EPA
چار سال کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد پاکستان واپسی پر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں قریب ایک گھنٹے کی تقریر کی جس میں مفاہمت کا بیانیہ غالب رہا۔
21 اکتوبر کی شام لاہور کے مینار پاکستان میں جب نواز شریف نے اپنی تقریر شروع کی تو بعض مبصرین اس امکان کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ 2017 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد اپنی مزاحمت کی سیاست جاری رکھیں گے۔ تاہم اس تقریر میں وہ آئین پر عملدرآمد کے لیے ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کو متحد ہونے کا پیغام دیتے رہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ ان کا دل زخموں سے چور ہے مگر اس کے باوجود اس میں انتقام کی تمنا نہیں۔
واطن واپسی پر نواز شریف کا پہلا عوامی خطاب جہاں بظاہر ن لیگ کی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہے وہیں بعض تجزیہ کار اس میں نواز شریف کا نیا بیانیہ بھی تلاش کر رہے ہیں۔
ہم نے کچھ تجزیہ کاروں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سابق وزیر اعظم کی اس تقریر میں ان کے نزدیک سب سے اہم بات کیا تھی اور آیا یہ ’نیا بیانیہ‘ انھیں 2024 کے عام انتخابات میں فتح دلوا سکے گا۔
Getty Imagesنواز شریف کی سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے ساتھ ایک تصویر’الیکشن سے پہلے وہ پھونک پھونک کے قدم رکھیں گے‘
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی تقریر ایک ایسا موقع ہے کہ جب انھوں نے فوج، عدلیہ اور سیاسی جماعتوں میں اپنے کسی حریف کا نام لیے بغیر صاف کہا کہ اگر انھیں دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو وہ کسی سے بھی انتقام نہیں لیں گے۔
اپنے خطاب میں نواز شریف بار بار دعا کرتے بھی دکھائی دیے کہ ’اللہ میرے دل میں انتقام کا جذبہ ابھرنے بھی نہ دے۔‘
اسے تجزیہ کار ایک ’جامع‘ اور ’محتاط‘ بیانیہ قرار دے رہے ہیں۔ جیسے صحافی عاصمہ شیرازی تبصرہ کرتی ہیں کہ نواز شریف کی تقریر میں ’ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ غائب تھا۔ شاید وہ محاذ آرائی نہیں چاہتے۔‘
تاہم انھوں نے اسے ایک ’جاندار تقریر‘ کہا۔ ’شاید الیکشن سے پہلے وہ پھونک پھونک کے قدم رکھیں گے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی نہ ہو۔‘
دوسری طرف اینکر نسیم زہرہ اس بیانیے کو پاکستانی جمہوریت کے لیے ’متوازن‘ اور ’مثبت‘ سمجھتی ہیں۔ ’پاکستان کی سیاست میں اس وقت ماحول بہت گدلا ہے۔ اگر نواز شریف اس سے گریز کرنے اور دور رہنے کی بات کر رہے ہیں تو یہ بہت اہم ہے۔‘ انھوں نے اس بات کو بھی سراہا کہ نواز شریف نے اپنی حریف جماعت تحریک انصاف پر لفظی حملے نہیں کیے۔
مگر صحافی فہد حسین نے نشاندہی کی ہے کہ یہ ان کے ماضی کے بیانیے سے کچھ مختلف ہے۔ ’وہ جس طرح ایک بیانیہ لے کر چل رہے تھے کہ ان لوگوں کا احتساب کرنا ہے جنھوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اس کی وجہ سے خیال تھا کہ ایک منقسم معاشرے میں مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ تو انھوں نے اس کو واضح کر دیا کہ وہ ماضی کو بھلا کر آگے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔‘
Getty Imagesتو کیا یہ بیانیہ نواز شریف کو الیکشن جتوا سکتا ہے؟
