ایشیا کپ، سپر فور مرحلے کے اہم ترین میچ میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو ہرا کر فائنل میں جگہ بنا لی، لیکن سچی بات یہ ہے کہ پاکستانی شائقین کو مزا نہیں آیا۔ جیت بہرحال جیت ہی ہوتی ہے، مگر پاکستان کو بنگلہ دیش سے زیادہ بہتر طریقے سے جیتنا چاہیے تھا۔اس میچ میں تو یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان بیٹنگ نے بنگلہ دیش کو ’جتوانے‘ کی ہر ممکن کوشش کی اور بنگلہ دیشی بیٹنگ لائن اپ نے جوابی وار کرتے ہوئے پاکستان کا منصوبہ ’ناکام‘ بنا دیا اور ایک آسان ہدف کو خواہ مخواہ غیرضروری جارحانہ شاٹس کھیلتے ہوئے مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا اور یوں وہ میچ ہار دیا جو وہ جیت سکتے تھے۔
پاکستانی بیٹنگ ایک بار پھر بری طرح ناکام ہوئی، ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر دونوں ہی جدوجہد کرتے رہے۔ صرف 49 رنز پر پانچ وکٹیں گر گئیں۔ صاحبزادہ فرحان پہلے اوور میں ایک چوکا لگا کر حوصلہ ہار بیٹھے۔ صائم ایوب نے ایشیا کپ میں چوتھی بار صفر بنایا۔ فخر زمان بھی جلد آوٹ ہو گئے، حسین طلعت نے آج مایوس کیا۔ کپتان سلمان علی آغا نے وکٹ پر ٹھیرنے کی کوشش کی، سنگلز لیتے رہے مگر پھر مستفیض الرحمن کی گیند بالکل نہ سمجھ پائے اور وکٹ کیپر کو کیچ دے کر چلتے بنے۔
آج محمد حارث نے البتہ کچھ فائٹ کی، سنگلز بھی لیے، چند اچھے شاٹس بھی کھیلے اور ایک لوسکورنگ میچ میں 31 رنز کا مفید کنٹری بیوشن کیا۔ ایک دلچسپ موو شاہین شاہ آفریدی کو نمبر سات پر بھیجنا تھی، شاہین شاہ نے اندھا دھند ہارڈ ہٹنگ کی کوشش کی، ایک ایل بی ڈبلیو کی کلوز اپیل ہوئی، دو کیچ چھوٹے، مگر دو فلک بوس چھکے بھی لگائے۔
شاہین شاہ آفریدی کوشاید یہی ٹارگٹ دے کر بھیجا گیا ہوگا، لیکن اگر وہ عقل مندی سے کام لیتے تو یہ سمجھتے کہ ابھی پانچ اوورز رہتے ہیں اور وکٹیں خاصی گر چکی ہیں، پھر ہر گیند پر چھکا لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک اوور میں چھکا لگ گیا تو پھر سنگل لے لیا جائے، دوسری طرف بھی محمد حارث کھیل رہا ہے جو خود بھی پاور ہٹر ہے۔
سمجھنا چاہیے تھا کہ اگلے اوورز موجود ہیں، ہٹنگ کے بہت مواقع ہیں۔ یہ بات سمجھے بغیر شاہین شاہ آفریدی نے اپنی وکٹ تھرو کر دی۔
آخر میں محمد نواز نے اچھی بیٹنگ کی، 15 گیندوں پر 25 رنز بنائے، فہیم اشرف گذشتہ میچز جیسا کرشمہ تو نہیں دکھا پائے، آخری اوور میں فہیم نے دومرتبہ سنگل نہیں لیا اور سٹرائیک اپنے پاس رکھی، وہ شائد چھکے لگانا چاہتے تھے، کامیاب نہیں ہوئے، مگر نو گیندوں پر 14 رنز بنا کر ٹیم کا سکور 135 تک پہنچا ہی دیا۔
بنگلہ دیشی بیٹنگ لائن اپ نے ایک آسان ہدف کو خواہ مخواہ غیرضروری جارحانہ شاٹس کھیلتے ہوئے مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مجموعی طور پر یہ خاصی مایوس کن کارکردگی تھی۔ اگرچہ پچ سپنرز کو سپورٹ کر رہی تھی، مگر پاکستان کی زیادہ تر وکٹیں غلط شاٹ سلیکشن یا کمزور تکنیک کا نتیجہ تھی۔ ہمارے تجربہ کار بلے باز اونچے شاٹس کھیل کر وکٹیں گنواتے رہے۔ ٹاپ آرڈر میں سے کسی نے سیچویشن کے مطابق کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ ورنہ آسانی سے 20 25 رنز مزید بن سکتے تھے۔
بنگلہ دیش کی بیٹنگ مزید مایوس کن تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے جارحانہ بیٹنگ کرنے کے چکر میں بنگلہ دیشی ہٹرز اپنی وکٹیں تھرو کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہیں چانسز بھی ملے، مگر ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔
