Getty Images
سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف 21اکتوبر کو پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ چار سال قبل سنہ 2019 میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہونے والے نواز شریف کی واپسی اس پاکستان میں نہیں ہو رہی جسے وہ چار سال قبل چھوڑ کر گئے تھے۔
گذشتہ چار برسوں میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے لے کر معاشی حالات سمیت بہت سے تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔
گذشتہ چار برسوں میں نہ صرف سیاسی جماعتوں کے بیانیے تبديل ہوئے بلکہ حکومتیں بھی تبدیل ہوتی چلی گئیں۔ کچھ ادارے مضبوط سے مضبوط تر ہوگئے تو کہیں سے یہ آوازیں آئیں کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔
ان تمام تر تبدیلوں کے باوجود بھی مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے بیشتر رہنماؤں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد معاملات تبدیل ہو کر بہتری کی طرف جائیں گے۔
جبکہ دوسری جانب ان کے سیاسی حریفوں کا یہ ماننا ہے کہ نواز شریف کی سیاسی تاریخ اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھا جائے تو ان کے لیے آنے والا وقت آسان نہیں ہوگا۔
لیکن ایک بات کو طے ہے کہ جب نواز شریف پاکستان واپس لوٹیں گے تو انھیں چار سال قبل والے پاکستان سے مختلف حالات کا سامنا ہوگا۔
Getty Imagesسیاست میں تبدیلی
نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد کے برسوں میں نہ صرف ان کی ذاتی زندگی اور سیاست میں بلکہ ملکی سیاسی منظر نامے پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
نواز شریف نے اپنی حکومت جانے کے بعد مزاحمتی سیاست کا انداز اپنایا اور ملکی سیاست میں فوج کی مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیے اپنایا۔ سنہ 2018 میں نواز شریف اور ان کی بیٹی کا احتساب عدالت سے سزا پا کر جیل جانا، ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی وفات، دوران قید عام انتخابات میں ان کی جماعت کی شکست اور پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنا، یہ سب اس کی وجہ بنا۔
نواز شریف نے سنہ 2019 کے دوران علاج کی غرض سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے وہاں بیٹھ کر ملکی سیاست میں کردار ادا کیا۔ پھر ان کے سیاسی حریف عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں دراڑ آئی۔ یوں تحریک انصاف اور فوج کے ’ایک پیج پر‘ ہونے کا بیانیہ بھی ختم ہوگیا۔
اس دوران ملک کی 13 سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان مسلم لیگ ن کے اتحاد پی ڈی ایم نے عمران خان کے خلاف یہ بیانیہ بنایا کہ انھیں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ملک پر مسلط کیا گیا۔
نواز شریف پی ڈی ایم کے جلسوں میں اپنی تقریروں میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر بھی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
پھر سنہ 2020 کے اواخر میں ان کی جماعت کے سیاسی بیانیے میں تبدیلی نظر آئی۔ وہی جماعت جو اس وقت کی حکومت کو خراب ملکی معاشی صورتحال کا ذمہ دار اور فوج پر سیاست میں مداخلت کا الزام عائد کرتی تھی، اس نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت کر دی۔
اپریل 2022 میں جب عمران خان کو باقاعدہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم کی کرسی سے ہٹایا گیا تو مسلم لیگ ن پی ڈی ایم اتحاد کے ذریعے حکومت میں آنے میں کامیاب ہو گئی۔
اس وقت مسلم لیگ ن کا مزاحمتی بیانیہ مفاہمتی بیانیے میں تبدیل ہو گیا اور عمران خان نے فوج کے ساتھ ’ایک پیج‘ کی مفاہمتی پالیسی ترک کرتے ہوئے مسلم لیگ کی جگہ لی اور اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاسی بیانیہ اپنایا۔
Getty Images’جو 2018 میں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوا، وہی اب تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے‘
اکثر سیاسی تجزیہ کار یہ رائے رکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر ملکی سیاست کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔
تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بظاہر تو وہی سب کچھ ہو رہا جو پہلے ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سیاسی کردار تبدیل ہوئے ہیں۔ اس سیاسی کھیل میں صرف سیاسی جماعتیں ہی کمزور ہوئی ہیں۔‘
انھوں نے مزيد کہا کہ اس پورے عمل میں مسلم لیگ ن کے رویے نے دیگر قوتوں کو مضبوط کیا ہے۔ ’اگر وہ سیاسی طور پر اپنے آپ کو مضبوط رکھتے اور اپنے بیانیے پر قائم رہتے تو ان کے حالات بھی مختلف ہوتے۔ لیکن انھوں نے ڈیل کی طرف جانے کو ترجیح دی۔ اس وقت نواز شريف وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو 2018 میں پی ٹی آئی ادا کر رہی تھی۔‘
اسی تجزیے کو سوال کی شکل دے کر مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پی پی پی کے رہنماؤں کے سامنے رکھا تو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں ہی کے سیاسی رہنماؤں کا جواب یہ تھا کہ ’یہ بات درست نہیں ہے۔‘
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ’ہم عوام کی طاقت سے حکومت میں آئے تھے اور آج بھی اگر مداخلت کے بغیر الیکشن ہوں تو تحریک انصاف ہی جیتے گی۔‘
جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا یہ ماننا ہے کہ ’مسلم ن نے جو کیا وہ اپنے لیے نہیں بلکہ پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے کیا۔ اگر ہم یہ نہ کرتے تو عمران خان کی ناکام پالیسوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ اس لیے ہم نے اپنی سیاست پر پاکستان کو ترجیح دی۔‘
جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن کا اس بارے میں یہ کہنا ہے کہ ’دونوں جماعتوں نے اپنے مفادات کے لیے پاکستان کے جمہوری نظام کو مزید کمزور کیا ہے۔‘
تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا کہ ’پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہی ہوتا آیا ہے جو آج ہو رہا ہے۔ اقتدار کی بھوکی سیاسی جماعتیں فوج کے ہاتھوں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی ہیں اور دیگر ادارے جس میں عدلیہ اور بیوروکریسی شامل ہیں، وہ فوج کے ساتھ بطور جونیئر کرائم پارٹنر کے کام کرتے ہیں۔‘
Getty Imagesفوج کے ملکی سیاست میں کردار میں تبدیلی
پاکستانی سیاست کی بات ہو تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا نام بار بار لیا جاتا ہے۔ ویسے تو پاکستان کی فوج ہمیشہ ہی اس قسم کے تمام الزامات کی تردید کرتی رہی ہے اور بار بار کہا جاتا رہا کہ فوج کا پاکستان کی سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
تاہم 23 نومبر 2022 کو اپنے الوداعی خطاب میں سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ فوج پر تنقید اس لیے ہوتی ہے کیونکہ فوج گذشتہ 70 سال کے دوران سیاست میں مداخلت کرتی آئی ہے جو ’غیرآئینی‘ تھا۔ ’تاہم فروری 2021 میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوج آئندہ سیاست میں کسی صورت مداخلت نہیں کرے گی۔‘
ماضی قریب میں بھی پاکستانی فوج کے ترجمان بھی یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی۔
سنہ 2021 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد عمران خان نے فوج پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا۔ مگر اس دوران نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی جانب سے مکمل خاموشی رہی اور انھوں نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کو نہیں دہرایا۔
نو مئی کو عسکری تنصیبات پر حملوں پر فوج نے کھل کر یہ بیان دیا کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس ضمن میں تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن پر جماعت اسے ملک میں ’غیر اعلانیہ مارشل لا‘ کہتی ہے۔
یقیناً فوج پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہے جس کی کئی مثالیں حالیہ دنوں میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ نو مئی کے واقعات میں مطلوب تحریک انصاف کے وہ رہنما اور کارکن جو پہلے غائب تھے، وہ ٹی وی سکرینز پر نمودار ہوئے، جیسے صداقت عباسی، عثمان ڈار اور فرخ حبیب۔ ان سب نے سابقہ موقف چھوڑ کر نو مئی کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا۔
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو چھوڑ دیا جائے۔‘
