کوئٹہ: بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رواں ماہ ایک بچے کو بچانے کی کوشش میں جان گنوانے والے نوجوان نے جہاں قربانی کی عظیم داستان رقم کی وہیں سرکاری اداروں کیلئے کئی سوالیہ نشان بھی چھوڑے ہیں۔
سریاب کے علاقے میں کچرا چننے والا 10 سالہ بچہ ایک قدیم کنوئیں میں گرگیا جس کی پکار سن کر 31 سالہ بالاچ بلوچ نے امدادی ٹیموں کا انتظار کئے بغیر کاریز میں چھلانگ لگادی۔
کنوئیں کے قریب درجنوں لوگ موجود تھے تاہم بالاچ کے علاوہ کسی نے بچے کو بچانے کی کوشش نہ کی اور بالاچ بلوچ نے کنوئیں میں کودنے کے بعد ایک رسی کی مدد سے بچے کو فوری باہر لانے کی کوشش کی تاہم وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے بالاچ بچے سمیت کنوئیں میں ڈوب گیا۔
نوجوان بالاچ بلوچ کے بھائی کا کہنا ہے کہ ’بالاچ کی کوشش تھی کہ بچے کو جلد سے جلد ہسپتال پہنچایا جائے لیکن شاید انھوں نے جو حکمت عملی اختیار کی وہ کارگر ثابت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے دونوں کنویں کے درمیان تک پہنچنے کے بعد واپس گر گئے۔
صغیر احمد کا کہنا ہے کہ دونوں کو نکالنے میں غیر ضروری تاخیر کی گئی جس کے باعث ان کو زندہ نہیں نکالا جاسکا۔ جب پی ڈی ایم اے کی ٹیم آئی تو ان کے غوطہ خور محکمہ مائنز کی جانب سے کنویں سے گیسز کی اخراج کے لیے اقدام کے بعد کنویں کے اندر گئے اور تین مرتبہ کوشش کے بعد اندھیرا ہونے کا بہانہ بنا کر کوششیں ترک کردیں۔
انہوں نے بتایا کہ پی ڈی ایم اے ٹیم کے ناکام لوٹنے کے بعد مستونگ سے آئے رضا کاروں جلیل احمد اور امیر حمزہ نے کنوئیں میں جاکر اندھیرے میں صرف ایک ٹارچ کی روشنی میں دونوں لاشیں ڈھونڈھ کر باہر بھجوادیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے دونوں رضاکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انھیں دو، دو لاکھ روپے انعام دینے کے علاوہ ان کو پی ڈی ایم اے میں نوکری دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