ویسے پاکستان بولنگ بھی ٹھیک رہی۔ شاہین شاہ نے آج خاص طور سے بیک آف لینتھ گیندیں زیادہ کرائیں، سوئنگ کرانے کی بھی کوشش کی۔ حارث رؤف سے بھی پاور پلے میں دو اوور کرائے گئے۔ ان دونوں کو وکٹیں ملیں، مگر اس میں گیند سے زیادہ کمال بلے باز کی غلطی اور غیرضروری عجلت کا تھا۔ شاہین شاہ آفریدی کے بولنگ فگرز متاثرکن رہے، چا ر اوورز میں 17 رنز دے کر تین وکٹیں لیں۔ حارث رؤف نے بھی تین وکٹیں لیں، مگر شاہین سے دو گنا رنز دیے۔
پاکستانی سپنرز نے اچھی بولنگ کرائی، ابرار قدرے مہنگے رہے، بنگلہ دیشی بلے باز اسے ٹارگٹ بھی کر رہے تھے۔
بنگلہ دیش کے لیے میچ بتدریج مشکل ہوتا گیا کیونکہ ان کی وکٹیں گرتی جا رہی تھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
صائم ایوب جس سے سری لنکا کے خلاف ایک اوور بھی نہیں کرایا گیا، اس نے عمدہ بولنگ کرائی، چار اوورز میں صرف 16 رنز دے کر دو وکٹیں لیں۔ محمد نواز جن کو گذشتہ دو میچوں میں نجانے کیوں بولنگ نہیں دی گئی، اس نے تین اوورز میں صرف 14 رنز دے کر ایک وکٹ لی۔ حسین طلعت جس نے سری لنکا کے خلاف میچ میں اچھی بولنگ کرائی تھی، آج اس سے کپتان نے ایک اوور بھی نہیں کرایا۔ اسے کپتان کی متلون مزاجی کہا جائے، موڈی پن یا پھر ٹیم مینجمنٹ کی کوئی خفیہ حکمت عملی؟
بنگلہ دیش کے لیے میچ بتدریج مشکل ہوتا گیا کیونکہ ان کی وکٹیں گرتی جا رہی تھیں، تاہم شمیم حسین وکٹ پر ٹھیرے تھے اور کچھ نہ کچھ امید باقی تھی کہ شاہین شاہ کے آخری اوور میں ایک عجیب وغریب ریورس شاٹ کھیلتے ہوئے وہ آوٹ ہو گئے۔ یہ ایسا مضحکہ خیز اور بے تکا شاٹ تھا کہ بنگلہ دیشی شائقین بیچارے ہکا بکا ہوگئے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟
اس میچ میں بہرحال ڈرامہ خاصا رہا۔ ایک گیند پر چھکا لگتا اور پھر اگلی ہی گیند پر وکٹ گر جاتی۔ یوں لگتا جیسے پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوگئی اور پھر اچانک میچ دوسری طرف مڑنے لگتا۔ آخری اوور میں حارث رؤف بولنگ کرا رہے تھے، 23 رنز درکار تھے۔ حارث نے اچھی سلو بالز کرائیں، آخری تین گیندوں پر 18 رنز یعنی تین چھکے چاہیے تھے، بنگلہ دیشی رشاد حسین نے ایک چھکا لگا دیا۔
پاکستانی شائقین پریشان ہو گئے، ممکن ہے بعض کو کوہلی کے ہاتھوں حارث کو لگ جانے والے چھکے یاد آ گئے ہوں۔ خوش قسمتی سے حارث نے اس بار عقل مندی سے بولنگ کرائی اور پاکستان 11 رنز سے میچ جیت گیا۔
پاکستان ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچ گیا۔ ایک اور پاک انڈیا میچ یقینی ہو گیا۔ خاصے عرصے کے بعد ایک ٹورنامنٹ میں تیسرا پاکستان انڈیا میچ ہونے جا رہا ہے۔ لگتا ہے تقدیر یہی چاہتی تھی۔ پاکستان کے پاس ایک اچھا موقعہ ہے کہ وہ فائنل میچ جیت کر گذشتہ دونوں میچز کی شکست کا بدلہ لے سکے۔ انگریزی محاورہ ہے کہ جب اختتام اچھا ہو تو سب اچھا ہی ہوتا ہے۔
بورڈ پر بڑا ٹوٹل کیے بغیر پاکستانی بولنگ انڈین ٹیم کو آوٹ نہیں کر سکتی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان نے گروپ فور کا پہلا میچ ہار کر اگلے دونوں میچز جیتے ہیں، اس اعتبار سے ان کی داد تو بنتی ہے۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ پاکستان نے جس کھیل کا مظاہرہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف کیا ہے، وہ انڈیا جیسی ٹیم کو ہرانے کے لئے ناکافی ہے۔ اگر انڈین بولنگ کے خلاف بھی پاکستان ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر ناکام ہوئی تو ہر بار ہمارا لیٹ آرڈر کام نہیں کر پائے گا۔ پھر انڈین بیٹنگ بہت تباہ کن، جارحانہ اور خطرناک ہے۔ بورڈ پر بڑا ٹوٹل کیے بغیر پاکستانی بولنگ انڈین ٹیم کو آوٹ نہیں کر سکتی۔
دیکھیں ایشیا کپ فائنل میں کیا ہو گا؟ پاکستانی ٹیم کے لیے یہ بڑا چیلنج ہے۔ اپنے سے بہتر اوراِن فارم ٹیم کو بہت اچھی پلاننگ اور غیرمعمولی کارکردگی کے ذریعے ہی ہرایا جا سکتا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ پاکستان کے آؤٹ آف فارم کھلاڑی فائنل میں کلک کر جائیں گے۔ ویل ڈن ٹیم پاکستان۔ بیسٹ آف لک فار دا فائنل۔