درندگی سے ہونے والا نور مقدم کا قتل کافی پیچیدگیوں سے ہوتا ہوا اب ایک نئے موڑ میں داخل ہوگیا ہے۔ پولیس کی جانب سے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو بھیجی گئی وڈیوز کی رپورٹ آنے پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وڈیوز اصلی ہیں۔ ان وڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح متاثرہ لڑکی اپنی جان بچانے کے لئے پہلی منزل سے چھلانگ لگا کر دروازے کی جانب بھاگتی ہے لیکن دروازہ بند ہے۔ رپورٹ سامنے آنے پر ظاہر جعفر نے خود بھی وڈیو کے سچ ہونے کو تسلیم کرلیا ہے
پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ملزم ظاہر جعفر کے ڈی این اے ٹیسٹ اور فنگر پرنٹس سے اس کا نور مقدم کے قتل میں ملوث ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ دوسری جانب پولیس نے بحالی مرکز کے ڈاکٹر طاہر اور ملازم امجد سمیت چھ مزید لوگوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جب ملازمین نے ملزم. کے والدین کو فون کیا تو انھوں نے بحالی مرکز کے ڈاکٹر طاہر کو فون کیا جس پر وہ اور ان کی ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچے جبکہ امجد ہی وہ شخص تھا جو سب سے پہلے ظاہر جعفر کے کمرے میں داخل ہوا اور ملزم نے اسے چاقو سے وار کرکے زخمی کیا جس کی وجہ سے انجد کو اسپتال میں داخل کرنا پڑا البتہ اب وہ صحت یاب ہوگیا ہے۔ پولیس کے مطابق ان تمام افراد میں سے کسی نے بھی پولیس کو واقعے کی اطلاع کرنے کی زحمت نہیں کی اور پولیس کو محلے والوں کے زریعے قتل کی خبر ملی۔