سال 2024 انتخابات کا سال ہے اور الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخر میں شیڈول کے اجرا کا اعلان بھی کیا ہے۔ ایسے میں نواز شریف کا مزاحمت سے ’مفاہمت‘ پر منتقل ہونا ووٹروں کو متاثر کر سکے گا؟
فہد حسین نے کہا کہ ’یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ (اسٹیبلشمنٹ سے) مزاحمت بالکل مفاہمت ہو گئی ہے۔‘
’انتخابی مہم کا وقت قریب ہے۔ اس میں جب تک نواز شریف اپنے بیانیے میں تھوڑی سی ’کاٹ‘ نہیں لائیں گے تب تک شاید انتخابی مہم میں وہ اتنا اثر نہ لا سکیں۔ تو دیکھنا ہو گا کہ وہ انتخابی مہم کے وقت اپنی تقریر کے مطابق اسی بات تک محدود رہتے ہیں یا اس سے تھوڑا باہر نکلتے ہیں۔‘
نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ مفاہمت کی بات اس وقت تک اہم ہے کہ جب تک وہ ’اٹیک نہیں کریں گے۔ عمومی طور پر یہی لگتا ہے کہ اس بار وہ نام لے کر نہیں کہیں گے۔‘
’جب وہ کہہ رہے ہیں کہ سب کے ساتھ مل کر چلنا ہے تو بات مفاہمت اور لڑائی سے ہٹ کر ہے۔ انھوں نے اس کا جواب بھی دیا کہ آئین کے مطابق سب کو مل کر چلنا ہے۔ یہ اچھی اور ضروری بات ہے۔‘
نسیم زہرہ کے مطابق ’نواز شریف کی یہ بات دوستی اور لڑائی کے پیرائے میں نہیں لیکن یہ اس بارے میں ہے کہ حکومت کس انداز میں چلانی ہے۔ لگتا ہے کہ اس بار وہ آرٹیکل چھ (غداری سے متعلق شق) پر زور نہیں دیں گے اور جرنیل وغیرہ کا نام نہیں لیں گے۔ تاہم (یہ واضح ہے کہ) انھوں نے فی الحال کوئی اعلان جنگ نہیں کیا۔‘
’نواز شریف ایک اور فریش سٹارٹ کے لیے تیار‘
نواز شریف نے 21 اکتوبر کی تقریر میں سب کے مل کر ساتھ چلنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ملک جو بار بار حادثے کا شکار ہوتا ہے، اس کے لیے نئے سفر کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔‘
تو کیا نواز شریف بھی اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ’ہائبرڈ‘ انداز میں کام کرنے کا سوچ رہے ہیں؟
اس پر فہد حسین نے کہا کہ ’یہ اہم نقطہ تھا کہ تمام تر لوگوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہے تو یہ ان کی پالیسی کا نیا رخ ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کام کرنا چاہتے ہیں۔
’میرے خیال میں نواز شریف کی پوزیشن اپنے بھائی (شہباز شریف) کے تھوڑی قریب آ گئی ہے۔ لگ رہا ہے کہ نواز شریف ایک فریش سٹارٹ کے لیے تیار ہیں۔‘
مگر فہد حسین متنبہ کرتے ہیں کہ ’عمران خان کے ساتھ جو ہوا وہ (تاریخ کا) سائیکل ہے جو پاکستان میں کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ اگر ہم نے اس گرداب سے باہر نکلنا ہے تو نئے رولز آف دا گیم کے تحت پاکستان کو چلانا ہو گا۔ سیاست میں بے دخلی کے بجائے سیاست میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ چار دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے نواز شریف کی پاکستان واپسی سے لگتا ہے کہ ’وہ اپنی سوچ میں تبدیلی لا رہے ہیں۔‘
’نواز شریف کا کیریئر آہستہ آہستہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے تو مجھے لگتا یوں ہے کہ یہ ممکنات میں شامل ہے کہ وہ اپنی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے ایک نئے آغاز کی طرف بڑھیں اور کوشش کریں کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنائیں۔‘
فہد نے کہا کہ ’شارٹ ٹرم ہمیں شاید اس بہتر ورکنگ ریلیشن کی جھلک نظر بھی آئے۔‘