Getty Images
’یہ نہ صرف کوئٹہ بلکہ بلوچستان کی تاریخ میں ایک ہائی پروفائل ویڈیو سکینڈل تھا لیکن متاثرہ لڑکیوں میں سے کوئی بھی گواہ کے طور پر سامنے نہیں آئی لیکن محنت کر کے ہم عدالت سے ان ملزمان کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوئے۔‘
یہ کہنا ہے ایک سرکاری افسر کا جو دسمبر 2021 میں بلوچستان کے دارالحکومت میں منظر عام پر آنے والے ایک بڑے ویڈیو سکینڈل کی تحقیقات سے منسلک تھے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگرچہ متاثرہ لڑکیوں میں سے کوئی گواہ کے طور پر سامنے نہیں آیا لیکن ہم نے اتنے شواہد عدالت میں پیش کیے جن کی بنیاد پر وہ جرم کے مرتکب ٹھہرے۔‘
اس سکینڈل میں سزا پانے والے دونوں ملزمان آپس میں بھائی تھے جن میں سے ایک کو چھ سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ اور دوسرے کو تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی۔
سرکاری افسر نے بتایا کہ ملزمان مختلف حوالوں سے لڑکیوں کو اپنے پاس بلا کر ان کو نشہ آور چیزیں دیتے تھے اور پھر بے ہوشی کے بعد ان کی انتہائی قابل اعتراض ویڈیو اور تصاویر بنا کر ان کے ذریعے انھیں بلیک میل کرتے تھے۔
’اگرچہ ملزمان سے سینکڑوں ویڈیوز برآمد ہوئیں تاہم ہماری تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ ان لوگوں نے 200 کے لگ بھگ لڑکیوں کی قابل اعتراض ویڈیوز بنائیں۔‘
خواتین کے حقوق سمیت انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور سماجی کارکنوں نے ملزمان کو دی جانے والی سزا کو ناکافی قرار دیا ہے۔
بلوچستان کی تاریخ کے سب سے ہائی پروفائلقرار دیے جانے والے ویڈیو سکینڈل کی تحقیقات میں کیا بات سامنے آئیاس کا تذکرہ بعد میں، لیکن سب سے پہلےیہ جان لیتے ہیں کہ ویڈیو سکینڈل کس طرح منظرِ عام پر آیا؟
گرفتار ملزمان کے خلاف پہلی شکایت کب کی گئی تھی؟Science Photo Library
سزا پانے والے دونوں ملزمان کے خلاف سب پہلے ایک خاتون نے کوئٹہ شہر کے قائد آباد پولیس سٹیشن میں دسمبر سنہ 2021 میں شکایت کی تھی جس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اس ایف آئی آر کے مطابق خاتون نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ مری آباد کی رہائشی ہیں اور محنت مزدوری کرتی ہیں۔ خاتون کی جانب سے درج کروائے گئے مقدمہ کے مطابق ’میری دو بیٹیاں ہیں جن میں سے بڑی کی عمر 19 سال اور چھوٹی کی عمر 16 سال ہے جنھیں ملزمان گذشتہ دو سال سے بلیک میل کر رہے ہیں۔‘
خاتون نے درج مقدمے میں کہا کہ ’ملزمان بیٹیوں کی برہنہ ویڈیوز اور تصاویر بنانے کے بعد دھمکیاں دے کر ان کا ریپبھی کر رہے ہیں۔‘
خاتون نے کہا کہ دونوں بیٹیوں کی برہنہ ویڈیوز بنانے کے بعد ان کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا اور دونوں کو تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔
خاتون کی درخواست پر قائدآباد پولیس نے دونوں ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی نو دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔
اگرچہ خاتون نے قائد آباد میں مقدمہ تو درج کروایا لیکن اس کے بعد نہ صرف وہ اپنے گھر کو چھوڑ کر چلی گَئی تھیں بلکہ ان کی دونوں بیٹیاں بھی غائب تھیں۔ خاتون کی بیٹیوں میں سے بعد میں ایک کی ویڈیو منظرِعام پر آئی تھی جس میں انھوں نے اپنی والدہ کے الزامات کی تردید کی تھی۔
کوئٹہ کے سابق ڈی آئی جی پولیس فدا حیسن نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ان خواتین کی جن سیل فونز سے ویڈیوز سامنے آئی تھیں ان کی لوکیشن افغانستان کی تھی۔
