کیا برطانیہ میں رہنے اور کام کرنے کے لیے ’ڈیجیٹل آئی ڈی‘ لازم ہو گا؟

بی بی سی اردو  |  Sep 27, 2025

Getty Images

برطانیہ کی حکومت نے ملک بھر میں ڈیجیٹل شناختی نظام متعارف کرانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلے سے نمٹنے کی مہم کا حصہ ہے۔ برطانیہ میں ملازمت کے حصول کے لیے ڈیجیٹل آئی ڈی لازم ہوگی۔

برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹامر نے کہا ہے کہ اس سے ملک کی ’سرحدیں زیادہ محفوظ بنانے‘ کو یقینی بنایا جائے گا۔

یہ شناختی کارڈ روزانہ لے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن یہ ہر اس شخص کے لیے لازمی ہو گا جو ملک میں کام کرنا چاہتا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سکیم موجودہ ’پارلیمنٹ کے اختتام تک‘ شروع کی جائے گی یعنی اگلے عام انتخابات سے پہلے، جو قانون کے مطابق اگست 2029 تک ہوں گے۔

حکومت یہ ڈیجیٹل آئی ڈی کیوں لانا چاہتی ہے؟

ڈیجیٹل آئی ڈیز کا استعمال برطانیہ میں رہنے اور کام کرنے کے لیے ہو سکے گا۔ یہ ایک ایپ پر مبنی نظام ہوگا جو سمارٹ فونز پر این ایچ ایس ایپ یا ڈیجیٹل بینک کارڈز کی طرح محفوظ ہوں گے۔

یہاں ہولڈرز کی رہائشی حیثیت، نام، تاریخ پیدائش، قومیت اور تصویر کے بارے میں معلومات شامل کی جائیں گی۔

اس سکیم کا اعلان کرتے ہوئے سر کیئر سٹامر نے کہا کہ ’اگر آپ کے پاس ڈیجیٹل آئی ڈی نہیں ہے تو آپ برطانیہ میں کام نہیں کر سکیں گے۔ یہ اتنا ہی آسان ہے۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سکیم غیر قانونی امیگریشن کو روکنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس سے غیر قانونی تارکین وطن کے لیے ملازمتیں تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا۔

وزرا کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہونے والے تارکین وطن کے لیے یہ ملازمتیں ایک اہم محرک ہیں۔

آجر اب صرف کاغذات کی جانچ پڑتال یا نیشنل انشورنس نمبر پر انحصار نہیں کر سکیں گے جو فی الحال کام کرنے کے حق کے ثبوت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

اس وقت کسی اور کا نیشنل انشورنس نمبر ادھار لینا، چوری کرنا یا استعمال کرنا بہت آسان ہے اور یہ شیڈو اکانومی کا مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر لوگ اپنا نیشنل انشورنس نمبر بانٹتے ہیں تاکہ دیگر لوگ ملازمت حاصل کر سکیں۔

خیال یہ ہے کہ اب نئے ڈیجیٹل آئی ڈی کے ساتھ تصویر منسلک کرنے سے نظریاتی طور پر اس نظام کا غلط استعمال کرنا مشکل ہو جائے گا۔

تاہم کنزرویٹو رہنما کیمی باڈینوک نے کہا کہ اگرچہ ڈیجیٹل آئی ڈی کے حق میں اور اس کے خلاف دلائل موجود ہیں لیکن اسے لازمی بنانے کے لیے ’ایک مناسب قومی بحث کی ضرورت ہے۔‘

ایکس پر ایک پوسٹ میں انھوں نے کہا کہ ’کیا ہم واقعی (لیبر) پر اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ ایک مہنگا قومی پروگرام نافذ کرے گا جو ہماری تمام زندگیوں کو متاثر کرے گا اور قانون کی پاسداری کرنے والے لوگوں پر اضافی بوجھ ڈالے گا؟ مجھے اس پر شک ہے۔‘

