Getty Images
شرط ہار پر لگی ہو تو جیتنا آسان ہے مگر اس جیتکو فتح تصور کرنا ایک اور شکست۔۔۔ ہم مشروط زندگیاں جینا سیکھ گئے ہیں یا زندگی ہی شرط بن چکی ہے کہ جو چاہے اسے جیت لے۔
کم از کم سیاست کے میدان میں مشروط کامیابیاں سیاسی جماعتوں کی ضرورت بن چکی ہیں۔ کبھی مصلحت کبھی مفاد اور کبھی سمجھوتہ، مزاحمت فقط خود سے اور مفاہمت اپنے مفادات سے۔۔۔ کیا بدلا ہے؟ کیا بدلے گا؟ کون بدلے گا؟ شکوہ کس سے کریں زمانہ شناس سیاست دانوں سے یا موقع شناس رہنماؤں سے؟
اسٹیبلشمنٹ تو گویا ایسی نیوٹرل ہوئی کہ اب مزید اعتدال کی ضرورت نہ رہی۔ ازل کی اٹل اسٹیبلشمنٹ نے رسوائی کے بدترین ادوار میں بھی کبھی بے نظیر بھٹو جیسی رہنما اور پیپلز پارٹی جیسی جمہوریت پسند جماعت سے این آر او لیا تو کبھی ن لیگ سے مفاہمت طے کی۔
تاہم ن لیگ کی ’اسٹیبلشمنٹ آشنائی‘ معتبر رہی اور وہ ستانوے کے بعد 2013 میں بھی بھاری اکثریت کے الزامات سے مستفیض ہوئی۔ دھاندلی کے الزامات تب بھی لگے اور واضح اکثریت کی خواہش بھی تکمیل کو پہنچی۔
2018 کے انتخابات تو بند آنکھوں سے بھی نظر آتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کی اس قدر کھلی حمایت میں سامنے آئی کہ کوئی پردہ نہ رہا۔ کبھی ن لیگ کی ایک وکٹ گری کبھی دوسری۔۔۔ جنوبی محاذ کی تو سرائیکی بیلٹ کی ساری قیادت تحریک انصاف کی جھولی میں آ گری۔
گلے میں لٹکنے والا ایک جھنڈا اور اُس کے پیچھے نظر نہ آنے والا ڈنڈا بلآخر سیاسی وکٹوں کا نشان بن گیا اور یوں انتخابات سے قبل سیاسی وفاداریوں کی صورت انتخابی دھاندلیوں کا آغاز ہوا۔
بات یہاں تک رہتی تو درست تھا۔ عدلیہ کے محاذ پر بھی ایک طرف صداقت اور امانت کی اسناد تو دوسری جانب نااہلیت کی تلوار چلائی جاتی رہی۔ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے قہر کا نشانہ بنے جبکہ تحریک انصاف فائدہ اُٹھاتی رہی۔ن لیگ کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کیا جاتا رہا اور تحریک انصاف کے لیے رستہ ہموار ہوا۔
Getty Images
سادہ اکثریت کی مانگی تانگے کی حکومت تو تشکیل پائی مگر یہ دوستی بھی دوام نہ پا سکی۔تحریک انصاف مقتدرہ کے گلے ایسی پڑی کے کبھی بھلائی نہ جا سکے گی۔
نو مئی کے بعد کے حالات یکسر تبدیل ہوئے۔ مقتدرہ غیر سیاسی سے سیاسی ہوئی، نہیں سمجھ آتا کہ قصوروار کون ہے؟ تحریک انصاف کہ جس نے سیاست میں تشدد کو داخل کیا اور غیرسیاسی اور غیر دانشمندانہ فیصلوں سے اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کیا یا طاقتور مقتدرہ کا غیر سیاسی ہونا محض آنکھ کا دھوکا تھا؟
اب بہر حال اسٹیبلشمنٹ ماضی سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے کہ اب آنکھ کے تاروں کو بھی بولنے کی ’مشروط اجازت‘ ہی ہو گی۔
نواز شریف واپس آ رہے ہیں، خوب دھوم ہے کہ لندن سے ریڈ کارپٹ رخصتی کے بعد اب واپسی بھی شاندار ہو گی۔ ایک اور سٹیج سج چکا ہے، تحریک انصاف کی وکٹیں دھڑا دھڑ گر رہی ہیں اور استحکام پارٹی کا "سیاسی بفر زون" تیار ہے۔
فرخ حبیب جیسا تحریک انصاف کا جیالا ’روپوشی یا گرفتاری‘ کے بعد عمران خان کے خلاف چارج شیٹ لیے کھڑا ہے۔ فرخ حبیب کو زمانہ طالبعلمی سے تحریک انصاف سے جُڑے دیکھا اور جس طرح فرخ نے سیاست میں جدوجہد اور نظریاتی وابستگی کو اوڑھنا بچھونا بنایا اس کی مثال کم ملتی ہے۔ ایسے کارکن جب لاتعلقی کا اظہار کریں تو سمجھ لیں کہ نظریہ اپنی موت آپ مر گیا ہے۔
کیا بدلا ہے؟ کل ایک جیل میں تھا، آج دوسرا۔ بس بدلا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کی عینک کا نمبر۔۔۔ باقی سب وہی ہے۔ کل تحریک انصاف کو امید تھی، آج ن لیگ اُمید سے ہے۔ باقی انقلاب زندہ باد۔