اس کیس کی تحقیق سے جڑے افسر نے بھی بتایا کہ ہماری تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ یہ خواتین مقدمے کے اندراج کے بعد افغانستان گئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ معلوم نہیں کہ ان کو دھمکی دے کر افغانستان جانے پر مجبور کیا گیا یا ان کو کوئی لالچ وغیرہ دیا گیا۔‘
Getty Imagesدوسری ایف آئی آر متاثرہ خاتون نے خود درج کروائی
قائد آباد پولیس سٹیشن میں دوسری ایف آئی آر ایک متاثرہ لڑکی نے خود درج کروائی تھی۔
اس ایف آئی آر کے مطابق متاثرہ خاتون نے بتایا کہ وہ دو سال پہلے اپنی ایک سہیلی کے ساتھ ملازمت کی تلاش کر رہی تھیں جب انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بلیک میل کرنے کے بعد ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال دی گئیں۔
ان کی ایف آئی آر کے مطابق ’ایک دن میری سہیلی نے مجھے کہا کہ وہ ایک بندے کو جانتی ہے جو ہمیں ملازمت دے گا۔‘
متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ ’ملزمان نے ایک گھر میں ہماری ویڈیو بنائی اور کہا کہ جب بھی ہم آپ کو بلائیں تو آپ لوگوں نے ہمارے پاس آنا ہے۔ کچھ دن بعد انھوں نے فون کرکے ہمیں بلایا جہاں انھوں نے ہمیں مارنا پیٹنا شروع کیا اور ہماری برہنہ ویڈیو بنائی اور یہ کہا کہ جب بھی اور جہاں ہم آپ کو بلائیں تو آپ لوگوں کو آنا ہے۔‘
متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ ’کچھ دن بعد ان کا فون آیا۔۔۔ جب ہم وہاں گئیں تو ہمارے علاوہ اس گھر میں مزید لڑکیاں موجود تھیں۔‘
اس ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ ’وہاں پر موجود لڑکیوں نے بتایا کہ ملزمان انھیں وقتاً فوقتاً وہاں بلاتے ہیں۔ انھیں نشہ وغیرہ دے کرریپ کرتے ہیں اور برہنہ کر کے ویڈیو بھی بناتے ہیں جو کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ یہ عمل دن میں کئی مرتبہ دہرایا جاتا ہے۔‘
’ان لڑکیوں نے بتایا کہ برہنہ ویڈیو بنا کر ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور انھوں نے ہماری بھی ویڈیوز بنائی ہیں۔‘
انھوں نے پولیس کو درج کروائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ تمام تر واقعات ہم نے اپنی عزت اور خاندان والوں کے خوف سے نہ کسی کو بتائے اور نہ رپورٹ کیے۔‘
متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ ملزمان نے ملنے اور رابطہ رکھنے سے انکار پر ’فیس بُک پر میری ویڈیو اور فوٹو جعلی آئی ڈی بنا کر اپ لوڈ کی۔‘
سزا پانے والے ملزمان کون ہیں؟Getty Images
اس سکینڈل میں گرفتار ہونے والے ملزمان ہدایت اللہ اور خلیل اللہ آپس میں سگے بھائی ہیں جن میں سے ہدایت اللہ کو پولیس نے پہلی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ایئرپورٹ روڈ پر واقع ایک گھر سے گرفتار کیا تھا۔
سکینڈل کے تحقیقاتی افسر نے بتایا کہ اگرچہ ملزمان کا اپنا گھر ایئرپورٹ روڈ نہیں تھا لیکن انھوں نے وہاں کرائے پر ایک گھر لیا تھا جس میں لڑکیوں کو بلا کر وہ ان کی قابل اعتراض ویڈیوز بناتے تھے۔
تحقیقاتی افسر نے بتایا کہ ہدایت اللہ کی گرفتاری کے بعد ان کے دوسرے بھائی خلیل اللہ کو پولیس نے نیچاری روڈ پر واقع ان کے اپنے گھر سے گرفتار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سکینڈل کا جو حصہ سائبر کرائم سے متعلق تھا وہ پولیس نے ایف آئی اے کے حوالے کیا جس میں تحقیقات مکمل کرنے کے بعد ایف آئی اے نے دونوں کے خلاف مقدمے کا چالان جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں جمع کروایا۔
ان کا کہنا تھا سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پیکا ایکٹ کے تحت دونوں ملزمان کو جرم کا مرتکب پایا اور ان میں سے ہدایت اللہ کو دو مقدمات میں تین تین سال قید اور پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جبکہ خلیل اللہ کو تین سال قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنائی۔