’اپنے گھر جاؤ‘: لندن میں تارکینِ وطن مخالف پُرتشدد مظاہرے پاکستان سمیت دیگر ایشیائی کمیونٹی پر کیسے اثر انداز ہو رہے ہیں؟امیگریشن پالیسی، مہنگائی اور ہاؤسنگ کا بحران: ’کینیڈا کے انتخابات ملک میں تارکینِ وطن کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے‘تارکینِ وطن کے لیے یورپ کا دروازہ کہلایا جانے والا گھنا جنگل: ’بھاگنے کی کوشش کریں تو گارڈز آپ کے پیچھے کتے چھوڑ دیتے ہیں‘’یہ میرے پاس ہو تو میں زیادہ محفوظ ہوں‘: امریکہ میں ملک بدری کے منڈلاتے خطرے کے بیچ تارکینِ وطن کو ’ریڈ کارڈ‘ کا سہاراکیا ڈیجیٹل آئی ڈی لازمی ہوگی اور اسے اور کس چیز کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟

ڈیجیٹل آئی ڈی برطانیہ کے تمام شہریوں اور قانونی رہائشیوں کے لیے دستیاب ہوگی اور کام کرنے کے لیے لازمی ہوگی۔

تاہم طلبہ، پنشنرز یا دیگر افراد کے لیے جو کام نہیں چاہتے ہیں، ڈیجیٹل آئی ڈی کا ہونا اختیاری ہوگا۔

حکام نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ یہ روایتی شناختی کارڈ کی طرح کام نہیں کرے گا۔ لوگوں کو اسے عوامی طور پر لے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

وزرا نے صحت کی دیکھ بھال یا فلاح و بہبود کی ادائیگیوں تک رسائی کے لیے شناختی کارڈ کی ضرورت کو مسترد کر دیا ہے۔

تاہم اس نظام کو کچھ سرکاری خدمات کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جا رہا ہے تاکہ ایپلی کیشنز کو آسان بنایا جا سکے اور دھوکہ دہی کو کم کیا جا سکے۔

حکومت نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل شناختی کارڈ ڈرائیونگ لائسنس، بچوں کی دیکھ بھال اور فلاح و بہبود جیسی خدمات کے لیے درخواست دینا آسان بنا دے گا۔

انھوں نے کہا کہ اس سے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی کو بھی آسان بنایا جائے گا۔

Reutersاس سکیم کا اعلان کرتے ہوئے سر کیئر سٹامر نے کہا ’اگر آپ کے پاس ڈیجیٹل آئی ڈی نہیں ہے تو آپ برطانیہ میں کام نہیں کر سکیں گے۔ یہ اتنا ہی آسان ہے‘جن کے پاس سمارٹ فون نہیں وہ کیا کریں گے؟

حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ یہ نظام ’جامع‘ ہوگا اور ان لوگوں کے لیے بھی کام کرے گا جن کے پاس سمارٹ فونز، پاسپورٹ یا قابل اعتماد انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔

اس سال کے آخر میں شروع ہونے والی ایک عوامی مشاورت میں متبادل ذرائع پر غور ہو گا۔ ممکنہ طور پر ان میں دستاویزات یا چہرے کی شناخت شامل ہوگی۔

ان افراد میں بوڑھے افراد یا بے گھر افراد شامل ہو سکتے ہیں۔

کن ملکوں کے پاس پہلے سے ڈیجٹل کارڈز موجود ہیں؟

برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایسٹونیا، آسٹریلیا ، ڈنمارک اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں استعمال ہونے والے ڈیجیٹل شناختی نظام کے ’بہترین پہلوؤں کو اپنائے گی۔‘

ان ممالک میں سے ہر ایک کا اپنا منفرد نظام ہے لیکن سب میں یہ کچھ سرکاری یا بینکاری خدمات تک رسائی حاصل کرتے وقت لوگوں کی شناخت ثابت کرنے کے طریقے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ایسٹونیا نے 2002 میں اپنا لازمی ڈیجیٹل شناختی نظام متعارف کرایا تھا اور لوگ اسے طبی ریکارڈز، ووٹنگ، بینکنگ اور ڈیجیٹل دستخطوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر لوگوں کے سمارٹ فونز پر شناختی کارڈ کے ڈیجیٹل ورژن کے طور پر محفوظ کیا جاتا ہے ۔آسٹریلیا اور ڈنمارک کے پاس ڈیجیٹل شناختی ایپس ہیں جنھیں لوگ ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں اور سرکاری اور نجی خدمات میں لاگ ان کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔انڈیا میں ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعے لوگ رہائش اور شناخت کے ثبوت کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ایک منفرد 12 ہندسوں کا حوالہ نمبر حاصل کر سکتے ہیں۔

