رحیم یار خان میں مندر کو توڑے جانے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ "پولیس سارے واقعے کو خاموش تماشائی بن کے دیکھتی رہی جبکہ پولیس کا کام تھا کہ لوگوں کو جرم سے روکے" اس کے علاوہ جج صاحبان نے معاملے کی وڈیو ہونے کے باوجود ایک بھی ملزم کی گرفتاری نہ ہونے ہونے پر پولیس کو سرزنش کی۔
مندر توڑنے کا واقعہ
گزشتہ ہفتے رحیم یار خان میں ایک گروہ کی جانب سے مندر توڑنے کا واقعہ پیش آیا جس کہ بعد نہ صرف ہندو کمیونٹی بلکہ مسلمانوں نے بھی ملک میں موجود اقلیتی برادری کے حق کے لئے آواز بلند کی اور حکومت سے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی اپیل کی۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس واقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اقلیتی برادری کو یقین دہانی کروائی کہ ملزمان کو چھوڑا نہیں جائے گا اور قانون کے مطابق سزا دلائی جائے گی
ایسے واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ ایک آزاد مسلمان ریاست میں ہندو، عیسائی اور دیگر اقلیتوں سے لڑائی جھگڑے کے واقعات پیش ہی کیوں آتے ہیں؟ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے کہ ہمارے ہر عمل سے اسلامی تعلیمات کی عکاسی ہوتی ہو یعنی کسی کی دل آزاری یا حقوق سلب نہ کیا جائیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے اب لوگ اپنے غصے اور دین سے دوری کے سبب اسلامی تعلیمات کو یکسر بھلا چکے ہیں۔ سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "دین کے معاملے میں کوئی جبر و زبردستی نہیں ہے" یعنی طاقت کے زور پر ہم کسی غیر مسلم کے حقوق پر صرف اس کے مذہب کے لئے سوال نہیں اٹھا سکتے۔ پاکستان کے جھنڈے میں بھی سفید رنگ اقلیتی برادری کے برابر کے شہری حقوق کی ترجمانی کرتا ہے تو امن پھیلانے والے دین اور پاکستان کے شہری ہو کر ہم کسی کے مندر یا چرچ پر کیسے حملہ کرسکتے ہیں۔ یاد رکھیں ایک اچھا اور سچا مسلمان وہی ہے جو اس راستے پر چلے جو دین نے اس کے لئے چنا ہے نہ کہ اسلام کی دی گئی تعلیمات کو بھلا کر غصے میں ایسے کام کرے جن سے مذہب اور ملک دشمنوں کو ہمارے خلاف باتیں کرنے کا موقع مل سکے