تحقیقاتی افسر نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے ملزمان کے خلاف جو مقدمات قائم ہیں تاحال ان پرعدالت سے فیصلہ نہیں آیا۔
مقدمے کی تحقیقات میں کیا سامنے آیا؟
تحقیقاتی افسر نے بتایا کہ ملزمان ایئرپورٹ روڈ پر واقع گھر میں لڑکیوں کو مختلف حوالوں سے جھانسہ دے کر بلاتے تھے۔ جہاں وہ انھیں نشہ آور گولیاں اور دیگر نشہ آور چیزیں کھلا کر بے ہوش کرتے تھے۔
تحقیقاتی افسر کے مطابق ’بے ہوش ہونے کے بعد ان کی قابل اعتراض ویڈیوز بنا کر نہ صرف ان کو بلیک کر کے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے بلکہ ان کو اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ وہ ان کے لیے دوسری لڑکیاں بھی لے کر آئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب وہ ان لڑکیوں کو نشے کا عادی بناتے تھے تو پھر وہ نشے کے لیے بھی ان کے پاس جاتی تھیں۔ ان کو ٹارچر کر کے بھی غلط کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔‘
تحقیقات کرنے والے افسر نے بتایا کہ ملزمان کے موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز سے سینکڑوں ویڈیوز برآمد ہوئی تھیں تاہم جو لڑکیاں ان کی بلیک میلنگ کا شکار ہوئیں ان کی تعداد 200 کے لگ بھگ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلیک میلنگ کا شکار ہونے والی لڑکیوں کا تعلق مختلف کمیونیٹیز سے تھا جو مختلف حوالوں سے ان کے جال میں پھنس گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سائبرکرائم میں پہلے بھی بلوچستان میں لوگوں کو سزائیں ہوتی رہی ہیں لیکن بلوچستان کی تاریخ میں یہ پہلا ہائی پروفائل کیس ہے جس میں ملزمان کو سزا ہوئی۔‘
’ملزمان کو دی جانے والی سزا جرم کے مقابلے میں ناکافی ہے‘
غیرسرکاری تنظیم ’شیڈ‘ کی عہدیدار حمیدہ نور اور حمیدہ ہزارہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ان کارکنوں میں شامل تھیں جنھوں نے اس سکینڈل کے منظرِ عام پر آنے کے بعد اس کے خلاف احتجاج کیا تھا اور ملزمان کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دونوں خواتین کارکنوں نے ملزمان کو دی جانے والی سزا کو ناکافی قرار دیا۔
حمیدہ نور نے کہا کہ ملزمان کو کم سزا دی گئی اور سزا کم ہونے کی وجہ سے وہ جلد چھوٹ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان نے ایک نہیں بلکہ بڑی تعداد میں خواتین کی زندگیوں کو برباد کیا لیکن یہ جتنا بڑا سکینڈل تھا اس کے مقابلے میں یہ انتہائی کم سزا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف دو ملزمان نہیں تھے بلکہ ان کا ایک بڑا سرکل تھا لیکن دوسرے لوگ نہیں پکڑے گئے۔‘
’یہ عادی مجرم ہیں۔ چھوٹ جانے کے بعد یہ پھر اپنے ریکٹ میں شامل لوگوں کے ساتھ مل کر معصوم خواتین کی زندگیوں کو برباد کرتے رہیں گے۔‘
حمیدہ ہزارہ نے کہا کہ ملزمان کو جو سزا دی گئی ہے وہ تسلی بخش نہیں ہے۔
’اس کیس کے حوالے سے بڑی تعداد میں ویڈیوز کی شکل میں شواہد تھے۔ ان کی سزا کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے خلاف صحیح معنوں میں تحقیق نہیں ہوئی۔‘
انھوں نے استفسار کیا کہ جب ملزمان کم سزا ملنے کی وجہ سے جلد چھوٹ جائیں گے تو پھر انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کو زیادہ سے زیادہ سزا ملنی چاہیے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور آئندہ خواتین کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر ان کی زندگیوں سے کھیلنے کی جرات نہ کریں۔