مِس یونیورس میں پاکستانی ماڈل اریکا: ’وہ سوچتے ہیں کہ میں سوئم سوٹ میں مردوں کے سامنے پریڈ کروں گی‘

بی بی سی اردو  |  Oct 12, 2023

پاکستان میں مذہبی رجحان کی حامل سمجھے جانے والی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے سینیٹرمشتاق احمد نے انھیں ’شرمناک‘ قرار دیا تو وہیں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا۔

یہی نہیں بلکہ ان کے ’بے باک‘ اقدام پر خصوصاً پاکستانی مردوں کے بیچ آن لائن ہونے والی چہ میگوئیاں بھی بہت خطرناک رہی ہیں۔

لیکن اس قدر غم وغصے کو جنم دینے کے پیچھے کون موجود ہے؟ تو جان لیجیے کہ وہ ایک 24 سالہ نڈر پاکستانی خاتون ایریکا رابنہیں جن کو لے کریہ سارا ہنگامہ برپا ہوا ہے۔

کراچی شہر کی ایریکا رابنپاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے سے تعلق رکھنے کے باوجود ’مِس یونیورس‘ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے جا رہی ہیں۔

مس یونیورس کا فائنل سینٹرل امریکہ کے ملک ایل سلواڈور میں آئندہ ماہ 18 نومبر کو منعقد ہو گا۔

مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والی ایریکا رابن کو مالدیپ میں منعقد ہونے والے ابتدائی مقابلوں کے آخری مرحلے میں منتخب ہونے والی پانچ خواتین میں سے ’مس یونیورس پاکستان‘ منتخب کیا گیا ہے۔

اس مقابلے کا اہتمام مس یونیورس بحرین اور مس یونیورس مصر کے فرنچائز حقوق کے حامل دبئی کے ’یوگین گروپ‘ نے کیا تھا۔

یوگین گروپ کے مطابق مس یونیورس پاکستان کے لیے بے شمار درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔

’شاید وہ سمجھ رہے ہیں کہ میں مردوں سے بھرے ایک کمرے میں سوئمنگ سوٹ میں پریڈ کروں گی‘

ایریکا رابن جہاں اس انتخاب کو اپنے لیے اعزاز سمجھ رہی ہیں وہیں وہ اس پر پاکستان میں اٹھنے والے شدید ردعمل پر بہت حیران بھی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے پاکستان کی نمائندگی کر کے انتہائی خوشی ملی ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہاتنا شدید ردعمل کہاں سے آ رہا ہے۔‘

ایریکا رابن کے مطابق ’میرے خیال میں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں مردوں سے بھرے ایک کمرے میں سوئمنگ سوٹ میں پریڈ کر رہی ہوں گی۔‘

دوسری جانب ایریکا رابن کی نامزدگی پر تنقیدکرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کی نمائندگی کر رہی ہیں جو مقابلہ حُسن میں نمائندگی نہیں چاہتا۔ خاص طور پر مسلم اکثریت رکھنے والے ملک پاکستان میں جہاں خوبصورتی کے مقابلے شاذ ہی ہوتے ہیں۔

مس ورلڈ پاکستان دراصل دنیا بھر سے پاکستانی نژاد خواتین کے درمیان مقابلہ حسن کا سب سے مشہور مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔

اس کا انعقاد پہلی بار 2002 میں ٹورنٹو میں منعقد ہوا تھا لیکن 2020 میں یہ مقابلہ لاہور منتقل ہو گیا تھا۔

یہ مقابلہ اپنے اندر کئی جہتیں لیے ہوئے ہے جس میں نہ صرف ’مس پاکستان یونیورسل‘ بلکہ ’مسز پاکستان یونیورسل‘ اور یہاں تک کہ ’مس ٹرانس پاکستان‘ جیسے منفرد مقابلے شامل ہیں۔

تاہم اِن مقابلوں کی 72 سالہ تاریخ میں پاکستان نے کبھی بھی مس یونیورس کے لیے نمائندہ نامزد نہیں کیا۔

ایریکا رابن نے مزید بتایا کہ زوم پر ہونے والے مقابلے کے دوسرے سلیکشن راؤنڈ کے دوران ان سے اس ایک چیز کا نام بتانے کو کہا گیا جو وہ اپنے ملک کے لیے کرنا چاہتی تھیں۔