فوج کے سیاست میں کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ ’پہلے نواز شریف کو اقتدار سے نکال کر فوج عمران خان کو اپنی مرضی سے اقتدار میں لائی۔ اور عمران خان کو باہر نکال کر فوج پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔
’عمران کو اقتدار میں آنے سے سیاسی قوتیں روک نہیں پائیں اور عمران کو نکالنے میں بھی کسی جمہوری ابھار کو کوئی دخل نہیں۔ فوج نے ذرائع ابلاغ سمیت معیشت، نادرا اور نیب تک ہر جگہ اپنا غلبہ بڑھا لیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ نو مئی کو دراصل عسکری بالادستی مستحکم کرنے کے لیے اچھالا جا رہا ہے۔ ’واحد امید یہ ہے کہ معیشت کی منطق ملکی سمت تبدیل کرنے پر مجبور کر دے ورنہ موجودہ پاکستان مکمل طور پر غیر اعلانیہ عسکری گرفت میں ہے۔‘
Getty Imagesپاکستان کی معیشت
معیشت کی تبدیلی وہ تبدیلی ہے جو سیاستدانوں، عوام اور فوج سب کے لیے ہی اہم ہے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت اور آنے والے دنوں میں سیاست میں بیانیے کا پہیہ اسی پر چلے گا۔
2015 تک پاکستان موجودہ معاشی حالات سے بہتر تھا۔ مسلم لیگ ن، پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتیں عمران خان اور ان کی معاشی پالیسوں کو اس کا قصوار سمجھتی ہیں جبکہ تحریک انصاف اس کا قصور وار 18 ماہ اقتدار میں رہنے والی شہباز شریف کی حکومت کو قرار دیتی ہے۔
تجزیہ کار عاصمہ شیرازی اس بارے میں تبصرہ کرتی ہیں کہ ’یہ بات درست ہے کہ پاکستانی معیشت اس وقت تمام سیاسی فیصلے کروا رہی ہے۔‘
انھوں نے مزيد کہا کہ عین ممکن ہے کہ نواز شریف مزاحمتی بیانیہ ترک کر کے اب معاشی بیانیہ سامنے لے کر آئیں گے۔ ’لیکن ان کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ کیسے اس سب میں آئین کی بالادستی برقرار رکھ پائیں گے۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے پہلے بھی پاکستان کو بحرانوں نے نکالا تھا اور اب بھی وہ پاکستان کی معیشت ٹھیک کر لیں گے۔
تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ ’آج پاکستان جس معاشی بحران کا شکار ہے، اس کی ذمہ دار شہباز شریف حکومت ہے۔ ہم نے تو کووڈ جیسے مشکل حالات میں بھی پاکستان کی معیشت کو سنبھال کر رکھا تھا۔‘
Getty Imagesکیا ملک کی عدلیہ بھی تبدیل ہوئی؟
تاريخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ عدلیہ اور پاکستانی سیاست کے راستے ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ کئی مرتبہ عدلیہ کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں پر تنقید کی گئی اور کبھی انھیں مخصوص حلقوں کی طرف سے سراہا بھی گیا اوریہ سلسلہ آج بھی برقرار ہے۔
گذشتہ چند سالوں پر نظر ڈالیں تو عدلیہ کے کردار پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ یہاں بھی سیاسی پارٹیاں تو تبدیل ہوئیں لیکن اعتراضات وہیں رہے۔
پہلے مسلم لیگ ن نے عدلیہ پر عمران خان کی حمایت کا الزام لگایا تو اب تحریک انصاف یہ شکوہ کر رہی ہے کہ انھیں عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا۔
اس بارے میں تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’عدالتی ہواؤں کے رُخ سیاسی حالات دیکھ کر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ معاملات آج سے نہیں ہیں۔ ہماری عدلیہ کی ایک تاریخ ہے جس میں کئی مقدمات شامل ہیں۔‘
وہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا حوالا دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہماری عدلیہ ملک کے سیاسی نظام میں مداخلت کرنے والوں کی ساتھی رہی ہے اور سازشی کردار ادا کرتی رہی ہے۔‘
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے پی پی پی کے رہنما ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں نواز شریف عدلیہ کے لیے تحریک چلاتے رہے۔۔۔ لیکن وہی نواز شریف پچھلے کچھ عرصے سے عدلیہ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ تو یہ صرف وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔‘
انھوں نے مزید تبصرہ کیا کہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے ’ہمارے ملک میں سیاسی انجینیئرنگ کی جاتی ہے اور غیر جمہوری عمل کے ہتھکنڈے استعمال کر کے لوگوں کو اقتدار میں لایا جاتا ہے۔‘
