییں تا کہ ملک آگے بڑھ سکے اور صحیح معنوں میں ترقی کا منازل طے کر سکے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More