’اور میرا ان کو جواب تھا کہ میں اس ذہنیت کو بدلنا چاہتی ہوں کہ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے۔‘

ان کی اس مقابلے کی نامزدگی پرسامنے آنے والے مخالفانہ ردعمل کے پیش نظر یہ صورتحال ان کے لیے مشکلات کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

ان تمام مخالفتوں کے درمیان ماڈلز، مصنفین اور صحافیوں نے یکساں طور پرایریکا رابن کو مبارکباد دی۔

صحافی ماریانا بابر نے ایکس (ٹویٹر) پر ان کی خوبصورتی اور ذہانت کی کُھل کر تعریف کی۔

پاکستانی ماڈل ونیزہ احمد، جنھوں نے سب سے پہلے ایریکا رابن کو ماڈلنگ میں آنے کی ترغیب دی تھی، نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب یہ مرد ’مسٹر پاکستان‘ نامی بین الاقوامی مقابلوں کے لیے ٹھیک ہیں، تو انھیں ایک خاتون کی کامیابی سے کیوں اتنی پریشانی ہے۔‘

کراچی میں مقیم مصنف اور تبصرہ نگار رافع محمود نے بی بی سی کو بتایا ’ہم تضاداتکا شکار قوم ہیں اور خواتین اورپسے ہوئے طبقات سے متعلق معاملات ہمارے ان تضادات کو مزید سامنے لاتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان بنیادی طور پر آمرانہ ذہنیت کی حامل ریاست ہے جو سخت پدرانہ اقدار کی عکاسی کرتی ہے۔ اور ایریکا رابن نے جسشدید رویے کا سامنا کیا ہے وہ اس کا عکاس ہے۔‘

تاہم تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کافی لبرل تھا۔

ڈان اخبار کی 1950 کی دہائی سے لے کر 1970 کی دہائی کے آخر تک کی کاپیوں میں کیبرے اورغیر ملکی بیلے ڈانسرز کے اشتہاراتدیکھے جا سکتے ہیں جو کراچی کے مرکز میں واقع ایک کلب میں پرفارم کر رہے ہیں۔

ان نائٹ کلبوں میں اکثریت سفارتکاروں ، سیاستدانوں، ایئر ہوسٹس اور نوجوانوں کی ہوتی تھی۔

اس دور میں کراچی کا تاریخی اہمیت کا حامل ہوٹل میٹروپول بھی گانے اور جاز پرفارمنس کے لیے ایک پسندیدہ مقامسمجھا جاتا تھا۔

لیکن 1973 میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک ایسا آئین تشکیل دیا جس نے ملک کو اسلامی جمہوریہ اور اسلام کو ریاستی مذہب قرار دے دیا۔

چار سال بعد فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس کے بعد کی دہائی میں جو کچھ ہوا اسے سماجی کارکنوں اور وکلا نے ایک ’انتہائی دشوار‘ دور قرار دیا کیونکہ اسلامی قوانین نافذ کیے جانے سے پاکستانی معاشرے میں کئی بنیادی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔

1980 کی دہائی کے وسط تک جنرل ضیا الحق نے اسلامی قانون سے اپنی وابستگی ظاہر کرنے کے لیے سرعام کوڑے مارنےکی سزا کو بھی بحال کر دیا۔

آج پاکستان میں نائٹ کلبز اور بارز ختم ہو چکے ہیں اور ہوٹل میٹروپول کی عمارت کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ گرنے کے دہانے پر ہے۔ سڑک کے بالکل ساتھ کیسینو سمجھے جانے والے حصے میں اب ویرانیوں کا راج ہے۔

لیکن آج بھی ایک آزاد اور زیادہ روادار پاکستان کی خواہش ختم نہیں ہوئی اور ایریکا رابنکا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو قابل قبول ہونے اور قابل قبول نہ ہونے کی حدودکے تعین میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔

کراچی کے سینٹ پیٹرک ہائی سکول اور گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس کی گریجویٹ ایریکا اس بات پر قائم ہیں کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان کی نمائندگی کر کے کوئی قانون نہیں توڑ رہی۔ میں اپنے ملک کے بارے میں موجود دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہوں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More