Getty Imagesپاکستانی معاشرے میں ہونے والی تبدیلی
سیاست میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ معاشرے اور عوام کے رویوں میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان کا ووٹر آج پہلے سے زیادہ سیاسی سمجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات میں دلچسپی لینے لگا ہے جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
جبکہ معاشرے میں عدم برداشت اور سیاسی تفریق بھی بڑھ گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال ان حالات کا الزام عمران خان پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’عمران خان نے معاشرے میں عدم برداشت پیدا کی ہے کیونکہ انھوں نے سیاست میں نفرت اور بد تمیزی کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ نواز شریف نے کم از کم کبھی معاشرتی بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔‘
تاہم تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا ووٹر اب سمجھدار ہو گیا ہے۔ وہ باشعور ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ کس سیاستدان نے اس ملک کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتا ہے۔ جب آپ ایک مقبول لیڈر کو جیل میں ڈال کر عام انتخابات کروانا چاہیں گے تو ووٹ کا حق رکھنے والا ہر شخص آواز اٹھائے گا۔ یہ ممكن نہیں ہے کہ آپ لوگوں کی خواہشات کو نظر انداز کر کے یہ گمان رکھیں کہ ملک صیحح سمت میں جا رہا ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ سب سیاسی نفرتوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اتنا تقسیم ہو گیا ہے۔
وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے عوام کو 1958 سے بتایا، سمجھایا اور پڑھایا گیا ہے کہ سیاستدان بدعنوان اور نااہل ہیں۔ یہ ذہن سازی نصاب، مذہبی علما، اخبار، الیکٹرانک میڈیا، استاد اور حمایتی سیاست دانوں کے ذریعے کی گئی ہے۔
’عوام کی اکثریت سیاست سے نابلد، لاتعلق اور بے زار ہو چکی ہے۔ وہ ایک بند ذہن کے ساتھ کسی ایسے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے قرضے معاف کروا دے، ان سے ٹیکس نہ لے، چیزیں سستی کر دے اور اگر ممکن ہو تو ان کے لیے دو چار ملک بھی فتح کر دے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جہاں پاکستانی عوام ماضی میں کل نسیم حجازی اور تلقین شاہ جیسے کرداروں کے دیوانے تھے تو آج عمیرہ احمد کو پڑھتے ہیں اور قاسم علی شاہ کو سنتے ہیں۔ ’جاوید چوہدری پاکستان کا مقبول ترین صحافی ہے۔ رضا علی عابدی اور غازی صلاح الدین کا شاید کوئی نام تک نہیں جانتا۔‘
Getty Imagesکیا نواز شريف کی سیاست میں بھی تبدیلی آئے گی؟
نواز شريف اور ان کی سیاست کے بارے میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف عمر اور صحت کے جس حصے میں ہیں، پارٹی پر ان کی گرفت پہلے جیسی نہیں ہو گی۔‘
ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کی صورت میں انھیں ایک مضبوط مخالف دھڑے کا سامنا کرنا ہوگا۔ ’پاکستان کی معیشت اور سیاست بنیادی فیصلوں کی متقاضی ہے اور نواز شریف یہ نہیں کر پائیں گے۔ ماضی میں بھی فوج سے نواز شریف کا ٹکراؤ نواز شریف کی کسی غلطی کے باعث نہیں ہوتا تھا۔ سیاست اور معیشت میں فوج کی مداخلت کے باعث منتخب حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ میں تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔‘
مسلم لیگ ن کے مخالف زیادہ تر سیاستدانوں کا یہ خیال ہے کہ نواز شریف کے لیے مستقبل میں راستہ آسان نہیں ہو گا۔
ندیم افضل چن کا اس بارے میں کہنا ہے ’نواز شریف کی ایک تاریخ رہی ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے کچھ عرصے بعد مکمل طور پر ہر چیز کا کنٹرول چاہتے ہیں جو اس ملک میں ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ماضی میں ان کے اقتدار سے جانے کا سبب بنی ہے۔‘
ندیم افضل چن کو یقین ہے کہ نواز شریف ’پاکستان واپس آکر زیادہ دیر تک مفاہمت کی سیاست نہیں کر پائیں گے۔ لیکن وہ اس چیز کے بھی ماہر ہو چکے ہیں کہ انھوں نے فوج کے ساتھ کس حد تک چھیڑ خانی کرنی ہے۔‘