کنگھی کرتے ہوئے بال ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔ خواتین کے یہ ٹوٹے ہوئے بال کیسے انکو لکھ پتی بنا رہے ہیں؟

ہماری ویب  |  Aug 24, 2021

لوگ سچ ہی کہتے ہیں کہ انسان کو اپنے جسم سے بہت پیار ہو تا ہے اور اسکے جسم کی 50 فیصد خوبصورتی ہوتی ہی بالوں سے ہے مگر مرد ہو یا عورت جب اسکے بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں تو یہ مسئلہ اس کیلئے بہت برا عذاب بن جاتا ہے لیکن آج ہم آپکو بتائیں گے کہ یہ گرتے بال آپ کو کیسے لکھ پتی بنا سکتے ہیں، آیئے جانتے ہیں:،

آپ اپنے گرتے بالوں کو کسی بڑے سے تھیلے میں جمع کریں اور پھر انہیں بیچ دیں ،یہ بال 3200 سے 3500 روپے فی کلو فروخت کیے جاتے ہیں۔مزید یہ کہ گلی محلے میں اکثر سائیکل اور موٹر سائیکل پر آوازیں لگاتے ہیں کہ عورتیں اپنے بال بیچ لیں، دراصل یہ پاکستان میں ہی لگے کارخانے اور فیکٹریوں کے ملازم ہوتے ہیں جو مختلف محلوں سے بال خرید کر اپنے کارخانے اور فیکٹریوں میں لیجاتے ہیں۔

ان کارخانوں و فیکٹریوں میں انہیں دھو کر پیک کر کے چین بھیج دیا جاتا ہے ، دھلے اور پیک کیے ہوئے بالوں کی قیمت کئی گنا دوگنی ہو جاتی ہے جس کا فائدہ ان کارخانوں اور فیکٹریوں والوں کو ہوتا ہے۔ بال بیچنے کا زیادہ تر رحجان پنجاب کے علاقوں میں پایا جاتا ہے اور خریدار بھی پنجاب کے علاقوں کے بال پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ طاقت ور، چمکیلے ہوتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کا میٹھا پانی ہے۔

یہ بال مختلف قسموں کی وگیں بنانے میں استعمال ہوتے ہیں ، اس کی سب سے بڑی مثال وہ وگ ہے جو آج کل گنجے مرد حضرات لگواتے ہیں جو بلکل اصلی بالوں کی طرح بڑھتے ہیں ، اور نرم و ملائم بھی ہوتے ہیں یہ وگ بھی انہی بالوں سے بنتی ہے۔صرف چین کو یہ ال فروخت کرنے کی یہ وجہ ہے کہ دنیا میں چین ہی میں وگیں بنانے کی سب سے بڑ ی صنعت ہے اور یہ صنعت اچھا معاوضہ بھی دیتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اس وقت دنیا کو بال برآمد کرنے کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان، بھارت،ویتنا،امریکا،برما،نائجیریا ،برازیل،ہانگ کانگ اور سنگاپور بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں موجود یہ کارخانے اور فیکٹریوں والے صرف 18 سے 20 سال کی خواتین کے ہی بال خریدتے ہیں، جبکہ یہ چین اور دیگر ممالک میں موجود کمپنیوں کے ساتھ مکمل رابطے میں رہتے ہیں۔ پھر انہیں سے بال برآمد کرواتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More