بہت سے دوسرے ممالک بھی کسی نہ کسی طرح کی ڈیجیٹل آئی ڈی استعمال کرتے ہیں، جن میں سنگاپور، یونان، فرانس، بوسنیا اور ہرزیگووینا، متحدہ عرب امارات، چین، کوسٹا ریکا، جنوبی کوریا اور افغانستان شامل ہیں۔

کیا برطانیہ میں پہلے بھی شناختی کارڈ متعارف ہوئے؟

جی ہاں، ٹونی بلیئر کی لیبر حکومت نے 2000کی دہائی کے اوائل میں رضاکارانہ شناختی کارڈز کے لیے قانون سازی کی۔

تاہم اس سکیم کو 2011 میں کنزرویٹو کی زیر قیادت اتحاد نے ختم کر دیا تھا جس کا موقف تھا کہ یہ بہت مہنگا ہے۔

برطانیہ میں صرف جنگ کے دوران لازمی شناختی کارڈ موجود تھے۔

اگرچہ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی سالوں تک برقرار رہے، ونسٹن چرچل کی حکومت نے اخراجات اور پولیس کے استعمال پر تنقید کیے جانے کے بعد 1952 میں انھیں ختم کر دیا تھا۔

کچھ لوگ اس ڈیجیٹل آئی ڈی کے خلاف کیوں ہیں؟

شہری آزادی کے حامی گروپوں کا موقف ہے کہ یہاں تک کہ ایک محدود ڈیجیٹل آئی ڈی بھی زیادہ مداخلت کرنے والے نظام کی راہ ہموار کر سکتی ہے، جس سے رازداری، ڈیٹا سکیورٹی اور حکومت کی حد سے تجاوز کے بارے میں خدشات پیدا ہوسکتے ہیں۔

بگ برادر واچ نے سات دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر وزیر اعظم کو خط لکھ کر ان پر زور دیا ہے کہ وہ اس منصوبے کو ترک کردیں اور کہا ہے کہ اس سے 'غیر مجاز تارکین وطن کو مزید تاریکیوں میں دھکیل دیا جائے گا۔‘

برطانوی پارلیمان کی ویب سائٹ پر 10 لاکھ سے زائد افراد نے ڈیجیٹل شناختی کارڈ متعارف کرانے کے خلاف ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔

ایک لاکھ سے زیادہ دستخط حاصل کرنے والی درخواستوں پر پارلیمنٹ میں بحث کے لیے غور کیا جاتا ہے۔

دیگر اہم ناقدین میں سابق کنزرویٹو کابینہ کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس شامل ہیں جنہوں نے 2000کی دہائی میں لیبر کے شناختی کارڈ سکیم کے خلاف مہم چلائی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’کوئی بھی نظام ناکامی سے محفوظ نہیں ہے‘۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ حکومتیں اور ٹیک کمپنیاں بارہا لوگوں کے ڈیٹا کی حفاظت میں ناکام رہی ہیں۔

’یہ میرے پاس ہو تو میں زیادہ محفوظ ہوں‘: امریکہ میں ملک بدری کے منڈلاتے خطرے کے بیچ تارکینِ وطن کو ’ریڈ کارڈ‘ کا سہاراتارکینِ وطن کے لیے یورپ کا دروازہ کہلایا جانے والا گھنا جنگل: ’بھاگنے کی کوشش کریں تو گارڈز آپ کے پیچھے کتے چھوڑ دیتے ہیں‘’اپنے گھر جاؤ‘: لندن میں تارکینِ وطن مخالف پُرتشدد مظاہرے پاکستان سمیت دیگر ایشیائی کمیونٹی پر کیسے اثر انداز ہو رہے ہیں؟امیگریشن پالیسی، مہنگائی اور ہاؤسنگ کا بحران: ’کینیڈا کے انتخابات ملک میں تارکینِ وطن کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے‘یونانی کوسٹ گارڈز پر تارکینِ وطن کو بحیرہِ روم میں پھینکنے کا الزام: ’انھوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارتے سُنا مگر مدد نہیں کی‘برطانیہ داخلے کی کوشش میں کتنے تارکینِ وطن ہلاک ہوئے؟27 تارکین وطن کی ڈوب کر ہلاکت: ’انگلش چینل کو قبرستان بنانے کی اجازت نہیں دیں گے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More