Getty Images
سابق وزیر اعظم عمران خاناور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر گمشدگی کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے پیر کی صبح دونوں ملزمان پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے استغاثہ (پراسیکیوٹرز) کو اپنے گواہوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت میں دونوں ملزمان کے خلاف پیش کیے گئے چالان کے مطابق اس مقدمے میں استغاثہ کے 28 گواہان کی فہرست پیش کی گئی ہے۔
ان گواہان میں سابق سیکریٹری خارجہ سہیل احمد، امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید، سابق وزیر اعظم اور اس مقدمے کے مرکزی ملزم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور سابق سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر بھی شامل ہیں۔
دیگر گواہان میں وزارت خارجہ ، وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور کابینہ ڈویژن کے حاضر سروس افسران شامل ہیں۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اس کیس میں ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران اس مقدمے کے چالان کی نقول فراہم کی گئیں تھیں اور آج عدالت کی طرف سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تو انھوں نے صحت جرم سے انکار کر دیا۔
وکیل استغاثہ راجہ رضوان عباسی کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی گواہان کی فہرست متعلقہ جج کے سٹاف کو فراہم کر دیں گے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ چالان میں جن گواہوں کے نام دیے گئے ہیں ان سب کو گواہی کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے بلکہ یہ استغاثہ کا استحقاق ہے کہ وہ ان گواہوں میں سے جس کو چاہے پیش کرے اور جس کو چاہے گواہی کے لیے عدالت میں طلب نہ کرے۔
انھوں نے کہا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد ’استغاثہ کی جانب سے یہ کوشش کی جائے گی کہ جلداز جلد گواہوں کے بیانات کو قلمبند کروایا جائے تاکہ ملزمان کے وکلا اُن پر جرح کر سکیں اور اس مقدمے کا جلد از جلد فیصلہ ہو جو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘
مقدمے کا چالان: ’سازش قرار دینا حکومت کی طرف سے اخذ کردہ ایک سیاسی نتیجہ تھا‘Getty Images
عدالت میں اس مقدمے کے چالانکی جو نقول پیش کی گئی ہیں اس میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور سابق سیکریٹری خارجہ اسد مجید اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے بیانات کو بھی شامل کیا گیا ہے جو انھوں نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت اس مقدمے کی سماعت کرنے والی ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کو دیے تھے۔
اس مقدمے میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ جب وہ امریکہ میں سفیر تھے تو انھوں نے امریکی سفارتکارڈونلڈ لو کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے متعلق جو سائفر بھیجا تھا اس میں ’خطرہ‘ یا ’سازش‘ جیسے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا اور نہ ہی انھوں نے کسی ممکنہ سازش کے بارے میں کوئی تجویز پیش کی تھی۔
انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اس کو سازش قرار دینااس وقت کی حکومت کی طرف سے اخذ کردہ ایک سیاسی نتیجہ تھا۔‘
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے دوماہ قبل سائفر کے مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔
جس وقت سابق سفیر نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا اس وقت سابق وزیر اعظم عمران خان توشہ خانہ کے مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد اٹک جیل میں قید تھے۔
اس چالان میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے پریڈ گراونڈ میں کی گئی تقریر کے اس حصے کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو انھوں سائفر سے متعلق کی تھی۔
مقدمے کے چالان میں سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان سائفر کی کاپی کو اپنے پاس رکھنے کے مجاز نہیں تھے اور انھوں نے جانبوجھ کر اس کی کاپی اپنے پاس رکھ لی اور واپس دینے سے انکار کر دیا۔
کارروائی اب کیسے آگے بڑھے گی؟Getty Images
اس مقدمے کی تفیش کرنے والی ٹیم نے مختلف گواہوں کے بیانات اور پیش کیے گئے ثبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خا ن اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سیکریٹ ایکٹ 1923 کی دفعہ پانچ اور نو کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی وکلا ٹیم میں شامل شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ استغاثہ کی یہی کوشش ہو گی کہ وہ جلد از جلد گواہان کے بیانات کو ریکارڈ کروا کر اس مقدمے کا فوری فیصلہ کروایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ جب استغاثہ کی جانب سے گواہوں کو بیانات ریکارڈ کروانے کے لیے عدالت میں طلب کیا جائے گا تو وکیل صفائی ان گواہان پر جرح کریں گے۔
تاہم انھوں نے کہا کہ قانون میں وقت کی کوئی قید نہیں ہے کہ وکیل صفائی کتنی دیر تک استغاثہ کی طرف سے پیش کئے گئے گواہ پر جرح کر سکتا ہے۔
شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں بتا سکتے کہ وکیل صفائی یعنی ملزمان کے وکلا اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش کریں گے یا نہیں ۔
فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل افتخار شیروانی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس مقدمے میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونے اور ان گواہان پر جرح کا عمل مکمل ہونے کے بعد عدالت ملزمان کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرے گی۔
افتخار شیروانی کے مطابق جس میں اس وقت تک پیش کی گئی شہادتوں کے بارے میں ملزمان کو آگاہ کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’عدالت ملزمان کو یہ آپشن بھی دیتی ہے کہ اگر انھوں نے اپنا دفاع میں کوئی گواہ یا کوئی دستاویزی ثبوت پیش کرنا ہے تو وہ کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ملزمان کے بیانات ریکارڈ ہونے کے بعد فریقین دلائل دیں گے جس کے بعد عدالت ثبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ سنائے گی۔
افتحار شیروانی کا مزید کہنا ہے کہ اس ضمن میں کوئی باضابطہ قواعد تو نہیں ہیں کہ کتنے عرصے میں یہ عدالتی کارروائی مکمل ہو گی کیونکہ عدالتی کارروائی کے مکمل ہونے کا دارومدار ججز، فریقین کے وکلا اور گواہوں کی دستیابی پر ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ عدلیہ کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہیں جہاں پر چند کیسز کا فیصلہ جلد از جلد کیا گیا جبکہ کئی کیس برسوں لٹکتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد متعلقہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کیا جا سکے گا۔