14 اگست کے دن مینارِ پاکستان پر ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والے خوفناک واقعے پر پاکستانی قوم کے دل میں غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے وہیں فنکار برادری بھی حیران ہیں کہ ایسا واقعہ آزادئِ پاکستان کے دن اقبال گریٹر پارک میں کس طرح ہوسکتا ہے، جبکہ اس دن تاریخی عمارات پر سیکیورٹی بھی بڑھا دی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس اقبال پارک کے باہر صرف اور صرف ایک سیکیورٹی اہلکار موجود تھا ۔
ہر خاص و عام ٹک ٹاکر کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر صرف ایک سوال کرتا دکھائی دے رہا ہے، آخر کب تک بنتِ حوا یوں بکھرتی رہے گی، لیکن وہیں ایک اور سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ آخر کب تک بنتِ حوا خود کو یوں دکھلاتی رہے گی؟
اداکار یاسر حسین کا کہنا ہے کہ:
''
عورت کو چاند پر ہونا چاہیے کیونکہ وہ زمین پر محفوظ نہیں۔
نیل آرم سٹرانگ کی جگہ چاند پر جانے والا پہلا انسان کوئی عورت ہونی چاہیے تھی۔ مرد چاند پر کیا زمین پر بھی بادشاہ بن کر بیٹھا ہے
۔
''
نعمان اعجاز نے کہا کہ:
''
اس واقعے کو سننے کے بعد سے بہت تکلیف میں ہوں اور بہت شرمندگی بھی محسوس ہو رہی ہے۔‘
کیا ایسے ہوتے ہیں پاکستانی، ایسے ہوتے ہیں مرد، ایسے ہوتے ہیں مسلمان۔‘ وزیر اعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ اس واقع میں ملوث سب کو پکڑیں اور کڑی سے کڑی سزائیں دیں، 400 کا لشکر تھا ان کو عبرت ناک سزا دینی چاہیے۔
''
بلال عباس کہتے ہیں کہ:
''اس معاشرے میں بطور مرد
آج میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ آخر کب شرم آئے گی ہمیں؟
''
حمیمہ ملک کہتی ہیں:
''
جب اپنی بہنوں کے ساتھ بُرا ہوگا تو ہم اُس وقت آواز اُٹھائیں گے؟ پہلے زینب، پھر نور اور اب ہم مینارِ پاکستان پر آگئے ہیں۔ کل ہماری سگّی بہن اس جگہ ہوئی تو؟
اُس وقت ہمیں زیادہ تکلیف، شرم، دُکھ اور ہوگا؟‘
''
خلیل الرحمٰن کہتے ہیں کہ:
''
مینارِ پاکستان پر اپنی ہی بہن بیٹی پر ٹوٹ پڑنے والوں آج تم نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ تم اپنے نبیﷺ اور دین کے احکام کی کیسے توہین کرتے ہو۔
''
علیزے شاہ نے کہا کہ:
''
لاہور میں یہ سب کیا ہوا؟ مجھے تو حیرانگی ہو رہی ہے،
ہمارے ملک میں خواتین محفوظ نہیں؟ ہم نہ تو اپنے گھروں میں محفوظ ہیں اور نہ ہی سڑکوں اور گلیوں میں؟ نہ ہم محفوظ ہیں اور نہ ہی ہم آزاد ہیں۔ یہ کیسی آزادی ہے؟ نہ کپڑے اپنی مرضی کے پہن سکتے اور نہ کسی کو تنگ کئے بغیر گھر سے باہر نکل سکتے، چاروں طرف بھیڑیئے ہیں؟
''
عائزہ خان نے کہا:
''
اب تک کورونا کی وجہ سے کہتے ہیں کہ گھرمیں محفوظ رہیں، لیکن شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ گھر میں رہیں، اب باہر بہنوں کی عزت کو خطرہ ہے۔
''
انوشے نے واقعے پر کہا کہ :
''
دیکھ کر افسوس ہوا 400 مردوں نے ایک لڑکی کو ہراساں کیا۔
''
مریم نفیس نے کہا کہ :
''
عائشہ اکیلی نہیں تھی اور نہ رات کا وقت تھا بلکہ دن کا وقت تھا اور وہ پورے کپڑوں میں تھی۔
''
فرحان سعید کا کہنا ہے کہ :
''
شرم آ رہی کہ میں بھی اس معاشرے کا حصہ ہوں، جس طرح مردوں نے خوفناک حرکت کی، یہ انتہائی قابلِ شرم ہے۔
''
ماہرہ خان نے کہا کہ:
''
میں نے جو ابھی دیکھا اُس پر یقین نہیں کرسکتی ہوں۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور میں پھر کہوں گی کہ ان درندوں کو ایسی سزا دیں کہ مثال قائم ہوجائے۔میں معافی چاہتی ہوں کیونکہ میں بھول گئی تھی کہ غلطی تو اس لڑکی کی تھی ، یہ بیچارے 400 مرد اُس لڑکی کی مدد نہیں کرسکے۔ ''
صنم جنگ کہتی ہیں کہ:
''ایسی بیمار ذہنیت کے لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے ''
سجل علی نے کہا کہ:
''
آخر کب درندوں کو سزا دیکر مثال قائم کی جائے گی؟
یا وہ لڑکی 400 مردوں کے سامنے اس طرح کے سلوک کی حقدار تھی؟''