“ہمارے پاس واٹس ایپ گروپ ہے جہاں سوات کے ڈپٹی کمشنر اور حکومت کے لوگ موجود ہوتے ہیں وہاں ہم نے ایک حاملہ خاتون کو اسپتال پہنچانے کے لئے کئی بار ہیلی کاپٹر منگوانے کی اپیل کی مگر ہماری بات نہیں سنی گئی اور حاملہ عورت تڑپ تڑپ کو مر گئی“
یہ کہنا ہے سوات سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن عبدالوہاب کا۔ عبدالوہاب کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ سیالب کی وجہ سے شہر سے بالکل کٹ چکا ہے جہاں بہت سے بیمار افراد کے ساتھ حاملہ خواتین بھی مدد کی منتظر ہیں۔ اس علاقے میں ہیلی کاپٹر ہی واحد چیز ہے جو مدد کو پہنچ سکتا ہے مگر ہماری اپیل پر دھیان نہیں دیا گیا۔ مذکورہ خاتون کے علاوہ دو اور خواتین بھی انتقال کرچکی ہیں۔
علاقے کے ڈپٹی کمشنر نے اس خبر کے جواب میں کہا ہے کہ ان کے پاس خاتون کا نام موجود نہیں تھا اس لئے بروقت مدد نہیں کی گئی۔ جہاں وہ موجود تھیں وہاں ہیلی کاپٹر کا جانا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
عبدالوہاب کا کہنا ہے کہ مدد کے لئے نام کا جاننا ضروری نہیں تھا۔ وہی ہیلی کاپٹر راشن پھینکنے اور دیگر کاموں کے لئے استعمال کیا جاتتا رہا۔ حکومت مجبور لوگوں کی مدد نہیں کرے گی تو اور کون کرے گا؟
سیلاب کی وجہ سے اس جیسے کئی مسائل سامنے آرہے ہیں۔ سہولیات کے فقدان کی وجہ سے عوام بے بسی اور مجبوری کا شکار ہیں۔ حکومتی ارکان کو اپنے فرائض کے حوالے سے مزید حساس ہونے کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی جانوں کو ہر صورت میں بچایا جاسکے۔