اتوار کو انڈیا اور پاکستان ایشیا کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے۔
انڈیا ایونٹ میں تاحال ناقابل شکست رہا ہے جبکہ گروپ اور سپر فور مرحلے کے دو میچز میں پاکستان کو بھی ہرا چکا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے پاس بھی یہ نادر موقع ہے کہ وہ انڈیا سے نہ کہ صرف گذشتہ دو شکستوں کا بدلہ لے بلکہ ایشیا کپ کا ٹائٹل بھی اپنے نام کرے۔
پاکستان ٹی20 کے سابق کپتان محمد رضوان کا مشہور قول ہے کہ ’ہم جیتتے ہیں یا سیکھتے ہیں،‘ تاہم اس بار پاکستان کے لیے سیکھنے کے بعد جیتنے کا وقت ہے۔
کرک انفو کے مطابق اگر پاکستان نے فائنل میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اسے ہر شعبے میں بہتری دکھانا ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان انڈیا کے خلاف میچز میں پاور پلے مرحلے میں جارحانہ کھیل پیش کرتا رہا ہے مگر مسئلہ اس کے بعد پیدا ہوتا ہے۔
پہلے میچ میں پاور پلے کے بعد اگلے پانچ اوورز میں صرف سات رنز بنے جبکہ دوسرے میچ میں مڈ اوورز میں سکور کی رفتار بہت کم ہوگئی تھی۔
اگر پاکستان پہلے کھیلتے ہوئے ہدف دے رہا ہے تو اسے مقررہ 20 اورز تک جارحانہ کھیل پیش کرنا ہو گا۔
انڈیا کی بالادستی کا راز اس کے اوپنرز کی جوڑی ہے جس نے ایونٹ کا تقریباً ہر میچ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انڈیا کی جانب سے ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر بیٹرز زیادہ تر میچز میں پچ پر نہیں اُترے، البتہ جب انہیں موقع ملا تو انڈیا کے رنز بڑھنے کی رفتار سست ہو گئی۔
انڈیا کی اوپننگ پارٹنرشپ اس کے میچ جیتنے کی اہم بنیاد ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے لیے ایک یہ پہلو بھی اہم ہو سکتا ہے کہ انڈیا کی جانب سے 6 سے 11 نمبر پر کھیلنے والے بیٹرز کا سٹرائیک ریٹ کم ہے، اگر اس پہلو کو ہدف بنایا جائے تو پاکستان کے لیے ایک واضح برتری کے امکانات موجود ہیں۔
پاکستان کی جانب سے شاہین شاہ آفریدی نے حالیہ میچوں میں شاندار کارکردگی دکھائی ہے مگر انڈیا کے خلاف ان کی فارم تشویش کا باعث رہی ہے۔
ایشیا کپ میں انڈیا کے خلاف انہوں نے کوئی وکٹ حاصل نہیں کی البتہ 63 رنز ضرور دیے ہیں۔ سنہ 2021 کے ورلڈ کپ کے بعد انڈیا کے خلاف شاہین کی کارکردگی میں نمایاں کمی آئی ہے، تاہم اگر پاکستان نے فائنل میں اپ سیٹ کرنا ہے تو شاہین کا ابتدائی اوور فیصلہ کن ہوگا۔
شاہین شاہ آفریدی نے گزشتہ دو میچز میں اںڈیا کے خلاف کوئی وکٹ نہیں لی (فوٹو: اے ایف پی)
اگرچہ مسلسل فتوحات نے انڈیا کو فائنل کا فیورٹ بنا دیا ہے لیکن زیادہ پریشر کا شکار بھی انڈیا ہی ہے۔
انڈین کپتان سوریا کمار یادیو نے حال ہی میں کہا تھا کہ ’پاکستان کے خلاف مقابلے کو اب روایتی حریفوں کی جنگ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔‘ دوسری طرف ماضی میں پاکستان نے بارہا دکھایا ہے کہ وہ پریشر سے آزاد ہوکر بہتر کھیل پیش کرتا ہے۔
سنہ 2017 کی چیمپئنز ٹرافی کی مثال سامنے ہے جب انڈیا کو ایک بڑے مقابلے میں دھول چٹائی گئی تھی۔
یہ درست ہے کہ اگر پاکستان جیت گیا تو ایشیا کی سب سے بڑی ٹیم بن جائے گا اور اگر ہار گیا تو سیکھے گا کہ ابھی بہتری کی گنجائش باقی ہے تاہم کسی بھی صورت میں یہ فائنل ایک نئے آغاز کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